( Science behind kissing )
نیوروسائنس کی روشنی میں
آغازِ الفت کی پرکیف وادی میں کسی شخص سے مانوس ہو کر اسکی صوت و صورت سے سامانِ راحت کشید کرنا عشاق کا وتیرہ رہا ہے۔ عمومی طور پر ابتدائے عشق میں محبت کو پاکیزہ جذبات سے جوڑا جاتا ہے جس میں طبعی و شہوانی خواہشات کا کوئی عمل دخل نہیں ہوتا بلکہ یہ رشتہ رؤح کی طمانیت سے منسلک سمجھا جاتا ھے۔ اور محب و محبوب ایک دوسرے کو دیکھ کر راحت و مسرت کے گھونٹ بڑھتے ہیں تو کبھی باہمی گفتگو سے فرطِ مسرت کو توانائی و تواتر بخشتے ہیں ۔ گویا ابتدائے عشق میں ایک دیوارِ تفاوت شہوات و چاہت کے درمیان حائل سمجھی جاتی ہے۔ شاید ان جذبات کو شعر میں سمیٹ کر بیان کرنا مناسب ہوگا ۔
دیکھ لمسِ لطافت کا انداز کتنا پاکیزہ ہے
نہیں عضوِ طبعی حائل فقط آنکھوں سے چھونا ہے
لیکن جونہی صوت و صورت کے گلشن سے اہلِ الفت خلدِ لمس میں داخل ہوتے ہیں ۔ راحت و مسرت کا مبتدا سے شروع سفر اپنی منتہا کی طرف گامزن ہوجاتا ہے۔ اور دماغ کے ریوارڈ سسٹم سے پیدا ہونے والے خوشی و مسرت اور راحت و عشرت کے ہارمونز و نیورو ٹرانس میٹر کی سرعت بلا خیز حد تک فعال ہوجاتی ہے۔ اور بدن میں راحت و طمانیت کی ایک لہر دوڑ جاتی ہے ۔ جب اہلِ الفت ایک دوسرے کے ہاتھوں کو تھام کر سرور کے بحرِ بیکراں اور لذت کے دریا میں غوطہ زن ہوتے ہیں ۔ ایک عجب راحت کا احساس اور ایک منفرد خوشی تن و بدن میں پھیل جاتی ھے۔
دماغ میں جنم لینے والا ڈوپامائن ( Dopamine ) راحت و مسرت کا موجد ثابت ہوتا ھے ۔ اور اس ڈوپامائن کی تاثیر انسان کو اپنے سحر میں جکڑ لیتی ہے اور اسے اس عمل لذت اور اس پر کیف امر کو جاری و ساری رکھنے پر مجبور کرتی ہے۔
لیکن جب یہ لمس وجود کے حساس حصوں پر اپنی سحر انگیزی دکھاتا ہے تو ڈوپامائن ( Dopamine ) نشاط و فرط اور راحت و مسرت کے احساسات اپنی انتہاء کو چھونے لگتے ہیں اور انکی تاثیر بدن میں بھی طلسماتی قوت کے ساتھ سراپائے عمل ہوجاتی ہے۔ جب لمس لبوں کی وادی سے گزرتا ہے اور اہلِ الفت بوس و کنار سے اپنے جذبات کی جادوئی قوت میں گم ہوتے ہیں تؤ دماغ سے ٹیسٹو سٹیرون ( Testosterone ) اور ایسٹروجن ( Estrogens ) شہوانی خواہشات کی بیداری و تکیمل کی طرف گامزن ہوجاتے ہیں ۔ جبکہ سیروٹونین Serotonin مزاج و طبع کو خوش باش اور پر سرؤر رکھنے کے کام میں جت جاتا ہے۔ خؤن میں کوریسٹال ( Coristol ) کا لیول کم ہوجاتا ہے جس سے پژمردگی اور پریشآنی جیسے خلل ساز جذبوں کا قلع قمع ہؤجاتا ہے۔ اور دو پریمی پورے انہماک کے ساتھ اس بوس و کنار میں لگ جاتے ہیں اور راحت ؤ مسرت کی ایسی پر لذت وادی میں بھٹک جاتے ہیں کے انکے آپس میں زعم ہونے کا احساس بھی انکے خیال سے نہیں گزرتا اور دماغی ہارمونز اور نیوروٹرانس میٹرز کے تخلیق شدہ جذبات کے سحر میں وہ شعور کو بالائے طاق رکھ کے کھو جاتے ہیں ۔ اور جسم پر بوس کنار کا ایک سلسلہ شروع ہوجاتا ہے جو کے سب دماغ کا کیا دھرا ہوتا ہے۔
بے گنتی بوسے لیں گے رخ دل پسند کے
عاشق ترے پڑھے نہیں علم حساب کو
اظہارِ جذبات میں بوسوں کے عمل دخل کی کہانی کچھ لؤگوں کے قریب ماں کا بچوں کؤ اپنے منہ سے کھانا کھلانے سے جا ملتی ہے جیسے عموماً پرندوں میں دیکھنے کو ملتا ہے لیکن یہ مفروضہ بہت سے سوالات کے جوابات دینے سے قاصر ھے ۔ اس لیے بوسے کی تاریخ اور ارتقائی تخلیق کے بارے میں کچھ کہنا مشکل ہے۔ تاہم اسکو لمس کے تناظر میں دیکھا جائے تو بات کافی حد تک واضح ہوجاتی ہے کے لمس سے یعنی چھونے سے جسم میں راحت و مسرت کو وجود ملتا تھا اور اسی عمل کا تجربہ جب جسم کے حساس حصوں پر کیا گیا تو لذت و سرؤر میں اضافہ محسوس ہونے لگا جبکہ لب حساسیت کو محسوس کرنے والے حساس ترین حصے ہیں لہٰذا لبوں سے چھو کر راحت محسوس کرنے کا آغاز ہوا اسی طرح جب زبان اور منہ میں موجود پانی saliva کے ذریعے اس تجربے کو کیا گیا تو لذت و رآحت میں مزید اضافہ محسوس ہؤنے لگا ( جبکہ ایک نظریے کے مطابق بوس و کنار کے وقت saliva میں کچھ تناسب ٹیسٹوسٹیرون کا بھی پایا جاتا ہے جو شہوانی خواہشات کو متحرک کرتا ہے )
اسی طرح بوسوں کے مختلف طریقوں کؤ تشکیل ملی جو آج جانوروں اور خاص کر کے انسانوں میں پائے جاتے ہیں ۔
مصنوعی ذہانت انسانی تخیل اور ادب کا مستقبل
مصنوعی ذہانت کا لفظ پہلی بار Dartmouthبرطانیہ میں ہونے والی ایک سائنسی کانفرنس میں معرض وجود میں آیا۔مصنوعی ذہانت یعنیArtificial...