فلسفہ اس دنیا کو سمجھنے کی انسانی کاوش ہے۔ اس طرح کے سوالات کہ کیا شے دنیا کو معنی دیتی ہے؟ کیا شے اسے خوبصورت بناتی ہے؟ برائی کیا ہے؟ اس دنیا میں ہماری جگہ کیا ہے؟
آپ جو کرتے ہیں، سوچتے ہیں اور محسوس کرتے ہیں، وہ کیوں کرتے ہیں؟ آپ شاید کہیں کہ ان کے جوابات تو بائیولوجی، اناٹومی، فزیولوجی اور نفسیات میں بھی مل جائیں گے۔ اور سائنس ہمیں سوچ، احساس اور حرکات سمجھنے میں یقینی طور پر مدد کر سکتی ہے کیونکہ انسان ہونے کی حالت کی میں ہارمون یا نیوروٹرانسمیٹر، تجربات اور وراثت بھی ہیں۔ یہ کیمیکل اور تجربات ہمیں وہ بناتے ہیں جو کہ ہم ہیں لیکن یہ جتنے سوالات کے جواب دیتے ہیں، اتنے ہی نئے پیدا کر دیتے ہیں۔
مثال کے طور پر، اگر میرے لئے گئے تمام فیصلے اگر اس وجہ سے ہیں کہ میری پرورش کیسے ہوئی، یا میری دماغ کے کیمیکل کی صورتحال کیا ہے تو میرے کسی بھی انتخاب کے کیا معنی؟ اور اگر میں اپنے فیصلوں اور انتخاب کرنے میں آزاد نہیں ہوں تو مجھ سے بازپرس یا جوابدہی کا کیا مطلب ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سائنس میں ہم ایسے سوالات تک ہی محدود رہتے ہیں جن کے جوابات تک پہنچنے کے سادہ طریقے ہوں، اس لئے اس کا دائرہ کار محدود ہے۔ لیکن زندگی اس سے زیادہ وسعت رکھتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سائنس سمیت دوسرے ہر علم کی ابتدا کچھ مفروضوں کو من و عن درست تسلیم کر لینے کے بعد ہوتی ہے۔ اس کے برعکس فلسفے میں ہم کسی بھی چیز کو پہلے سے قبول نہیں کرتے۔ اپنے مفروضات کو ایک طرف رکھتے ہیں (کم از کم کچھ دیر کے لئے ایسا کرنے کی پوری کوشش کرتے ہیں) اور دنیا کو ایک نئے زاویے سے دیکھنے کی کی جستجو کرتے ہیں۔
ایسے سوالات جن کے جواب نہیں، ایسے معمے جنہوں نے تاریخ کے بڑے نابغوں کو ہزاروں سال سے الجھایا ہوا ہے، فلسفے کا موضوع ہیں۔
یہ ہمیشہ آسان نہیں لیکن اس کے زندگی پر دیرپا اثرات ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج سے اڑھائی ہزار سال پہلے کی انٹکچوئل دنیا میں ایشیا میں بدھ مت اور جین مت کا غلبہ تھا۔ یونان میں فلسفے کی سوچ ابھر رہی تھی۔ سکالر ایک تفریق کر رہے تھے جو فیلوس اور میتھوس کے درمیان تھی۔ اس کے قریب قریب کا ترجمہ آجکل سائنس اور قصہ گوئی کیا جائے گا۔ ہومر جیسے زبردست قصہ گو تھے جو دنیا کی وضاحت کہانیوں سے کرتے تھے جب کہ ابتدائی فلسفی زیادہ تجزیاتی طریقوں کا استعمال کرتے تھے۔ (فلوسفیا کے لغوی معنی “دانائی سے محبت” کے ہیں)۔ ابتدائی فلسفے میں کسی بھی شے کی اکیڈمک سٹڈی آتی تھی۔ افلاطون یا ان کے حریف ارسطو کی درسگاہوں میں ریاضی، فزکس، شاعری، پولیٹیکل سائنس یا آسٹرونومی، سبھی کو فلاسفی سمجھا جاتا تھا۔ بعد میں یہ شعبے الگ ہوتے گئے۔ جن موضوعات پر مضبوط ایمپریکل عناصر تھے، انہیں سائنس کہا جانے لگا جو جوابات کی تلاش تھی۔ جبکہ فلسفے کو سوالات کے بارے میں سوچنے کے طریقے کے طور پر سمجھا جانے لگا۔
