انصاف ایسی چیز ہے جس کے بارے میں لوگ ہر وقت بات کرتے رہتے ہیں لیکن اس کا مطلب کیا ہوتا ہے؟ کئی ایکٹیوسٹ معاشی انصاف کی بات کرتے ہیں۔ پولیس اور قانون دان مجرموں سے انصاف کا کہتے ہیں۔ اساتذہ، والدین اور طلبا بھی انصاف کے بارے میں بہت بات کرتے ہیں لیکن اس میں یہ لفظ استعمال نہیں کرتے۔ جب کھیل کے میدان میں لڑائی ہو یا امتحان میں اتنے نمبر نہ آئیں جس کے حقدار ہوں تو ہم جس چیز کی بات کر رہے ہیں، وہ بھی انصاف ہے۔ اور ہمارا خیال ہوتا ہے کہ ہمیں معلوم ہے کہ یہ کیا بلا ہے لیکن شاید نہیں۔ یا کم از کم اس بارے میں ہم کوئی اتفاق نہیں رکھتے۔
کیا ہم مساوات کی بات کر رہے ہیں؟ غیرجانبداری کی؟ حق کی؟ یا اس چیز کو حاصل کرنے کی جس کی ہمیں ضرورت ہے؟ کئی بار انصاف کے ترازو کا ذکر آتا ہے۔ یہ تصور قدیم یونان کا ہے جہاں انصاف کو توازن کے طور پر سمجھا جاتا تھا۔
اس نکتہ نظر میں ایک منصفانہ معاشرہ وہ ہے جس میں ہر کوئی اپنا کردار ادا کر رہا ہو تا کہ معاشرہ ہم آہنگی سے چلتا رہے۔ معاشرتی آرڈر میں اپنی جگہ کو توڑنا ۔۔۔ خواہ وہ ایسی ہو جسے آپ نہ کرنا چاہتے ہیں ۔۔۔ غیرمنصفانہ ہے۔
کئی بار انصاف کو زیادہ utilitatarian طریقے سے دیکھا جاتا ہے جس میں منصفانہ معاشرہ وہ ہے جو اپنے شہریوں کی زندگی کے مجموعی معیار کو بلند کرنے کی کوشش کرے۔ اور اگر آپ سیاسی طور پر libertarian ہیں تو آپ کے لئے منصفانہ معاشرہ وہ ہو گا جو اپنے شہریوں کے لئے زیادہ سے زیادہ آزادی فراہم کرے۔
تو پھر انصاف کیا ہے؟ کسی بھوکے کا وقت پر پیٹ بھر دینا؟ کسی مجرم کو جیل بھیج دینا؟ جزا اور سزا کی بنیاد میرٹ پر کرنا؟
جس وجہ سے لوگ انصاف کی بات ہمیشہ کرتے رہتے ہیں وہ یہ ہے کہ انصاف معاشرتی اور اخلاقی اصولوں کی بنیاد ہے جن سے ہمارا روز واسطہ پڑتا ہے۔ اور آخر میں انصاف آپ کے لئے کیا معنی رکھتا ہے؟ یہ بتاتا ہے کہ آپ کے خیال میں معاشرے کو کیسے کام کرنا چاہیے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگر آپ نے نوٹ کیا ہو تو جب لوگ انصاف کی بات کرتے ہیں تو اس میں عام طور پر “اشیا” کی بات کی جا رہی ہوتی ہے۔ کس کے پاس زیادہ اشیاء ہیں، جیسا کہ پیسہ، خوراک، صحت یا صفائی تک رسائی۔
کون طے کرے گا کہ کس کو کیا ملے گا اور کس بنیاد پر؟ اخلاقی فلسفے کا جو علاقہ ان سوالات کا جائزہ لیتا ہے اس کو distributive justice کہا جاتا ہے اور یہاں پر کئی مکتبہ فکر ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مثلاً، کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ ہر ایک کو ایک ہی قسم کی اور ایک جتنی اشیا ملنی چاہییں، خواہ جو بھی ہو۔ یہ “انصاف بطور برابری” کا نکتہ نظر ہے۔
