کیا ہم آزاد ہیں؟ ہمیں بالکل واضح طور پر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہم اپنے فیصلے کرنے میں خودمختار ہیں۔ ہمیں محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے تمام فیصلے، اعمال اور عقائد وہ ہیں جن کا ہم نے مکمل طور پر خود انتخاب کیا ہے۔ میں نے تربوز اس لئے کھایا تھا کہ میری مرضی تھی۔ یہ نکتہ نظر کہ انسان اپنے فیصلے لینے میں مکمل طور پر آزاد ہیں، libertarian free will کہلاتا ہے۔ اور ہم میں سے بہت سے لوگ اس سے اتفاق رکھتے ہیں۔
دوسری طرف، ہم جانتے ہیں کہ ہر ایفیکٹ کے پیچھے کاز ہے۔ ہر واقعہ اپنے ماضی کے واقعات کا نتیجہ ہے۔ ہر ایک کا اثر فزکس کی مساوات سے عین ٹھیک ٹھیک نکالا جا سکتا ہے اور اس کے علاوہ کچھ بھی اور ہونا ممکن نہیں تھا۔ اس نکتہ نظر کو hard determinism کہا جاتا ہے اور ہم میں سے بہت سے لوگ اس سے اتفاق رکھتے ہیں۔
مسئلہ صرف اتنا سا ہے کہ آپ بیک وقت دونوں سے اتفاق نہیں کر سکتے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لبرٹیرین آزاد عمل کی “متبادل کے اصول” سے تعریف کرتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کسی عمل کو آزاد صرف اس وقت کہا جائے گا اگر ایسا کرنے والا اس کے بجائے کچھ اور کر سکتا تھا۔ یعنی عمل آزاد اس وقت ہو سکتا ہے جب متبادل انتخاب موجود ہو۔ دوسری طرف، ڈیٹرمنزم میں متبادل آپشن کی اجازت نہیں۔ اس کے مطابق ہر ایونٹ کا سبب پچھلا ایونٹ ہے۔ ایک ایجنٹ نے جو کیا، وہ اس کے علاوہ کچھ اور کر ہی نہیں سکتا تھا۔ اس لئے وہ آزاد نہیں۔ اس لئے ہم ان دونوں کو زیادہ قریب سے دیکھتے ہیں۔ اور اس کے لئے ایک نظر میرے تربوز پر۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لبرٹیرین کہیں گے کہ میرے تربوز کھانے کا لازمی تعلق اس سے پچھلے ہونے والے واقعات سے نہیں۔ یہ کسی نان فزیکل ایونٹ کا نتیجہ بھی ہو سکتا تھا۔ خاص طور پر میری سوچ کا جو اسی نکتے پر شروع ہوئی۔ میں نے تربوز اس لئے کھایا کہ میں نے تربوز کھانے کا فیصلہ کیا۔ کہانی ختم۔
لیکن ہم جتنا فزیکل دنیا کو جانتے ہیں، لبرٹیرین نکتہ نظر اس سے مطابقت نہیں رکھتا۔ ہم جانتے ہیں کہ ایک واقعہ اگلے کی وجہ بنتا ہے۔ اس لئے لبرٹیرین کو یہ وضاحت دینا ہے کہ ان کے نکتہ نظر کی بنیاد کیا ہے۔ اسے کرنا کا ایک طریقہ دو چیزوں کو الگ کرنا ہے۔ ایک ایونٹ کازیشن اور دوسرا ایجنٹ کازیشن۔
ایونٹ کازیشن کا مطلب یہ کہ کوئی فزیکل ایونٹ اپنے سے پچھلے فزیکل ایونٹ کے بغیر نہیں ہو سکتا۔ اس وجہ سے لبرٹیرین عام طور پر اس کو تسلیم کرتے ہیں کہ فزیکل دنیا خود میں ڈیٹرمنسٹک ہے۔ مثلاً، بلے سے گیند کو مارا جائے تو وہ کس سمت اور کس رفتار سے جائے گی۔ لیکن لبرٹیرین یہ دلیل دیں گے کہ ایجنٹ کازیشن اس سے الگ ہے۔ ایجنٹ کا تعلق ذہن سے ہے۔ اور اس کے ذریعے کازیلیٹی کی ایک زنجیر شروع ہو سکتی ہے۔ جس کھلاڑی نے بلے سے گیند کو مارا تھا، اس نے ایسا اس وجہ سے کیا کہ یہ اس کا فیصلہ تھا۔ اس منطق کے مطابق، ایجنٹ یہ صلاحیت رکھتے ہیں کہ وہ کائنات میں واقعات کی کازل زنجیر پر اثرانداز ہو سکیں۔ اور خود سے کچھ کر سکیں۔
