(Last Updated On: )
یہ شہر اس کے واسطے جنگل بنا رہے
پاگل کو چاہیے کہ وہ پاگل بنا رہے
اندر کی بارشیں اُسے چھت پر لے آئیں گی
کچھ دیر آسمان پہ بادل بنا رہے
خیمے سے بھیجتی ہے دعاؤں کی وہ رسد
سو حوصلہ ہمارا مسلسل بنا رہے
اب اس سے بڑھ کے پیار کی ہو کون سی دلیل
اک شخص تیری آنکھ کا کاجل بنا رہے
بندے کو لے ہی جاتی ہے خوش بُو گلاب تک
اپنے حساب سے کوئی اوجھل بنا رہے
ایسا بھی اِس جہان نے کیا کِہ دیا تمھیں
ہر پل تمھارے ماتھے پہ اک بل بنا رہے
مشروط قربتوں سے تھی اس کی چمک دمک
اب مجھ سے دور رہ کے وہ پیتل بنا رہے