یہ ٹھیک لگتا ہے لیکن کیا یہ واقعی انصاف ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میری ضرورت یا خواہش آپ سے مختلف ہو سکتی ہے۔ یہاں پر ایک متبادل “ضرورت کے مطابق انصاف” کا آئیڈیا ہے۔ اس کا مطلب یہ کہ سب کو اس لئے برابر نہیں ملے کیونکہ ہم سب کی ضروریات ایک نہیں۔ اس منطق کے مطابق انصاف کا تعلق ہماری ضرورت سے بھی ہے۔ جس کی ضرورت زیادہ ہے، اسے زیادہ ملے گا۔
کچھ کے نزدیک اس خیال کی تّک بنتی ہے جبکہ کچھ یہاں پر بحث کریں گے کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ کچھ لوگوں کو دوسروں پر ترجیح ملے گی۔ اور جن کی ضرورت محدود ہے، وہ یہاں نقصان میں ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک اور خیال میرٹ کی بنیاد پر انصاف ہے۔ اگر آپ کا نکتہ نظر اس قسم کا ہے تو آپ میرٹ پر زور دیں گے۔ اور میرٹ کا مطلب برابری سے ہٹ جانا ہے۔ اس طرح کے انصاف میں ملنے کا تعلق اس سے ہے کہ کون کتنا حقدار ہے۔ اور آپ کس کے حقدار ہیں اور کس کے نہیں، اس کا تعلق اس سے ہے، جو آپ نے کیا ہے۔
یہ نکتہ نظر محنت کرنے اور صلاحیت کی بنیاد پر کچھ لوگوں کو دوسروں پر ترجیح دیتا ہے جبکہ گڑبڑ کرنے والوں کو سزا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پھر ایک اور سادہ لگنے والا طریقہ بیسویں صدی کے سیاسی فلاسفر جان رالز کا ہے۔ یہ “fairness کی بنیاد پر انصاف” ہے۔ رالز کے مطابق جو سماجی سسٹم میں ناہمواری پائی جاتی ہے۔ اسے کم خوش قسمت لوگوں کی طرف جانبداری دکھانی چاہیے۔ تا کہ معاشرے کا میدان ہموار ہو سکے۔
رالز کا یہ آئیڈیا “ضرورت کی بنیاد پر انصاف” سے قریب تر ہے جس کا فوکس اس پر ہے کہ ہر کوئی اس پوزیشن میں ہو کہ بنیادی ضروریات حاصل کر سکے۔ رالز کا استدلال تھا کہ دنیا فطری طور پر ناہمواریوں سے بھری ہوئی ہے۔ اس میں قسمت کا کردار ہے۔ آپ کی زندگی کو تشکیل دینے والے بہت سے عوامل ہیں جو مکمل طور پر آپ کے اختیار سے باہر ہیں۔
رالز کا اس بارے میں تصور یہ ہے کہ اس بارے میں جو لوگ ایسے عوامل کی وجہ سے کم خوش نصیب ہیں جو ان کے کنٹرول سے باہر ہیں، وہاں پر اس کو کسی حد تک ٹھیک کرنا انصاف ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک اور رائے یہ ہے کہ “انصاف بطور فئیرنس” کا یہ آئیڈیا ان کے لئے غیرمنصفانہ ہے جن کے پاس زیادہ ہے، خواہ اپنی محنت کی وجہ سے یا پھر قدرت کی لاٹری جیتنے کی وجہ سے۔
