یہ اس شہر کا قابل ذکر چوک ہے۔ اس چوک کا نام ہے تین بتی چار چوک، میں اس چوک پر آکر رک گیا ہوں۔ اس چوک سے تین راستے شہر کی غریب اور متوسط طبقوں پر مشتمل علاقوں کی طرف جاتے ہیں۔ اور چوتھا راستہ امراء کی کوٹھیوں کی طرف جا رہا ہے۔ میں تین راستوں کا راہی ہوں۔ عمر کا بیشتر حصہ ان ہی علاقوں میں گزرا ہے ۔ برسوں سے ان علاقوں میں علم کے چراغ روشن کرنے کی سعی کرتا رہا ہوں مگر جب سے ان علاقوں میں کرفیو، دھواں، قتل و غارت گری اور بد معاشی کا راج قائم ہوا ہے ۔ مجھ جیسے شریف آدمی کا رہنامشکل ہو گیا ہے۔ آج جیسے تیسے کر کے میں تین بتی چار چوک تک پیدل پہنچا ہوں۔ اب میں اس تگ و دو میں ہوں کہ چوتھے راستے یا چوتھے کھونٹ کی طرف چل دوں مسئلہ یہ ہے کہ جائوں کیسے۔ سو میں بہت دیر سے اس چوک پر کھڑا یہی سوچ رہا ہوں کہ آگے کیسے بڑھوں اور اپنا مقصد کیسے پائوں۔ ذہن سوچ سوچ کر مائوف ہو گیا ہے۔ میں اپنا بھرا پرا گھر خالی چھوڑ کر آگیا ہوں ۔ ہو سکتا ہے کہ کسی نے خالی پا کر قبضہ بھی کر لیا ہوخیر کر لیں قبضہ۔ میری بلا سے مگر مجھے آگے جانے کے لئے کونسا گر آزمانا چاہئے ۔ اچھا لفٹ لینے کی کوشش کرتا ہوں۔ مگر ایسے مواقع پر مرد لفٹ نہیں دیتے۔ خواتین خاصی رحم دل ہو تی ہیں۔ میرا خیال ہے کہ اس سلسلے میں کسی خاتون کو زحمت دوں۔ لیجئے۔ لال بتی جل اٹھی ہے۔ یکے بعد دیگرے بہت سی گاڑیا ںکھڑی ہونے لگی ہیں۔ میں نے ایک خاتون کی گاڑی کے قریب جا کر کہا۔
آنر ا بیل میڈم۔ اگر آپ سخن زار کی طرف جا رہی ہیں تو براہِ کرم مجھے بھی ساتھ لے لیں۔ شہر کے مخدوش حالات کی بناء پر آپ کو تکلیف دی جا رہی ہے۔ اس تکلیف کے لئے معذرت خواہ ہوں۔ امید ہے کہ آپ انسانی ہمدردی کے تحت مجھ پر احسان کریں گی۔ اچھا۔ آئیے بیٹھ جائیے۔ میں نے ایک دم کار کا دروازہ کھولا اور پھرتی سے بیٹھ گیا۔ معزز خاتون میں لاہور سے سیدھا آرہا ہوں مجھے توقع نہ تھی کہ روشنیوں کے اس شہر پر اندھیرے چھا جائیں گے۔ میڈم بدستور کار چلانے میں مصروف تھی۔
میں نے پھر آہستہ سے کہا معزز خاتون آپ کی رحم دلی کا ہمیشہ ممنون رہوں گا۔ میڈم خاموشی سے کار چلاتی رہی۔ میڈم میں یہاں اپنے ایک دوست کی تلاش میں آیا ہوں ۔ برسوں پہلے نیویارک میں ملاقات ہوئی تھی۔ پتہ بھی دیا تھا۔ شاید۔ اب وہ وہاں ہوں یا کہیں اور منتقل ہو گئے ہیں ۔ بہر حال اپنے سمن زار میں ہی ہیں۔ آپ نیو یارک میں کیا کرتے ہیں؟ معزز خاتون ۔ یہ خاکسار دنیا بھر میں آرٹ کنسرٹ ترتیب دیتا رہا ہے دنیا کے ہر بڑے شہر میں، میں نے کلچرل پروگرام کئے ہیں۔ ریشماں، نصرت فتح علی خان، اور بہت سوں کو مغربی دنیا میں، میں نے ہی روشناس کرایا ہے۔ بہت اچھا۔ آپ تو بین الاقوامی آدمی ہیں۔ جی۔ دنیا کا چپہ چپہ چھان مارا ہے ۔ آرٹ چیز ہی ایسی ہے ۔ معزز خاتون ۔ جو انسان کو ساری عمر بیاکل رکھتی ہے۔ دیکھئے جناب۔ سمن زار آگیا ہے۔ آپ کو کہاں جانا ہے۔ معزز خاتون۔ مجھے بڑے دکھ سے کہنا پڑ رہا ہے کہ میری سمجھ میں نہیں آرہا کہ کہاں جائوں۔ بہر حال آپ کا بہت بہت شکریہ۔ آپ جہاںمناسب خیال کریںاتاردیں۔ نا حق آپ کو زحمت ہوئی۔ مگر آپ کہاں بھٹکتے پھریں گے۔ معزز خاتون۔ جو قسمت میں لکھا ہے وہ پورا ہوگا۔ ہم تو ذرے ہیں گرد راہ ہو جائیں گے۔ نہیں۔ میرا خیال ہے کہ آپ ہمارے ساتھ چلئے۔ پھر دیکھیں گے کہ کیا ہوگا اور پھر تھوڑی ہی دیر بعد میڈم کی گاڑی ایک وسیع و عریض بنگلے کے سامنے کھڑی تھی۔ میڈم نے کار کا ہارن بجایا اور تھوڑی ہی دیر بعد گاڑی بنگلے میں داخل ہوئی۔ پٹھان چوکیدار سلام بجا لایا اور ہم دونوں گاڑی سے نیچے اتر کر کھڑے ہوئے۔
ہاں جناب آپ کا نام کیا ہے۔ میڈم خاکسار کو غلا م کہتے ہیں۔ ویسے میرا آفیشل نام غلام چارلی ہے۔ اچھا۔ غلام صاحب۔ میں اپنے ملازم مرزا صاحب کو بھیجتی ہوں وہ آپ کو آپ کا کمرہ دکھا دیں گے۔ یہ آپ کا ہی گھر ہے۔ تکلف مت برتئے گا۔ ٹھیک۔ اب ملاقات رات کے کھانے کے بعد ہوگی۔ خدا حافظ۔
تھوڑی دیر بعد مرزا منور صاحب نے مجھے ایک کمرے میں پہنچا دیا اور کہا حضرت آرام فرمائیں۔ کسی چیز کی ضرورت ہو تو بلا تکلف حکم کیجئے گا۔ بڑی مہربانی مرزا صاحب۔ آپ کا شکریہ۔
اور اس کے بعد ہم نے اطمینان سے ایک لمبی نیند لی۔طویل مسافت کے بعد ویسے بھی مسافر تھک جاتے ہیں اور جہاں پڑائو پاتے ہیں۔ بے فکر سو جاتے ہیں۔سو یہی ہماراحال ہوا تھا وہ تو مرزا منور نے جب جگایا تو ہوش آیا۔ مرزا منور نے آہستہ سے کہا ۔ حضرت رات کا کھانا یہیں لے آئوں۔ ہاں کوئی مضائقہ نہیں مرزا صاحب۔ مگر ذرا میں تھوڑا سا نہا لوں۔ نہانے کے بعد مرزا منور کھانا لے آیا اور ہم نے ڈٹ کر کھایا۔ اس کے بعد میں نے مرزا منور سے کہا۔ میاں کب سے یہاں ہو۔حضرت ۔ برسوں سے میڈم کا نمک کھا رہا ہوں۔ ہماری میڈم بہت ہی رحمدل اور خدا ترس خاتون ہیں۔ مرزا صاحب! آپ نے میرے دل کی بات کہہ دی ۔ واقعی میڈم رحمدل اور خدا ترس خاتون ہیں۔ ورنہ ہم نہ جانے کہاں رُل رہے ہوتے ۔ حضرت ۔ میں نے آج تک بہت دنوں کے بعد میڈم کو خوش دیکھا ہے وہ مجھے کہہ رہی تھیں۔ مرزا منور۔ اللہ نے ہماری سن لی اور ایک نہایت ہی شریف، مہذب اور بہترین انسان کو ہماری مدد کیلئے بھیج دیا ہے۔ مرزا صاحب۔ میڈم کا حسن ظن ہے ورنہ ہم سے نکوز مانے میں بہت ۔ حضرت۔ ابھی کچھ ہی دیر بعد میڈم کی دوست آئیں گی۔ پھر محفل جمے گی آپ کو خاص طور سے اس محفل میں شرکت کرنی ہے۔ اچھا مرزا صاحب ہم تیار ہیں۔ حضرت میں میڈم کو جا کر بتلاتا ہوں۔ چند ہی لمحوں بعد مرزا منور دوبارہ آگیا اور گویا ہوا۔ حضرت چلیے آپ کا لان میں انتظار ہو رہا ہے۔ اور پھر ہم مرزا منور کی ہمراہی میں لان تک چلتے گئے۔
