ہو سکتا ہے کہ آپ ان لوگوں میں سے ہوں جنہیں آرٹ کی زیادہ پرواہ نہ ہو۔ لیکن اگر آپ کا یہ خیال ہے تو میرا کہنا یہ ہو گا کہ آپ آرٹ کے بارے میں محدود سوچ رہے ہیں۔ اپنے معمول کے دن کا سوچیں۔ اگر آپ عام لوگوں کی طرح ہیں تو آپ جمالیاتی لطف حاصل کرنے میں اپنے دن کا بہت وقت لگاتے ہیں۔ یہ اپنے حسیاتی تجربات اور جذبات سے حاصل کردہ لطف ہے۔
گاڑی چلاتے وقت موسیقی لگا لینا؟ کسی قاری کی خوش الحانی میں کھو جانا؟ کمرے کی دیوار پر لگائی گئی تصاویر؟ ڈرائنگ روم کی ترتیب؟ موبائل کا دیدہ زیب کور؟ کیا طلوعِ آفتاب کا منظر موڈ اچھا کر دیتا ہے؟ پرندے کی چہچہاہٹ؟ یا پھر پرکشش اجنبی؟ کیا آپ اپنے پسندیدہ کھانے کے پہلے لقمے کا مزہ لیتے ہیں؟ کیا اپنے پسندیدہ ڈرامے یا کتاب کے کرداروں میں دلچسپی رکھتے ہیں؟ یہ سب جمالیاتی ذوق کی مختلف مثالیں ہیں۔
یہ ہم سب کی زندگیوں کا اہم حصہ ہے تو کیوں نہ ایک نظر اس پر ذرا سی تفصیل سے۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فلسفی اس پر سوال کرتے ہیں کہ آخر کیوں جمالیات کا ہم پر اس قدر زور ہے اور ہماری زندگی میں اس کا کیا مقصد ہے؟ یہ ماہرین aesthetician کہلاتے ہیں۔ اور ان کے لئے ایک بڑا سوال یہ ہے کہ “آرٹ کیا ہے؟”۔
یہ خاصا دقیق موضوع ہے۔ پہلے یہ دیکھتے ہیں کہ ہم خود کس کو سراہتے ہیں۔ کوئی شے جو جمالیاتی جذبات پیدا کرے، اسے جمالیاتی ذوق کا آبجیکٹ کہا جاتا ہے۔ ہم انسان، ایسی اشیا کی طرف کشش رکھتے ہیں۔ ہم اپنے لئے فون یا کپڑے یا جوتے یا گاڑی خریدتے وقت صرف یہ نہیں دیکھتے کہ ان کا فنکشن کیسا ہے بلکہ خوبصورتی کو بھی ایک معیار رکھا جاتا ہے۔
کئی بار اس میں دو طرح تقسیم کی جاتی ہے۔ آرٹ آبجیکٹ جو انسانوں کے بنے ہیں اور قدرتی حسن کے آبجیکٹ۔ لیکن اس تقسیم پر اتفاق نہیں۔ اور اس میں کئی طرح کئے مسائل ہیں۔
پہلا سوال یہ کہ آرٹ کا آبجیکٹ شروع کہاں سے ہوتا ہے اور ختم کہاں پر۔ مثلاً، کیا تصویر کا فریم بھی آبجیکٹ کا حصہ ہے؟ دوسرا یہ کہ کیا آرٹ کی قدر وہ ہے جو اس کے تخلیق کار نے اس میں ڈالی یا پھر اس کا انحصار اس قدر پر ہے جو اس کو محسوس کرنے والے کا تجربہ ہے؟
ٹالسٹائی کا خیال ہے کہ آرٹ بنیادی طور پر آرٹسٹ کے نکتہ نظر سے سمجھا جاتا ہے۔ کیونکہ یہ اس کے تخلیق کار کے جذبات کا نتیجہ ہے۔ اس نکتہ نظر میں آرٹ اپنے احساس کو دوسروں تک پہنچانے کا ایک طریقہ ہے جہاں لفظ کافی نہیں ہوتے۔
لیکن آرٹ ہمیشہ احساسات کے رابطے کے لئے تخلیق نہیں کیا جاتا۔
کئی مفکرین کی نظر میں آرٹسٹ کا ارادہ اہمیت رکھتا ہے۔ کئی کا خیال ہے کہ نہیں، آرٹ اتفاقی بھی ہو سکتا ہے۔ اور اس سے ہمارے پاس کئی سوالات پیدا ہوتے ہیں۔
