(Last Updated On: )
ہم نے اچھا برا نہیں دیکھا
دل دیا، دے دیا، نہیں دیکھا
جانچنے کا دماغ تھا کس کو
جو بھی آیا گیا، نہیں دیکھا
کون پہلو میں آ کر بیٹھ رہا
کون چلتا بنا، نہیں دیکھا
بُت بنائے ہیں اور توڑے ہیں
دکھ ہوا، کیا ہوا، نہیں دیکھا
رنجشوں کا حساب رکھتا کون
دیکھ کر بھی کہا نہیں دیکھا
غم سے راحت کشید کرتے ہیں
جبر ایسا بھلا، نہیں دیکھا
اب تو معمول ہو گیا ہے میاں
یہ تماشا نیا نہیں دیکھا
چپ کھڑا ہے تماش بینوں میں
ایسا زیرک خدا نہیں دیکھا
اک تعلق سا درمیان میں ہے
ورنہ کہنے کو کیا نہیں دیکھا
ہے نتیجہ گریز کا انجمؔ
عشق اُلجھا ہوا نہیں دیکھا
٭٭٭