فلسفی ابھی بھی سوال کرنا پسند کرتے ہیں۔ کئی بار ایک ہی سوال کو بار بار کرنا پسند کرتے ہیں۔ اور اس کا برا نہیں مناتے کہ انہیں جواب نہیں ملتے۔ آخر ایسے بڑے سوالات کونسے ہیں؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک مثال: یہ دنیا کیسی ہے؟ سننے میں آسان لگتا ہے۔ ٹھیک؟ اپنے آس پاس دیکھیں۔ اشیا دیکھیں اور بتا دیں کہ دنیا کیسی ہے۔ اس میں مسئلہ کیا ہے؟ لیکن فلسفے کی اپروچ ایسے سادہ مشاہدات پر مبنی نہیں، اس کے سوالات پیچیدگیاں رکھتے ہیں۔ جب فلسفی پوچھتا ہے کہ دنیا کیسی ہے تو شاید اس کا مطلب یہ ہے کہ نیچر آف رئیلیٹی کیا ہے؟ مثلاً، کیا دنیا صرف مادے اور توانائی کا کھیل ہے یا کچھ اور بھی ہے؟ اور اگر یہ صرف مادہ اور توانائی ہی ہے تو پھر یہ کہاں سے آیا؟
اور آپ خود اس میں کیا ہیں؟ کس طرح کا وجود ہیں؟ کیا آپ کی روح ہے؟ کیا کچھ غیرمادی ہے جو آپ کی وفات کے بعد رہ جائے گا؟ ان سوالات کو میٹافزکس میں ایکسپلور کیا جاتا ہے۔ جو فلسفے کی بڑی شاخوں میں سے ایک ہے۔ اس کی کوشش نیچر کو اور کائنات کو بنیادی سطح پر جا کر سمجھنا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فلسفے کی ایک اور شاخ ایپسٹمولوجی ہے۔ یہ علم کی ہئیت اور حد کے بارے میں ہے۔ اس میں سوال کچھ اس طرح کے ہیں کہ “کیا دنیا واقعی ویسی ہے جیسا کہ ہمارا خیال ہے؟” مثلاً، کیا جیسا میں دیکھتا ہوں یا سوچتا ہوں یا محسوس کرتا ہوں، ویسا ہی سچ ہے؟ اور اگر نہیں تو پھر سچ کیا ہے؟ اور اس تک پہنچے کا بہترین طریقہ کیا ہے؟ کیا سائنس ایسا طریقہ ہے؟ یا کچھ اور راستے بھی ہیں جہاں سائنس کبھی نہیں جا سکتی؟
فرض کیجئے کہ بہت تلاش اور سوال پوچھنے کے بعد میرے آئیڈیا ڈویلپ ہونے لگتے ہیں کہ کیا سچ ہو سکتا ہے۔ لیکن مجھے کیسے پتا لگے گا کہ یہ واقعی درست ہے؟ مجھے کبھی بھی کیسے پتا لگے گا کہ میں غلط تھا؟ میں کسی چیز کے بارے میں کیسے یقینی بات کر سکتا ہوں؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فلسفے کا ایک اور علاقہ اس بارے میں فکر کو ٹھیک طریقے سے فریم کرنے میں مدد کرتا ہے کہ ہمیں کرنا کیا چاہیے۔ کس چیز کو معنی دینے ہیں۔ اس کو ویلیو تھیوری کہا جاتا ہے۔ اس کو اپنی دو شاخوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ ایک اخلاقیات ہیں جبکہ دوسری جمالیات۔
اخلاقیات کے بارے میں آپ نے سنا تو ہو گا لیکن فلسفے میں اخلاقیات ٹھیک اور غلط کو الگ کرنے کا کوئی کوڈ نہیں۔ اس میں یہ پڑھا جاتا ہے کہ انسانوں کو ایک دوسرے کے ساتھ کیسے رہنا ہے۔ بجائے اس کے، کہ بیٹھ کر لوگوں کے بارے میں رائے زنی کریں، اخلاقیات میں سوالات کئے جاتے ہیں کہ “مجھے رہنا کیسے چاہیے؟”۔ “کیا اس کی کوئی وجہ ہے کہ اجنبیوں کے ساتھ میں رویہ ویسے نہیں رکھتا جیسا اپنوں سے؟”، “کیا میری اپنے بارے میں کوئی ذمہ داریاں ہیں؟”، “کیا جانوروں کے بارے میں؟”، “کیا اس زمین کے بارے میں؟”۔ اور اگر ہیں تو یہ کہاں سے آئیں؟ کیوں ہیں؟ آخر میں آپ جس سسٹم کو بھی اچھائی یا برائی کی تفریق کے لئے استعمال کریں، اس کا تعلق اقدار سے ہے۔ اس لئے اخلاقیات اقدار کی تھیوری کا حصہ ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ویلیو تھیوری کا دوسرا حصہ خوبصورتی کے بارے میں ہے۔ جمالیاتی میں آرٹ اور خوبصورتی کو سٹڈی کیا جاتا ہے۔ خوبصورتی کا تصور ہر جگہ پر ہے۔ میڈیا سے لے کر آرٹ سکول اور حجام کی دکان تک۔ لیکن فلسفے میں جمالیات پر خوبصورتی کی نیچر پر بات کی جاتی ہے اور کیا یہ موجود بھی ہے یا نہیں؟ یہ ویلیو تھیوری کا حصہ اس لئے ہے کیونکہ ہم خوبصورتی کو ویلیو کرتے ہیں۔ فلسفے کی اس قسم کو پڑھنے والے aesthetician کہلاتے ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ “خوبصورتی” خود میں معروضی وجود رکھتی ہے۔ اس کا تعلق اس سے نہیں کہ ہمیں کیا پرکشش لگتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فلسفے کی ایک اور شاخ بھی ہے جس میں سوال نہیں پوچھے جاتے بلکہ اس کا تعلق جوابات سے ہے اور یہ منطق ہے۔ منطق فلسفی کے اوزاروں کا ڈبہ ہے۔ اس میں کلہاڑے اور آریاں، خوردبینیں اور شیشیاں ہیں جن سے جوابات تک طریقے سے پہنچا جا سکتا ہے۔
منطق کا تعلق ریزن کرنے سے ہے، دلائل دینا جو مغالطوں پر مبنی نہ ہوں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور گھبرائیں مت۔ کیونکہ فلسفہ تو آپ کرتے ہی رہتے ہیں۔ اپنی زندگی کے ہر معاملے میں۔ جب آپ اپنے والدین سے بحث کرتے ہیں یا کیرئیر کے کسی فیصلے پر سوچ بچار کر رہے ہیں یا یہ سوچ رہے ہیں کہ آج دہی کھائیں یا سموسے تو آپ فلسفہ کر رہے ہیں۔
کیونکہ اس وقت میں آپ دنیا کے بارے میں اور اس میں اپنی جگہ کے بارے میں سوچ رہے ہیں۔ آپ یہ سوچ رہے ہیں کہ آپ کے لئے اہم کیا ہے، کیوں ہے اور اس بارے میں کرنا کیا چاہیے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فلسفے کے ڈسکورس میں آپ سوال رکھتے ہیں، ان کے ممکنہ جوابات پر غور کرتے ہیں اور اس کے لئے دو سٹیپ استعمال کرتے ہیں۔ سب سے پہلے سوال کو ٹھیک سمجھنے پر زور لگاتے ہیں۔ ضروری نہیں کہ زیرِغور تمام آئیڈیاز سے اتفاق رکھیں۔ اس میں نکتہ اتفاق کرنا نہیں ہے۔ نکتہ یہ ہے کہ پہلے اس آئیڈیا کے اندر گھسا جائے اور اس کو بہترین روشنی میں دیکھ کر سمجھنے کی کوشش کی جائے۔
دوسرے قدم میں اس کا سنجیدگی سے تجزیہ کیا جائے۔ اگر آپ کا دنیا کے بارے میں کوئی خاص نکتہ نظر ہے جو گرتا ہے اسے گرا کر یہ کام کیا جائے۔ اور پھر اس کے بعد، خواہ اس سے اختلاف رکھیں یا پھر اتفاق۔
کیوں؟ کیونکہ جب آپ اپنے فکر کو چیلنج نہیں کرتے اور یہ نہیں سمجھ لیتے کہ دوسرے دنیا کو دیکھتے کیسے ہیں، آپ فیصلہ نہیں کر سکتے کہ کیا یہ زاویہ نگاہ رکھنے کے قابل ہے بھی یا نہیں؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آپ فلسفی نہیں اور کسی بھی علم کی طرح فلسفے کو فیس بک کے مضمون یا یوٹیوب کی ویڈیو سے نہیں سکھایا جا سکتا۔ لیکن جس طرح سائنس سیکھنے کے لئے آپ کو سائنسدان ہونا ضروری نہیں ، اسی طرح پاپولر فلاسفی کو سیکھنے میں کامیابی کا مطلب نئے فلسفے کی تخلیق کرنا نہیں بلکہ یہ ہے کہ آپ کو یہ علم ہو جائے کہ سوچنا کیسے ہے۔
ہمارے پاس سوالات ہیں اور ہمارے پاس دماغ ہے۔ فلسفے کا مقصد اس دماغ کے استعمال سے ایسے جوابات تک پہنچنا ہے جن کی آپ کے نزدیک زیادہ تک بنتی ہو۔ آپ اپنے خیالات کے لئے دلائل دے سکیں اور وضاحت کر سکیں کہ آپ کے خیال میں یہ کیوں درست ہیں۔
اور اگر آپ انٹرنیٹ استعمال کرتے رہے ہیں تو آپ جانتے ہوں گے کہ بہت کم لوگ ایسا کرنے میں کوئی خاص مہارت رکھتے ہیں۔
فلسفہ زندگی کے مشکل ترین سوالات کی تفتیش کے لئے آلات دیتا ہے۔