کئی فلسفی اس آئیڈیا کو قابلِ دفاع نہیں سمجھتے۔
ان کا سوال یہ ہے کہ یہ “آزاد فیصلے” جو نئے کازل زنجیر شروع کر دیں، آتے کہاں سے ہیں؟ کیا یہ رینڈم ہیں؟ اور کس ایک ایجنٹ ایک فیصلے انتخاب کیوں کرے گا اور دوسرے کا نہیں؟ اور اگر آپ ان سوالات کا جواب دے سکیں یعنی کہ یہ وضاحت کر سکیں کہ ایجنٹ کے ایسا کرنے کی کاز کیا تھی تو پھر یہ اس نکتہ نظر کو مزید تقویت دے گا کہ اعمال آزاد نہیں بلکہ کسی کاز سے ہیں۔
لبرٹیرین فری ول کا دفاع مشکل ہے۔ اور اس کی حمایت میں بہترین دلیل یہ لگتی ہے کہ چونکہ ہمیں بالکل واضح طور پر یہ محسوس ہوتا ہے کہ ہم آزاد ہیں تو ہمیں اپنے اس ذاتی اور موضوعی احساس کو نظرانداز نہیں کر دینا چاہیے۔
اگر ہم خود کو اتنا آزاد محسوس کرتے ہیں تو ہمیں سنجیدگی سے اس امکان پر غور کرنا چاہیے کہ ہم واقعی آزاد ہوں گے۔
لیکن ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ ایک خاصی غیرتسلی بخش دلیل ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب ہم دوسرے کیمپ کی طرف چلتے ہیں۔ کیا ہارڈ ڈیٹرمنزم بہتر دلائل رکھتے ہیں؟
ڈولباک نے کہا تھا کہ ہر شے کاز اینڈ ایفیکٹ کی منسلک زنجیر میں جڑی ہوئی ہے۔ ہمارے ہر عمل کی کاز اسی طرح ہے جس طرح چھکا لگنے کی کاز بیٹسمین کا زور سے شاٹ لگانا ہے۔ یا طوفان کی کاز گرم ہوا کے کرنٹ کا سرد ہوا کے سسٹم سے موافق کنڈیشن ملنا ہے۔ اسی طرح انسان اور اس کے اعمال فزیکل دنیا کا حصہ ہیں جو فزیکل قوانین کے مطابق ہیں۔
اس یقین کی reductionism کے نکتہ نظر سے وضاحت کی جاتی ہے۔ ہم ایسا محسوس کرتے ہیں کہ ہمارے ذہن میں آزاد فیصلوں کی صلاحیت ہے۔ آپ کا خیال ہے کہ جب آپ کے سر میں جو ہو رہا ہے، وہ گیند اور بلے کی طرح نہیں۔ لیکن ذہنی حالت دماغ کی حالت ہے یا کم از کم ان کا تعلق ضرور ہے۔ اور دماغ کی حالت بائیولوجیکل حالت ہے اور بائیولوجیکل حالت فزیکل حالت ہے۔ اور ہم تو پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ فزیکل دنیا ڈیٹرمنسٹک ہے۔ اس صورت میں فری ول یا اختیار کی کوئی جگہ نہیں بچتی۔ ہمارا خیال ہے کہ ہم آزاد ہیں لیکن نہیں۔
لبرٹیرین درست ہیں کہ اس آزادی کے احساس کو نظرانداز کرنا انتہائی مشکل ہے۔ لیکن آخر ہم اس دنیا کا ہی حصہ ہیں تو اس سے الگ تو نہیں ہو سکتے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جب میں نے تربوز کھایا تو کیوں؟ ہمارے ایکشن کی بہت سے ایسی کاز ہوتی ہیں جو واضح طور پر نظر نہیں آتیں۔ یقین، خواہش، مزاج، مل کر عمل تک لے کر جاتے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ تربوز اچھا پھل ہے۔ میری خواہش تھی کہ کچھ میٹھی چیز کھاوٗں۔ مجھے ٹھنڈی رسیلی چیزیں پسند ہیں۔ اور نتیجہ میرے تربوز کھانے کی صورت میں نکلا۔
ہو سکتا ہے کہ آپ کہیں کہ اس کی وجہ سے کئی اور چیزوں کا انتخاب بھی کیا جا سکتا تھا۔ گرما یا آڑو یا انگور بھی تو کھایا جا سکتا تھا۔ لیکن کئی دوسرے فیکٹر تھے جن کی وجہ سے ایسا نہ ہوا۔ انگور کا یہ موسم نہیں تھا۔ گرما گھر میں تھا ہی نہیں۔ ہو سکتا ہے کہ آڑو پر نظر پڑی ہی نہیں۔
