نامور مزاح نگار ، ادیب مرزا عابد عباس (کراچی)
روز مرہ زندگی میں اپنے گرد و پیش بہت سی کہانیاں نظر تو آجاتی ہیں لیکن چار سطروں کی کہانی کو پانچ دس صفحات پہ چابک دستی سے طول دینا ہر کسی کے بس کا روگ نہیں۔ کہانی لکھنا کیونکہ سہل کام نہیں، یوں اس بھاری بھرکم پتھر کو چوم کر رکھ دیا جاتاہے۔ معاشرے میں کہانیوں کی کمی نہیں ہے ۔ بقول سعادت حسن منٹو ہر پتھر کے نیچے ایک الگ کہانی موجود ہے۔ اب ان کہانیوں کو پڑھنا اور اپنے اسلوب میں بیان کرنا ہی افسانہ نگاری کا فن ہے۔ امین جالندھری کو خدا داد صلاحیت عطا ہوئی ہے کہ وہ اپنے ارد گرد رو نما ہونے والے واقعات پر گہری نظر رکھتے ہیں اور پھر اسے کہانی میں ڈھال سکتے ہیں۔ امین صاحب کی یہ کہانیاں قاری کو اپنی گرفت میں لے لیتی ہیں اور آدمی پوری کہانی پڑھے بغیر چین سے نہیں بیٹھ سکتا ۔ امین جالندھری صاحب نے اپنی کتاب، حرف حرف کہانی میں اتفاق سے کہیں دوسرے ایڈیشن کا تذکرہ نہیں کیا۔ جبکہ کسی کتاب کا دوسرا ایڈیشن آنا ہی کامیابی کی دلیل ہے۔ ان کی کہانیوں میں کہیں مسجد بنانے کی سعادت ہے تو کہیں سنہرا خواب۔ کہیں جیب کتروں کا احوال ہے تو کہیں نیا سفر اور کہیں ناکام عاشق نظر آتا ہے۔ امین جالندھری صاحب کا پیشہ تو بینکاری اور وکالت رہا لیکن انھوں نے افسانہ نگاری میں اپنا مقام پیدا کیا۔ وہ ایک منجھے ہوئے کامیاب افسانہ نگار ثابت ہوئے فسانہ زندگی کا آئینہ دار ہوتا ہے۔ ان میں وہی ہوتا ہے جو ہم روز مرہ زندگی میں اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ ہلکے پھلکے اور شیریں انداز میں تلخ حقائق کو پیش کر کے آدمی کو ایک بار سوچنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔ امین صاحب کے ہاں تحریر میں شگفتگی اور روانی پائی جاتی ہے۔ ان کے افسانوں میں خاص خوبی یہی ہے کہ ان میں بلا وجہ کی دانشوری اور بقرا طیت کا شائبہ بھی نہیں۔ امین جالندھری صاحب کے افسانے دلچسپ بھی ہوتے ہیں اور ساتھ ساتھ ان کا طرزِ بیان بہت ہی خوب صورت ہوتا ہے۔
٭٭٭٭٭٭٭