بیسویں صدی کے ایک اور فلسفی رابرٹ نوزک یہاں پر جان رالز سے اختلاف رکھتے ہیں۔ کیوں؟ اس کو دکھانے کے لئے وہ سوچ کا ایک تجربہ تجویز کرتے ہیں جو ایک باسکٹ بال کے پروفیشنل کھلاڑی کے بارے میں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نوزک کے وقت میں ولٹ چیمبرلین ایک بہت ہی مشہور کھلاڑی تھے جنہیں انہوں نے اپنی مثال کے لئے استعمال کیا۔ (اس کو کرکٹ، فٹبال، باکسنگ یا کسی بھی سپرسٹار کھلاڑی یا آرٹسٹ کے لئے استعمال کیا جا سکتا ہے)۔ فرض کیجئے کہ چیمبرلین کہتے ہیں کہ وہ صرف اس صورت میں کھیلیں گے اگر ان کو دیکھنے کے لئے لوگ ٹکٹ کی قیمت میں پچیس سینٹ زیادہ ادا کریں اور کھیلنے کا معاوضہ باقی کھلاڑیوں سے ایک لاکھ ڈالر زیادہ لیں گے۔
اب، چونکہ چیمبرلین اتنے بڑے سٹار ہیں تو ہر کسی کو معلوم ہے کہ اگر وہ کھیل رہے ہوں گے تو لوگ خوشی خوشی دیکھنے آئیں گے، خواہ ٹکٹ کی قیمت زیادہ ہو۔ اور چونکہ لوگ انہیں ہی دیکھنے آ رہے ہیں تو انہیں حق نہیں کہ وہ اپنے دوسرے ساتھیوں سے زیادہ کا تقاضا کریں؟ نوزک کا کہنا تھا کہ جب قدرتی طور ر ہی میدان ہموار نہیں تو ہمیں زبردستی اس کرنے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے۔
ہاں، ہمارے پاس جو ہے، وہ یکساں نہیں۔ اور جب تک ہم نے اپنی اشیا کو چوری کر کے یا پھر کسی اور غلط طریقے سے حاصل نہیں کیا تو انہیں رکھنے کا ہمیں حق ہے۔ اگر آپ باسکٹ بال کے دنیا کے سب سے مشہور کھلاڑی ہیں تو آپ کو حق ہے کہ زیادہ سے زیادہ اشیا کی توقع رکھیں اور اس کا مطالبہ کریں، خواہ دوسروں کے پاس وہ نہ ہوں۔
اگر چیمبرلین کی زبردست مہارت انہیں بہت سی دولت اکٹھا کرنے کا موقع دیتی ہے جبکہ دنیا میں کئی لوگ بھوکے ہیں تو اس میں چیمبرلین کا قصور نہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہاں تک ہم یہ تو دیکھ چکے ہیں کہ تقسیم کے انصاف میں کئی قسم کے نکتہ نظر پائے جاتے ہیں۔ یہ بہت اہم موضوع ہے کیونکہ بہت سے سیاسی مباحث بالکل اسی موضوع پر ہوتے ہیں۔
ایسے لوگوں کا خیال ہے کہ “لازمی انسانی حقوق” موجود ہیں۔ مثال کے طور پر، ہماری بالکل بنیادی ضروریات ہیں جن کو پورا کیا جانا ہمارا حق ہے۔ جیسا کہ کھانا پینا یا بیماری کی صورت میں ڈاکٹر کی دستیابی جیسے حق۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لیکن سب اس پر متفق نہیں کہ اگر ہم ان ضروریات کو خود حاصل نہیں کر سکتے تو ان کو مہیا کرنا سرکار کی ذمہ داری ہے۔
اس نکتہ نظر کے مطابق حکومت کا کام آپ کے حقوق چھینے جانے سے بچانا تو ہے، لیکن دینا نہیں۔ یہ منفی حقوق کا نکتہ نظر ہے۔
“منفی حق” ایسا حق ہے جس میں دخل اندازی نہیں کی جا سکتی، آپ کو اسے حاصل کرنے سے روکا نہیں جا سکتا۔ یعنی کہ میں آپ کو اپنی ضرورت پورا کرنے میں رکاوٹ نہیں ڈال سکتا لیکن اسے پورا کرنے کی ذمہ داری میری نہیں ہے۔