آئیے چارلی صاحب۔ کیا حال ہیں۔ معزز خاتون۔ آپ کی مہربانی سے ٹھیک ہیں۔ ان سے ملئے یہ ہیں مسٹر جی چارلی انٹر نیشنل آرٹ آرگنائزر ۔ آپ نے دنیا کے تمام بڑے بڑے ممالک اور شہروں میں معروف پاکستانی فنکاروں کو روشناس کرایا ہے۔ آج ہمارے درمیان ہیں۔ اور مسٹر چارلی صاحب۔ یہ مسزملک احمد ہیں۔ یہ مسٹر ملک ہیں۔ یہ مسٹر سہگل ہیں اور یہ مسز کمال۔ میں نے آپ کا تعارف کروا دیا ہے۔ ہاں مسٹر چارلی ۔ میڈم نور نے آج آپ کا تذکرہ ٹیلی فون پر کیا تو آپ سے ملنے کا اشتیاق بڑھا اورحاضر خدمت ہوئے ہیں۔
مسز ملک آپ کی اور میڈم نور کی قدردانی کا شکریہ۔ بندہ کس قابل ہے۔ مسٹر چارلی ، مسز ملک سے آپ واقف ہونگے ۔ آپ کے گھرانے کی آرٹ کیلئے خدمات بے بہا ہیں۔ آپ کی والدہ کلکتے کی تھیٹر کی معروف فنکارہ رہی ہیں۔ آپ کے بے شمار فلمیں آج بھی لوگوں کے دلوں پر نقش ہیں۔مسز ملک نے ملک صاحب کی خواہشات کا احترام کرتے ہوئے اپنے عین عروج کے دنوں میں فلمی دنیا کو خیر باد کہہ دیا۔ اب مسز ملک کی صاحبزادی آرٹ کی طالبہ ہیں اور برسوں کتھک مہاراج سے انھوں نے کسب فن کیا ہے۔ ان کی خواہش ہے کہ آپ ان کے لئے بمبئی اور کلکتے میں دو پروگرام آرگنائز کریں۔
میڈم نور۔ آپ کا حکم سر آنکھوں پر ۔میں ان شاء اللہ اگلے ماہ تک بمبئی میں ایک فنکشن آرگنائز کردونگا۔ اور ہاں آپ نے جکارتہ دیکھا ہے مسٹر چارلی۔ میڈم نور نے آہستہ سے کہا۔ معزز خاتون میں نے جکارتہ، سماترا، وغیرہ سب دیکھے اور آپ کے خیال میںہم وہاں کیا کر سکتے ہیں۔ میڈم نور نے دوبارہ کہا۔ معزز خاتون محترم۔ ہم ان دونوں جگہوں پر بہت کچھ کر سکتے ہیں وہاں پر مرد و زن کے لباس کا لازمی حصہ “باتا ” /
باتک ہوتا ہے۔ یہ مخصوص پرنٹ کا کپڑا ہوتا ہے اگر ہم محنت کریں اور معیار کا خیال رکھیں تو ہمیں ایکسپورٹ کی طرف توجہ دینا ہوگی۔ دنیا کی بہترین کاٹن ہمارے یہاںپیدا ہوتی ہے۔ ہم تھوڑی سی محنت ، توجہ اور لگن سے لاکھوں ڈالر کما سکتے ہیں۔
ٹھیک۔ مسٹر چارلی۔ تو پہلے یہ طے پایا کہ آپ اگلے ماہ تک دونوں کام سر انجام دے دیں گے۔ جی معزز خاتون۔ آپ کی سر پرستی اور مدد میں یہ دونوں کام ہو جائیں گے۔ آپ بے فکر رہئے۔ میرا خیال ہے کہ پھر اس کے بعد یورپ اور دیگر غیر ممالک میں ہم کلچرل پروگرام آرگنائز کریں گے۔ معزز خواتین دیکھئے میری ناقص رائے میں بزنس بھی آرٹ کی ایک شکل ہے مگر کبھی کبھی آرٹ بھی بزنس بن جاتا ہے۔ اس سارے کھیل میں خلوص نیت، لگن ، محنت اور توجہ کی ضرورت ہے۔ دنیا بھر میں کامیاب ترین بزنس مین اور کامیاب ترین فنکاروں نے انہی امور پر توجہ دی ہے جس کا نتیجہ آپ کے سامنے ہے۔ ہُن تب ہی برستا ہے جب فن کی اعلیٰ قدریں پروان چڑھتی ہیں۔
