(Last Updated On: )
کوئی شعلہ یا الاؤ کہ کہیں شور اٹھے
آگ سینے میں جلاؤ کہ کہیں شور اٹھے
آج زنداں میں عجب عالمِ تنہائی ہے
کوئی زنجیر ہلاؤ کہ کہیں شور اٹھے
کوئی منصور سے بولو کے سرِ دار چلے
کوئی سرمد کو بلاؤ کہ کہیں شور اٹھے
گر یہ خواہش ہے کہ ٹوٹے یہ طلسماتِ قفس
جام رندوں کو پلاؤ کہ کہیں شور اٹھے
عمر گزری ہے انالحق کی صدا آئی نہیں
آؤ آواز لگاؤ کہ کہیں شور اٹھے
عشق شبیر کا کہتا ہے رضاؔ کانوں میں
سر کو نیزے پہ چڑھاؤ کہ کہیں شور اٹھے