1992 سے 2023 کم و بیش تیس سال میں سائنسدانوں نے صفر سے 5500 ایسے سیارے ڈھونڈے ہیں جو ہماری کہکشاں میں دوسرے ستاروں کے گرد ویسے ہی گھوم رہے ہیں جیسے ہماری زمین اور نظامِ شمسی کے دیگر سیارے سورج کے گرد گھومتے ہیں۔ محض 30 سال میں۔ ان میں سے کئی مشتری کی طرح گیس جائنٹ ہیں، کئی زمین جیسے ٹھوس سطح کے چٹانی سیارے۔ کئی جن ستاروں کے گرد گھومتے ہیں وہ سورج سے بڑے اور گرم ہیں اور کئی سورج سے چھوٹے اور ٹھنڈے۔ کئی اپنے ستاروں سے اتنے فاصلے پر کہ وہاں مائع حالت میں اگر پانی موجود ہے تو بھاپ بن کر خلاؤں میں نہ بکھر جائے اور کئی اتنے قریب کہ دہکتے انگارے۔
آج خلاؤں اور زمین پر موجود جدید دوربینوں اور فلکیاتی مشاہدہ گاہوں میں مزید سیارے ڈھونڈے جا رہے ہیں جو اس وسیع کائنات میں کھربا ہا کھرب سے بھی زیادہ ہیں۔ اور وہ جنہیں ڈھونڈا جا چکا ہے انکی فضاؤں کا خلائی دوربینوں کے حساس سائنسی آلات سے تجزیہ کیا جا رہا ہے کہ وہاں کوئی زندگی ہے یا نہیں۔
یہ تمام سیارے زمین سے سینکڑوں سے ہزاروں نوری سال دور ہیں۔ نوری سال وہ فاصلہ جو روشنی کی رفتار سے جو کائنات کی حد رفتار ہے سے ایک سال یعنی 365 دنوں کی مدت میں طے کیا جائے۔
ان تک شاید ہم کبھی نہ پہنچ پائیں اور ان میں سے کئی پر اگر آج ہم زندگی ڈھونڈ بھی لیں تو شاید اب تک ان پر زندگی کسی ذہین مخلوق کے ارتقا کے بعد ختم بھی ہو چکی ہو۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ ان میں سے کئی پر زندگی ابھی شروع ہی نہ ہوئی ہو۔ یہ سب ممکن ہے کیونکہ کائنات بے حد وسیع اور قدیم ہے۔
ہم یہ سب جان کر کیا حاصل کریں گے؟ جستجو انسان کا خاصہ ہے، جستجو ختم تو آدمی ختم۔ ہم دراصل ان سیاروں میں ان سیاروں پر پنپتی زندگی نہیں بلکہ خود کو اور اپنے مقام کو اس بے کراں کائنات میں ڈھونڈ رہے ہیں جو ہماری بقا کے لیے ضروری ہے۔ سمجھ سکتے ہیں تو اس نقطے کو سمجھ لیجئے۔ بات مکمل ہے!!
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...