اس کا متبادل “مثبت حق” کا تصور ہے۔ اگر آپ اس پر یقین رکھتے ہیں تو آپ مدد کئے جانا آپ کا حق حاصل ہے۔ مثال کے طور پر، اگر آپ علاج افورڈ نہیں کر سکتے تو آپ کا حق ہے کہ آپ کو علاج فراہم کیا جائے۔ لیکن یہاں پر نوٹ کریں کہ حق کا لازمی مطلب کسی اور پر ذمہ داری کی صورت میں ہے۔
مثلاً، آپ کا ڈاکٹر کو دیکھنے کا حق مجھ پر ذمہ داری ہے، کیونکہ اس کی ادائیگی شاید مجھے کرنی پڑے گی۔
تو پھر نوزک جیسا کوئی سوال کرے گا کہ یہ حق کہاں سے آیا؟ میرا آپ سے زیادہ خوشحال ہونے کی وجہ سے آپ کی ذمہ داری میرے پاس کیسے آ گئی؟ اگر میں آپ کی مدد کر دوں گا تو اچھی بات لیکن یہ میرا فرض نہیں اور کسی کو مجھے ایسا کئے جانے کرنے پر مجبور نہیں کیا جا سکتا۔
جب حکومت ہم سے ٹیکس اکٹھا کرتی ہے تو وہ یہی کام ہے۔ ان سے ٹیکس لینا جن کے پاس زیادہ ہے تا کہ ان کی مدد کی جا سکے جن کے پاس کم ہے۔ (ضروری وضاحت: حکومت کے پاس اپنے کوئی پیسے نہیں ہوتے)۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب آپ شاید اس نکتے کو بہتر سمجھ سکیں جب لوگ ٹیکس، صحت، معاشی ناہمواری جیسی چیزوں کی بات کرتے ہیں تو یہ بات دراصل انصاف کی ہو رہی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بہت مرتبہ، انصاف کا تعلق اشیا سے نہیں بلکہ سزا سے ہے۔ اور ایسے ہر موضوع کی طرح اس پر بہت متنوع خیالات پائے جاتے ہیں کہ غلط کام کا جواب کیسے دیا جائے۔
ایک خیال retributive justice (انتقامی انصاف) کا ہے۔ اس کے مطابق انصاف صرف اس وقت پورا ہو سکتا ہے اگر غلط کام کرنے والے کو وہی تکلیف برداشت کرنی پڑے جو اس کی وجہ سے دوسرے کو ہوئی۔ یہ آنکھ کے بدلے آنکھ کا انصاف ہے۔ اس کے مطابق سزا سے تکلیف ہونی چاہیے اور توازن میں واپس لائے جانا کا یہی طریقہ ہے۔ تاریخی طور پر اس کا مطلب یہ ہوا کرتا تھا کہ اگر آپ نے کسی کو فزیکل نقصان پہنچایا ہے تو آپ کو سزا دینے والا آپ کے ساتھ وہی سلوک کرے گا۔ ظاہر ہے کہ اب طریقہ یہ نہیں رہا۔ اب تکلیف جرمانے یا جیل کے ذریعے پہنچائی جاتی ہے۔
سزائے موت کے پیچھے ایک بڑی فلسفانہ وجہ retribution ہے، کہ ایسا عمل ہوا ہے جس میں کرنے والے کی جان لئے بغیر توازن واپس نہیں لایا جا سکتا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سزا کی دوسری تھیوریاں بھی ہیں۔ مثال کے طور پر ایک utilitarian مفکرین عام طور پر فلاح کو زیادہ کرنے کی حمایت کرتے ہیں۔ اس نکتہ نظر کے مطابق غلط کام کرنے والے کو انتقامی طور پر تکلیف پہنچا کر کوئی بھی فائدہ نہیں اٹھاتا۔ لیکن یہ بھی نہیں کیا جا سکتا کہ اسے کوئی سزا نہ دی جائے۔
