معروف محقق ناقد، ادیب، افسانہ نگار، شاعرہ۔ ڈاکٹر شبنم امان (کراچی)
امین جالندھری افسانوی دنیا میں حرف حرف کہانی کے ذریعے اُفق پر نمودار ہوئے اور ابھی بہت آگے جائیں گے ۔ افسانوں کے پلاٹ وہ ہیں جو بھنور جیسے معاشرتی مسائل کے باطن میں اتر کر اس کے بھید کھولتے ہیں ساتھ ہی تجسس کا عنصر بر قرار رکھ کر افسانے کے اختتام پر قارئین کو چونکا دیتے ہیں اور کرداروں کے نفسیات کی گرہ کشائی کرتے ہیں ۔ افسانوں میں کہانی پن وحدت کردار اور محاکات کو بڑے سلیقے سے پیش کرتے ہیں افسانے کا اسلوب فکری سطح سے مکمل طور پر ہم آہنگ ہے۔ موجودہ عہد میں فصیح و بلیغ زبان افسانے میں عنقا ہے لہٰذا اس میں فصاحت و بلاغت پر ہم بات نہیں کرتے ان کا نظریہ فن۔
افسانہ محشر خیال فکری سطح پر کئی سوالیہ نشان چھوڑ جاتے ہیں۔یہ برصغیر کی عوام کا المیہ ہے اور مذہبی نظریاتی غلامی کی طرف بلیغ اشارہ ہے شاہ عالم اور درویش کے عجزو عقیدت سے بھرے مکالمے دستور عقیدت مندی کی طرف طنزیہ اشارہ ہے جوقارئین کو الجھائے رکھتا ہے ۔ خواب کے ذکر پر مسجد کی تعمیر اس بات کا اشارہ ہے کہ حقیقی مسائل کا علم حاکم وقت کو ہے مگر ملکی ترقی مسجد کی تعمیر سے جوڑ کر خود کو بری الذمہ قرار دیتے ہیں۔
سیاسی اقتصادی تخلیقی عمل کی آزادی نہیں بشری مسائل کو نظر انداز کرتے ہوئے حاکم وقت پیری مریدی بزرگی اور عقیدت کے مسئلے میں الجھ کر عوامی مسائل کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔ تعمیر مسجد دراصل درویشی کی عیاری ہے او ر کھانے کمانے کا ذریعہ۔ ہے حاکم وقت کی بے شعوری نے ہی عوام کے اصل مسائل کو نظر انداز کردیا خانقاہوں عبادت گاہوں اور مزارات کی طرف متوجہ کر دیا ۔ درویش کی نفسیات پر شب خون مارتے ہوئے افسانوں کے خون میں حقیقت کا رنگ جمایا یہ تماشا برصغیر کی عوام کی قسمت میں لکھا جا چکا ہے ۔ افسانے میں ایک بھیانک مذہبی جرم جھانک رہا ہے۔
افسانہ مستی میں بھی اشفاق حسین کا افسانہ چور کا احساس نمایاں ہے جہاں جرم اور چوری کے بعد بلھے شاہ کے مزار پہ پہنچتا ہے اور مردہ بچے کی قبر پر پانی کا چھڑکائو کر کے اپنے گناہ کا ازالہ کرتا ہے بالکل اسی طرح علی محمد اور خیرو کی کہانی ہے جہاں سیٹھ سے رقم لوٹنے کے بعد کچھ حصہ نذرانے کے باکس میں ڈال دی جاتی ہے۔ جرم و سزا کا یہ بھیانک کھیل صدیوں سے جاری ہے مذہب کے نام پر جرم پرانا وطیرہ ہے امین جالندھری کے افسانوں میں چھوٹی چھوٹی حقیقتیں قارئین کو حیرت تابناک میں مبتلا کرتی ہے ان کے علم و فکر کو دیکھ کر محسوس ہوتا ہے کہ صدیوں سے اندھے اور بہرے ہیں وہ اپنی فکر سے قارئین کو اسیر کرتے ہیں۔