واہ مسٹر چارلی کیا عمدہ بات کہی ہے آپ نے بزنس اور آرٹ ایک ہی چیز ہیں۔ معزز خواتین۔ میری ناقص رائے میں بزنس اور آرٹ میں چولی اور دامن کا ساتھ ہے ۔ واہ بھئی واہ۔ میڈم نور۔ آپ نے ایک با کمال ہنر مند سے ہماری ملاقات کرائی ہے۔ کامیابی ہمارا مقدر ہے۔ مسزملک نے فلک شگاف قہقہہ لگاتے ہوئے کہا ۔
معزز خواتین ۔ بزنس کا اصول یہ ہے کہ جتنی رقم صرف کی جائے گی اتنا ہی منافع اچھا آئے گا۔ میرے خیال میں، سب سے پہلے مجھے بمبئی اور جکارتہ جانا ہوگا ۔ اپنا پلان میں خود آرگنائز کرونگا۔ آپ صرف میری سر پرستی اور مددفرمائیں۔ مسٹر چارلی مگر سنا ہے کہ بمبئی میں ٹھاکرے کوئی پروگرام نہیں کرنے دیگا۔ محترم بی بی۔ ٹھاکروں سے ہم ہمیشہ سے نبٹتے آئے ہیں۔ آپ بے فکر رہیں۔ یہ ساری درد سری میری ہے۔ آپ صرف یہ دیکھیں کہ ہم نے اپنا ٹارگٹ کیسے حاصل کرنا ہے۔ اور سنیئے۔ میرا خیال ہے کہ جکارتہ میں ہم جو باتک شو کریں گے اس میں ماڈل ہوںگی اور مسز ملک آپ کی صاحبزادی کا رقص بھی ہوگا۔ امرا ء کی بیگمات کو مدعو کیا جائیگا۔ آپ نے غالباً سنا ہوگا کہ دنیا بھر میں سب سے پہلے ہر نیا فیشن امراء کی بیگمات کے ذریعہ سے پھیلتا ہے۔ واقعی۔ آپ نے بڑی عمدہ بات کی ہے۔ مسٹر چارلی ۔ ویل ڈن۔
یہ رنگارنگ محفل رات گئے خوشگوار اثرات لئے اختتام پذیر ہوئی ۔ بیگمات نے مجھے 30لاکھ کے چیک دیئے تاکہ میں آسانی سے پروگرام ترتیب دے سکوں ۔ صبح ناشتے کے بعد مرزا نے ہنستے ہوئے کہا بابو آپ نے کمال ہنر مندی سے بیگمات سے رقم نکلوالی لائیے کچھ ہمیں بھی عطا کیجئے۔ میں نے کہا مرزا جی غلام مالکوں سے غداری نہیں کرتے یہ تو پہلی قسط ہے دوسری قسط میں آپ کا منہ میٹھا کریں گے لوگ باگ میری ترقی کا سن کر حسد کریں گے میرا ثقافتی طائفہ دنیا بھر میں اک بار پھر تہلکہ مچائے گا۔ دھن ،بارش کی طرح سے برسے گا خوش حالی ہمارا مقدر ہوگی بس کچھ دن انتظار کرو محنت رنگ لائیگی۔ چار چوک پر ڈیرہ لگانے والے بازی گرہمیشہ جیتتے ہیں اور چوتھے کھونٹ کی انت پانے کی تگ و دو کرنے والے عام انسان نہیںہوتے وہ کوچہ و بازار کی مقدس کہانیوں کے امین ہوتے ہیں۔ یہ زندگی کے ہر رنگ سے واقف ہوتے ہیں۔ ہم کارخانہ جنوں کے پروردہ لوگ ہیں ۔ مرزا جی بغیر مفاد کے کون ہُن برساتا ہے ۔ ہاں جی آپ ٹھیک کہتے ہیں ہر زمین اپنے اندر ایک خاصیت رکھتی ہے ۔ مرزا جی یہی نکتہ سرفرازی عطا کرتا ہے میں جس سر زمین سے تعلق رکھتا ہوں اس لیے جمال کے جملہ رموز سے واقف ہوں ۔ ہاں جی ۔ ہاں جی ۔ بنارس کے لوگ ہمیشہ سے ہی مشہور رہے ہیں۔ کیوں مرزا جی سنو۔ چوتھی کھونٹ کی تلاش بے عقل لوگ نہیں کرتے اور عشق “اور ” جاتے ہوئے عقل کو گروی نہیں چوکنا رکھتے ہیںہم بنارسی لوگ، تب چلتا ہے کارخانہ جنوں زر آمیز۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...