اگر آرٹسٹ کا ارادہ اہم ہے تو پھر فطری آبجیکٹ آرٹ کی تعریف سے نکل جائیں گے، خواہ ہماری جمالیاتی حس کو جتنا بھی متاثر کریں۔ اور کیا جانور آرٹ بنا سکتے ہیں؟ ہاتھی یا بندر کی بنائی گئی تصاویر آرٹ ہو سکتی ہیں؟ کیا گلہری کے قدموں کے نشان بھی آرٹ ہو سکتے ہیں؟ ہو سکتا ہے کہ آپ کہیں کہ اس صورت میں گلہری آرٹسٹ نہیں لیکن اس کی ایکٹیویٹی کے نتیجے میں پیدا ہونے والی شے آرٹ ہے۔ ہر کوئی ٹالسٹائی کے آرٹسٹ پر فوکس کرنے سے اتفاق نہیں رکھتا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
دوسری رائے یہ ہے کہ ناظر کے جمالیاتی جذبات کی تحریک کسی شے کو آرٹ بناتی ہے۔ اصل موقع وہ نہیں جب آرٹ تخلیق ہوا بلکہ وہ ہے جب اس تخلیق کا کسی سے سامنا ہوا اور وہ اس سے متاثر ہوا۔
آرٹ بھی ایک ایسی چیز ہے جس کے بارے میں جتنا سوچیں اتنا اسے ڈیفائن کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ کیا یہ بھی ایسا تصور ہے جس کی تعریف کرنا ناممکن ہے لیکن جب آپ اسے دیکھ لیتے ہیں تو پہچان جاتے ہیں؟ اس کے لئے سوچ کا ایک تجربہ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فرض کیجئے کہ ایک دیوار پر چار تصاویر ٹنگی ہیں۔ چاروں دیکھنے میں بالکل ایک ہیں۔ ایک چوکور کینوس میں ایک ہی شیڈ کا سرخ رنگ کیا گیا ہے۔ لیکن چاروں کی اپنی کہانی الگ ہے۔
ایک میں ایک خالی میزپوش کی قریب سے تصویر بنائی گئی تھی۔ دوسرے میں آرتسٹ نے بحیرہ احمر کی علامتی تصویر بنائی تھی جب اس کو حضرت موسیٰ نے پار کر لیا تھا۔ تیسرے میں سوویت یونین کی سیاسی علامت تھی۔ جبکہ چوتھا نامکمل تھا۔ یہ صرف کینوس تھا جس میں بیک گراونڈ رنگا گیا تھا لیکن آرٹسٹ نے کام شروع نہیں کیا تھا۔ اسے غلطی سے اسی طرح گیلری میں لٹکا دیا گیا۔
ان چاروں تصاویر میں فرق کیا ہے؟ کیا ہم کہہ سکتے ہیں کہ کونسا آرٹ ورک دوسرے سے برتر کا کمتر ہے؟ اور اگر ہاں، تو کس بنیاد پر؟
دیکھنے میں تو چاروں بالکل ایک ہیں لیکن ان کے درمیان فرق تو ہیں۔ سوچ کا یہ تجربہ ہمیں اس نتیجے کی طرف لے جاتا ہے کہ ایک نان فزیکل عنصر بھی موجود ہوتا ہے جو کسی شے کو آرٹ کہنے کے قابل بناتا ہے۔ لیکن یہ عنصر کیا ہے؟
کیا یہ آرٹسٹ کے ذہن میں ہے یا دیکھنے والے کے یا پھر تخلیق کی کہانی اور تاریخ ہے جو کام کو جدا کرتی ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جمالیات فلسفے کی ایک وسیع تھیوری کا حصہ ہیں جسے ویلیو تھیوری کہا جاتا ہے۔ ایتھکس بھی اسی کا حصہ ہیں لیکن جہاں پر عام طور پر ایتھکس میں سمجھا جاتا ہے کہ ٹھیک اور غلط کے کچھ نہ کچھ جوابات موجود ہیں (مثلاً، قتل کرنا غلط ہے جبکہ کسی کی مدد کرنا ٹھیک)۔ وہاں پر کئی لوگوں کا خیال ہے کہ خوبصورتی کا تعلق صرف دیکھنے والے کی آنکھ سے ہے۔ یعنی اس کے بارے میں آپ غلط نہیں ہو سکتے۔ یہ صرف ذاتی ذوق کا معاملہ ہے۔
لیکن یاد رہے کہ اگر آپ اس نکتہ نظر سے اتفاق کرتے ہیں تو پھر کوئی بھی اپنے ذوق کے بارے میں غلط نہیں ہو سکتا۔ اور اگر ایسا ہے تو پھر ہم اس کے بارے میں کوئی بات کر ہی نہیں سکتے کیونکہ پھر جمالیات کا پیمانہ ہم سبھی ہیں۔ اور اگر ایسا ہے تو آرٹ کے بارے میں کوئی بھی تجزیہ بے کار ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لیکن زیادہ تر فلسفی ایسی رائے سے بالکل اتفاق نہیں رکھتے۔ آرٹ کے بارے ہماری آراء میں تضادات تو ہوتے ہیں۔ ایک طرف تو یہ سب subjective لگتا ہے لیکن اس میں بھی کچھ objective تو ہے۔
