نبی مکرم ﷺ نے فرمایا’’جنت ماں کے قدموں کے نیچے ہے‘‘۔ جنت اور اللہ تعالیٰ کی رضاکے لیے ہمیں اپنی والدہ کے سامنے عجزو انکساری کے پر پھیلانے پڑیںگے۔ ماں کی شفقت کا سایہ اتنا گھنا اور پرسکون ہوتا ہے جس کی مثال نہیں۔ انسانی زندگی میں بہت سے ایسے مواقع آتے ہیں کہ جب تمام دوستی و خونی رشتے چھوٹ جاتے ہیں۔ لیکن ماںکے احسانات، شفقتیں اور دعائیں ہر حال میں موجود رہتی ہیں۔ ماںوہ عظیم نعمت ہے جو اپنے سکون کی پروا کیے بغیر اپنی اولاد کو سکون فراہم کرتی ہے۔ اس لیے دنیا کی کوئی چیز کھو جائے تو اس کو پھر بھی حاصل کیا جا سکتا ہے۔ مگر ماں کے وجود سے محروم ہونے کے بعد اس کو دوبارہ کسی بھی قیمت پر حاصل نہیں کیا جاسکتا۔ یہی وجہ ہے کہ ماںجیسی ہستی اگر اس دنیا سے روٹھ جائے تو یہ دنیا ویران لگنے لگتی ہے۔ حضرت ابوبکر کنصائی ؓ مشہور بزرگ تھے۔ والدہ سے حج کی اجازت مانگی والدہ بیٹے سے محبت کے سبب جدائی برداشت نہ کر سکتی تھی۔ مگر بیٹے کو اس مقدس فریضے سے روک بھی نہیںسکتی تھی۔ چناں چہ انھوں نے اجازت دے دی۔ ابھی قافلہ تھوڑی ہی دور گیا تھا کہ آپ کا دل گھبرایا اور واپس تشریف لائے اور کیا دیکھتے ہیں۔ ان کی خدمت میں حاضر ہوئے اور پوچھا امی جان! کیا آپ نے مجھے حج پر جانے کی اجازت نہیں دی تھی۔ والدہ نے جواب دیا بیٹا اجازت تو دی تھی مگر ساتھ ہی یہ عہد بھی کیا تھا کہ جب تک واپس نہیں لوٹو گے ۔ یہیں بیٹھی انتظار کرتی رہوں گی۔ آپ پر ان الفاظ کا اتنا اثر ہوا کہ والدہ جب تک زندہ ہیں حج کے لیے نہیںگئے اور ان کی خدمت کرتے رہے۔ کسی نے کیا خوب کہا کہ ماںکی مامتا ایک ان مول ہیرا ہے اور اس کی قدروقیمت وہی جانتے ہیں کہ جن کی مائیں اب اس دنیا میںنہیں ہیں۔ ماںگھر کی وہ زینت ہے ۔ جو شہد کی طرح میٹھی اور پھولوں کی طرح نازک ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم کو والدین کاخدمت گار اورتابع فرمان بنائے۔ (آمین)
٭٭٭
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...