خواب آپ کے افسانوں میں بنیادی حیثیت رکھتے ہیں ان خوابوں کی انوکھی اور چونکا دینے والی تعبیر میں کچھ نیا پن ہے ۔ افسانہ خمار عمر ماروی کی نئی داستان ہے افسانہ نگار نے اپنے اسلوب بیان سے مختصر افسانہ کو بڑے کینوس پر تبدیل کرتے ہیں ۔ افسانہ کا کلائمکس سبز ٹوپی والے کا ملنا اور پھر نکاح پڑھانا واقع کو حیرت انگیز لمس عطا کرتا ہے ۔ تہذیب روایت جو روح کے اندھیرے کو روشن کرتی ہے ۔ حیوانی جبلتوں کو لگام دیتی ہے تلخ معاشرتی حقیقتوں کو تہذیب نفاست بردباری سے پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں ان کے افسانوں میں گہرائی اور اعجازِ مسیحائی ہے جب ماروی عمر کو کہتی ہے کہ میرا تجربہ میرا رفیق ہے میں نے زندگی میں ہزاروں آدمیوں کے ساتھ سفر کیامکمل نامکمل ، آسودہ نا آسودہ حالت ہوش میں مدہوشی میں رنگین چمکتی راتوں میں طوفانی برساتوں میں شہروں میں صحرائوں میں۔ بدو تو خیمے سے باہر ہوتے ہیں خیمے کے اندر تو ہم تم نہیں ہوتے ۔
افسانہ کا میاب آج کی سیاسی تصویر ہے۔ یہ جلسہ بھائی گیٹ میں رہنے والے ان کے ہمدردمل کر کامیاب بناتے ہیں ۔ نتھو پہلوان ، بلا بٹ، میاں عبد اللہ، حاجی عمر دین یہ سب جس کا ساتھ دیں وہ الیکشن نہیں ہا ر سکتے اچھا یہ سب بھائی کہاں کے رہنے والے ہیں یہ سب بھاٹی کے رہنے والے ہیں جی نہیں پہلے رہتے تھے اب ماڈل ٹائون میں رہتے ہیں۔
کامیاب افسانہ نگار موجودہ سیاسی حالات ملکی انتشار و افرا تفری کے گہرے اثرات ہیں ان کو واقعاتی افسانہ کہہ سکتے ہیں ۔ افسانہ موڑ، کامیاب، ایک دن کی بات، گھوڑا اس کی عمدہ مثال ہے۔ ریاستی ادارے مقتدر طبقات اپنے مفادات کا تحفظ کرتے کرتے وطن عزیز کوکھائیوں میں دھکیل چکے محکوم لوگوں کو تہذیبی مشن کے نام سے جاری کر کے یہاں کی عوام کی شعور و فکر ی سوچ کو اقتصادی جکڑ بندی میں رکھا ہے جہاں حاکمیت کی چابی طاقت ہے اور طاقت دولت کا دوسرا نام ہے۔ نیو ورلڈ آرڈر کی صورت میں مغربی راج کو یہاںکے رہنمائوں نے اپنے مفادات کیلئے کس طرح استعمال کیا افسانہ گھوڑا پڑھیئے۔
مسٹر گلاب امریکہ آئو اپنا مال بیچومفت میں ہمارے گھوڑے کی سیر کرو آپ کون۔ سپر پاور نئے ورلڈ کا خالق تمہاری شہ رگ سے زیادہ قریب ہوں۔ گھوڑا نیو ورلڈ آرڈر کے پردے میں محکوم ممالک کو حاکمانہ حکمت عملی سے کس طرح شکنجہ میں لئے ہیں اس کی طرف بلیغ اشارہ ہے ۔ نیو ورلڈ آرڈر کے پردے میں مسلمانوں کے کرداروں کی عیاری اور مکاری میں عیاں ہوں تو آیا ان مقامی اشرافیہ کو ڈسکورس کیا ۔ امین جالندھری کے سمعیاتی فیلڈ وسیع ہیں۔ یعنی جس کو سمجھنے کے لئے معاشرتی مسائل کی روح کوسمجھنا ضروری ہے۔