ایک آپشن rehabilitation (بحالی) کی ہے۔ غلط کار کی مدد کی جائے کہ وہ معاشرے میں رہنا اور اس کے قوانین پر عملدرآمد کا طریقہ سیکھ سکے۔ اس کو تعلیم، تربیت اور اگر ضرورت ہو تو تھراپی دی جائے۔
اس طریقے پر تنقید ہوتی ہے کہ یہ پدرانہ طریقہ ہے کیونکہ یہ اس مفروضے کے ساتھ ہے کہ غلط کاروں کو ہماری مدد کی ضرورت ہوتی ہے کیونکہ انہیں اس کا پہلے پتا نہیں ہوتا اور انہیں کسی سوشل بیماری سے “علاج” کی ضرورت ہے۔ (کم عمر مجرموں کی سزا میں اس طریقہ کار کا استعمال زیادہ عام ہے)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک اور اپروچ سزا کو deterence (عبرت) کے طور پر دیکھنے کی ہے۔ اس خیال کے مطابق کسی کو سزا دینا اسی مزید جرم کرنے سے روک دیتا ہے اور دوسروں کی بھی حوصلہ شکنی کرتا ہے کہ وہ قانون نہ توڑیں۔
اس کے حامیوں کے مطابق غلط کار کو تکلیف پہنچانا مقصد نہیں بلکہ اس کی سزا معاشرے کے لئے بطور کل اچھی ثابت ہو گی۔ کئی بار سزا اس لئے دی جاتی ہے کہ دوسروں کو پیغام جائے کہ غلط کام کے نتائج ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک اور اپروچ restorative انصاف کی ہے۔ یہاں پر فوکس غلط کار کو تکلیف پہنچانے کے بجائے غلط کام کی تلافی کے ہیں۔ اگر آپ نے گند مچایا ہے تو آپ کو اسے صاف کرنا ہے۔ اگر آپ نے کسی کو تکلیف دی ہے تو آپ کو وہ کام کرنے ہیں کہ وہ اسے ٹھیک کیا جا سکے۔ (کمیونیٹی سروس کی سزا کی یہ منطق ہے)۔
یہاں پر امید یہ ہے کہ اس طرح کسی واقعے کے دونوں فریقین فائدہ اٹھائیں گے۔ زخم مندمل ہو کر اور کردار میں اصلاح کے ذریعے۔ اصلاح اور معافی کا یہ طریقہ انتقامی انصاف سے متضاد ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور یاد رہے کہ یہاں پر انصاف کے طریقوں پر یہ بحث ہائی کورٹ یا جرگوں کے مقدمات کے لئے نہیں، کھیل کے میدان کے جھگڑوں یا گھر میں شرارت کا مسئلہ حل کرنے پر بھی ہیں۔ ان کا کوئی ایک ٹھیک جواب نہیں۔
اب آپ کے لئے ایک مشورہ: ان مختلف نکتہ نظر پر غور کریں اور یہ اندازہ لگائیں کہ انصاف کے بارے میں آپ کا اپنا نکتہ نظر دراصل ہے کیا۔کیونکہ اس کا جواب آپ کی راہنمائی کرے گا کہ آپ ووٹ کیسے دیں گے، اپنے پیسے کیسے خرچ کریں گے اور اپنے بچے کو سزا کیا دیں گے۔ اور امید ہے کہ یہ سوال آپ کے لئے اہم ہوں گے۔
اور ہو سکتا ہے کہ کچھ غوروخوض سے آپ یہ دریافت کریں کہ آپ کو کچھ معاملات میں ذرا زیادہ غور کرنے یا کہیں پر کچھ ترمیم کی ضرورت ہے۔ کیونکہ جیسا کہ پہلے کہا تھا، کہ انصاف کی بات تو ہر کوئی کرتا ہے لیکن اس سے پہلے کہ آپ اس پر بات کریں، یہ فیصلہ کر لیں کہ آپ کا اس بارے میں مطلب کیا ہے۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...