یہاں پر ڈیوڈ ہیوم خیال پیش کرتے ہیں کہ جب ہم آرٹ کے بارے میں بات کر رہے ہوں تو ہمیں دو الگ چیزوں کو آپس میں کنفیوز نہیں کرنا چاہیے۔ ایک سوال یہ ہے کہ “کیا یہ مجھے پسند ہے؟”۔ دوسرا سوال یہ ہے کہ “کیا یہ اچھا ہے؟”۔
“کیا یہ مجھے پسند ہے؟” کا مکمل طور پر تعلق آپ کے اپنے ساتھ ہے۔ لیکن “کیا یہ اچھا ہے؟” بالکل الگ معاملہ ہے۔ ہیوم کا خیال تھا کہ یہ جمالیاتی قدر کسی حد تک معروضی ہو سکتی ہے اور ہم سب کچھ خاص پیٹرن اور آبجیکٹس کو دوسرے کے بارے میں زیادہ بہتر قرار دیتے ہیں۔ اس لئے خوبصورتی محض اندرونی تجربہ نہیں۔
مثال کے طور پر، ہم صحت کے بارے میں عکس کی طرف زیادہ کشش محسوس کریں گے، بجائے گلی سڑی اشیا کے۔ ہم کھلے ہوئے پھول کو مرجھائے ہوئے پھول پر ترجیح دیں گے۔ ہم سمٹری کو پسند کریں گے۔
جس طرح ہم میں سونگھنے، دیکھنے اور سننے کی حس ہے، ویسے ہی ذوق کی حس بھی۔ یہ وہ صلاحیت ہے جس سے ہم کسی شے کی جمالیاتی خاصیتیں پہنچانتے ہیں۔ اور ہمارا ذوق الگ ہو سکتا ہے یا کسی میں سراہنے کی صلاحیت زیادہ ہو سکتی ہے۔ مثلاً، اگر میں باجے کی دھن کے بارے میں یا جمناسٹک کے کرتب کے بارے میں زیادہ سوچتا ہوں تو اس صلاحیت کو ڈویلپ کر سکتا ہوں۔ اگر میں کرکٹ کی تکنیک سے یا آئس کریم کے ذائقوں کی مہارت رکھتا ہوں تو وہ باریکیاں محسوس کر لوں گا جنہوں دوسرے چھوڑ جائیں گے۔ میں چھوٹی غلطیاں یا پیچیدہ تفصیلات پہنچا لوں گا۔ کچھ لوگ قدرتی طور پر بھی زیادہ اچھا ذوق رکھتے ہیں۔ وہ ایک فٹبال کی گیم یا اچھے شعر سے زیادہ لطف اٹھا سکتے ہیں۔
اور ویسا ہی جیسا کسی اور صلاحیت کے ساتھ ہے، ہیوم کے خیال میں یہ بھی ایسی صلاحیت ہے جو اگر قدرتی طور پر زیادہ اچھی نہیں تو وقت کے ساتھ سیکھی جا سکتی ہے۔ آپ یہ سٹڈی اور دریافت کر سکتے ہیں کہ کیا سراہا جاتا ہے اور آپ کو سمجھ نہیں آ رہا۔ اور وقت کے ساتھ اس کو ویسے ہی پہچاننے لگیں گے جیسا کہ آپ نے کوئی بھی اور مہارت سیکھی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہو سکتا ہے کہ آپ اس نکتہ نظر سے اتفاق نہ کریں کہ کچھ لوگ پیدائشی ذوق رکھتے ہیں یا سراہنے میں بہتر ہیں۔ لیکن جہاں تک سیکھنے کا تعلق ہے تو ہاں، اس کو حاصل کیا جا سکتا ہے۔ اور اچھا ذوق خود میں اپنے لئے قدر رکھتا ہے۔ کیونکہ یہ ہمیں مسرت دیتا ہے اور دنیا میں بکھری کی ان باریکیوں کو دیکھنے کی صلاحیت دیتا ہے جن کو دوسرے چھوڑ جاتے ہیں۔
رنگوں، ذائقوں، خوشبووٗں، نظاروں، آوازوں، تجریدی خیالات، احساسات، کہانیوں اور مہارتوں سے بھرپور ہم ایک شاندار اور پیچیدہ دنیا کے باسی ہیں۔ ہم اسے سراہنے کا فن سیکھ سکتے ہیں۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...