حرف حرف کہانی واقعی حرف حرف کہانی ہے یہ کہانی صوفیانہ افسانوں کی سید ہے خوابوں کی تعبیر میں انسان زندگی بھر الجھا رہتا ہے یہاں خواب کی آواز بازگشت بن جاتی ہے آواز کے سفر کے ساتھ بیانیہ انداز واحد متکلم کردار دور نکل جاتے ہیں جہاں خوابوں کی تعبیر خود راستہ بنا کر زندگی کے منفی مثبت سمت کا تعین کرتی ہے جب ماروی کا بھائی یوں جدا ہوا کہ سبز ٹوپی والے نے نکاح پڑھا دیا جس سے افسانے میں حیرت و جاذبیت بڑھ گئی۔ افسانہ نگار کا کمال یہ ہے کہ لمبی چوڑی تمہید کے بغیر مختصر لفظوں میں کرداروں کی جھلک دکھا کر قارئین کو سوچنے پر مجبور کرتے ہیں فلسفیانہ اذکار کے بغیر انسانی نفسیات کو گرفت میں لے کر کرداروں پہ ماحول کااثر دکھاتے ہیں۔ افسانہ رہائی دیہی زندگی اور کم داروں کی زندگی کی جیتی جاگتی تصویر ہے موجودہ سماجی نظام کی منظر کشی صرف ان لفظوں میں کرتے ہیں۔
عرض محمد تمہاری حسن زادی کا کیا حال ہے۔ سائیں آپ کی باندی ہے تو پھر عرض محمد۔۔۔ کل تم حسن زادی کو حویلی بھجوادینا۔
سائیں ۔ سائیں ۔ سائیں
سائیں سائیں کی تکرار کم دار عرض محمد کی بے بسی اور اس کے اعمال کی سزا۔ افسانہ ایک دن کی بات میں مذہبی رواداری اور لبرل ازم کے پردے میں چھپے گھنائونی سازش اور مکاری کا پردہ چاک کیا ۔ پروپیگنڈہ کے ذریعے اہل منصب امن و امان کے مسائل پیدا کر کے بڑے سکون سے اڑان بھر لیتے ہیں عوامی سکون کو آگ لگا کر شراب و شباب اور بزم آرائی میں مگن رہتے ہیں ۔ واحد متکلم کی صورت میں ملے گی اکثر افسانے وحدت تاثر کی بناء پر قابل تحسین ہیں افسانے کے اکثر کردار ہمارے اور ارد گرد سیاسی، مذہبی ، تجارتی، علاقائی دفتری شعبہ میں چلتے پھرتے نظر آتے ہیں۔ آغاز و اختتام مکالمہ کردار میں ابہام نہیں ہے ۔
نئے مسائل کو بیان کر نے کیلئے سادہ عام فہم اسلوب اختیار کیا ۔ ابلاغ کی ترسیل با آسانی ہو۔ امین جالندھری کے افسانے عصری آشوب سے پھوٹتے ہیں اس دنیا اور سماج کی مصنوعی بنائی ہوئی روایتی و تہذیبی بنیادوں کی جڑوں میں اتر کر اسے کھو کھلا کر دیتے ہیں ۔ منفی رویوں پہ ان کی گرفت مضبوط ہے ۔ کہانیوں کے مطالعہ سے یوں لگتا ہے کہ اجتماعی بطن سے جس تہذیب کی داغ بیل ڈالی گئی اس نے انسانوں کو سہل پسند بنا کر تباہی سے دوچار کر دیا ۔ انکے ارد گرد کے دیکھے جانے مسائل کو بنا آئینہ دیکھاتے ہیں۔موجودہ مسائل کو عصری صورت حال میں جانچ کر اس سے تہذیبی رشتہ قائم کرتے ہیں ان کے بیانیہ میںپوشیدہ جزن چھپا ہوا ہے۔ طنز کی آنچ نے متن کی تپش کو بڑھا دیا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭
ادب کیا ہے ؟
(ادب کا ایک مربوط نظریہ)
از: ڈاکٹر محمد خان اشرف
ادب کی نوعیت، معنویت، تخلیق ، ادبی مظہر کے اجزا ء ترکیبی ، تخلیقی محرک، انسانی تخلیقی تجربہ، تخیل کا عمل، ادب اور معاشرہ، ادب اور زبان ، ادب کا مقصد، ادب اور دیگر فنون کا تعلق، ادب اور قاری ، نقاد کا مقام و مرتبہ اور دیگر بنیادی ادبی سوالات کے جوابات
الحمرا میں بالا اقساط چھپنے والی کتاب
قیمت240روپے
ناشر: مرکز زبان و ثقافت ، مکہ سینٹر پہلی منزل لوئر مال لاہور