یہ دکھانے کے لئے ہے کہ آپ ایک فیکٹر تبدیل کر دیں تو نتیجہ بالکل الگ نکل آتا ہے۔ یقین، مزاج، خواہش ۔۔۔ یا کسی بھی فیکٹر کو۔
ہارڈ ڈیٹرمنسٹ کا کہنا ہے کہ اگر آپ ٹھیک فیکٹر کی نشاندہی نہیں کر سکتے جس وجہ سے ایکشن ہوا تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ اصولی طور پر اس کو نکالا نہیں جا سکتا تھا۔ اگر ہم دماغ میں گھومتے مادوں کے بارے میں زیادہ علم رکھتے تو ان کو الگ کیا جا سکتا تھا۔
اس نکتہ نظر کے مطابق جن چیزوں کو ہم “فیصلہ” کہتے ہیں، وہ آزاد نہیں بلکہ لازمی نتیجہ ہیں۔ آزاد محسوس ہونا سراب ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور اگر تربوز کھانے کے لئے میں نے کسی سے پوچھا ہوتا؟ یا میں نے سکہ اچھال کر فیصلہ کیا ہوتا؟ اگر سکہ اچھالا ہوتا تو کیا ایسا نہیں کہ یہ فیصلہ میری خواہش، یقین اور مزاج کا پابند نہیں رہا؟
نہیں۔ میرا کسی سے پوچھنے کا خیال اور سکہ اچھالنے کا خیال بھی کسی اور شے کی طرح آزاد نہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور اگر آپ اس وقت غصے ہو رہے ہیں کہ میں آپ کو پتا رہا ہوں کہ آپ کے پاس آزاد انتخاب نہیں تو آپ کا یہ غصہ ہونا بھی پہلے سے طے شدہ تھا۔ اور اگر آپ کو یہ تمام گفتگو فضول لگ رہی ہے؟ یہ بھی طے شدہ تھا۔ اور بورنگ لگ رہی ہے؟ تو بھی طے شدہ تھا۔ اور آپ اسے پڑھنا چھوڑ بھی سکتے تھے لیکن آپ نے ایسا نہیں کیا۔ کیوں؟ جی، یہ بھی۔
ڈیٹرمنسٹ یہ یقین رکھتے ہیں کہ آپ کے پاس اس ردِعمل کو تبدیل کرنا کا اختیار ہی نہیں۔
آپ کا خیال ہے کہ آپ اپنے کردار کے مطابق انتخاب کرتے ہیں لیکن یہ انتخاب خود کئی عوامل کا نتیجہ ہیں جن کا اپنا انتخاب آپ نے نہیں کیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تاہم، ہارڈ ڈیٹرمنزم کے اپنے ساتھ خاصے مسائل ہیں۔ ہماری حیثیت ایک بڑی مشین میں لگے پرزے سے زیادہ نہیں جس کا ہم حصہ ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ذاتی ذمہ داری کا تمام تصور ختم ہو جاتا ہے۔
جو قسمت میں ہے، صرف وہی ہونا ہے۔ میں نے تربوز کھانا ہی تھا۔ اور آپ؟ آپ نے یہ مضمون پڑھنا ہی تھا۔ اس سے رک نہیں سکتے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جہاں پر لبرٹیرین فری ول ایسا خیال ہے جس کا دفاع نہیں کیا جا سکتا۔ وہاں پر ہارڈ ڈیٹرمنزم ایسا خیال ہے جس کی بنا پر زندگی یا معاشرہ نہیں بنایا جا سکتا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگر آپ کو ہارڈ ڈیٹرمنزم اور لبرٹیرین فری ول، دونوں ہی غیرتسلی بخش لگے تو پھر ایک اور آپشن compatiblism ہے۔
اس کے مطابق دنیا میں تمام فزیکل پراسس ڈیٹرمنسٹک ہیں۔ اور انسان بھی دنیا کا حصہ ہیں لیکن کچھ انسانی ایکشنز پر انسان کا کسی حد تک کنٹرول ہے۔ “کیا ہم آزاد ہیں؟” ایک غلط سوال ہے۔ اصل سوال یہ ہے کہ ہمارا کس عمل پر کتنا کنٹرول تھا۔ جتنا کنٹرول ہے، اس بارے میں ہماری ذمہ داری بھی اتنی ہی ہے۔
اگر آپ کو چھینک آئی ہے تو اس میں آپ کی ذمہ داری نہیں۔ یہ آپ کی مجبوری تھی۔ لیکن اگر آپ نے میری پلیٹ میں چھینکا ہے تو یہ ذمہ داری آپ کی ہے۔ یہ آپ کا اختیار تھا۔
اس پر ویڈیو