عراق میں انتخابات 30 جنوری 2005 کو ہو چکے تھے۔ القاعدہ کی دھمکی کہ وہ اس دن عراق کو خون سے نہلا دیں گے، کارگر نہیں رہی تھی۔ اگرچہ الیکشن کے دن ملک بھر پولنگ سٹیشنوں پر کئے جانے والے حملوں میں چوالیس افراد مارے گئے تھے لیکن یہ مرحلہ طے کر لیا گیا تھا۔ جولائی 2005 کو القاعدہ کی مرکزی قیادت کی طرف عراقی ونگ کو یہ خط لکھا گیا۔ چھ ہزار الفاظ پر مشتمل اس خط کو ایمن الظواہری نے تحریر کیا تھا اور زرقاوی کو بھیجا تھا۔ مندرجہ ذیل اقتباس اس خط کے ایک حصے کا لفظی ترجمہ ہے۔
“مسلمانوں کی آبادی مغوین کے ذبح کئے جانے کے مناظر کو اچھی نظر سے نہیں دیکھ رہی۔ کچھ جذباتی نوجوان ان کو پسند ضرور کرتے ہیں اور اس عمل کی تعریف بھی کرتے ہیں لیکن اس سے دھوکا نہ کھایا جائے۔ یہ ہمارے ایک عام مداح کا نکتہ نظر نہیں۔ آپ پر اللہ نے خصوصی کرم کیا ہے اور آپ کا ایسا کرنے کا جواز بھی بنتا ہے کیونکہ آپ سمجھتے ہیں کہ اس طریقے سے ان صلیبیوں اور ان کے مددگاروں کے دلوں میں خوف ڈالا جائے۔ ہمارے دشمن کے فعل، ان کا شہروں کو تباہ کرنا لوگوں کے سر قلم کرنے سے بدتر ہے۔ لیکن اس سب کے باوجود، میں آپ کو یہ کہوں گا کہ ہم حالتِ جنگ میں ہیں اور یہ جنگ صرف میدان میں نہیں، لوگوں کے دلوں اور ذہنوں کی جنگ بھی ہے۔ یہ ایک میڈیا وار ہے۔ اور اس معاملے میں ہماری صلاحیت اس شیطانی بادشاہت کی صلاحیت کا ہزارواں حصہ ہے۔ ہمیں ان اغوا کرنے والوں کو خنجر کے بجائے گولی سے مارنا چاہیے۔ اس سے مقصد بھی پورا ہو جائے گا اور لوگ سوال بھی نہیں کریں گے جو اب وہ اٹھانا شروع ہو گئے ہیں۔ جنگ کے اس مرحلے پر ہمیں کچھ حکمت کا استعمال کرنا چاہیے”۔
اس خط میں زرقاوی کی کامیابیوں اور بہادری کی تعریف بھی کی گئی تھی۔ لیکن عراقی القاعدہ نے اس سے دو ہفتے بعد اس کا جواب دیا، “وہ لوگ جنہیں جہاد کا اور معاملات کا نہیں معلوم، ان کو اپنا منہ بند رکھنا چاہیے۔ وہ عقلِ کُل نہیں ہیں۔ ہم جو کر رہے ہیں، علمائے حق اس میں ہمارے ساتھ ہیں”۔
اس کے بعد عام شیعہ شہریوں کے قتل سے منع کرنے پر ستمبر 2005 کو الظواہری کو براہِ راست جواب جہادی ویب سائٹ پر آڈیو ڈال کر دیا گیا۔ “دجلہ اور فرات کے درمیان القاعدہ رافضیوں کے خلاف کھلی جنگ کا اعلان کرتی ہے۔ اور اس کے علاوہ جو بھی عراقی حکومت سے کسی بھی کسی کا تعلق رکھے گا، وہ ہمارے نشانے پر ہو گا۔ کوئی قبیلہ جو ان صلیبیوں یا ان کے ایجنٹوں کا ساتھ دے گا، مجاہدین کا غضب دیکھ لے گا”۔
القاعدہ عراق میں شامل ہونے والوں کے لئے بیرونِ ملک سے آنے والوں کی تعداد ماہانہ ایک سو سے ڈیڑھ سو کے درمیان تھی۔ انٹرنیٹ پر القاعدہ کی شئیر کردہ ویڈیوز ایک پرعزم اور بے رحم جنگجو کا تاثر بناتی تھیں۔ یہ ایک عام انسان کے لئے تو طبیعت خراب کر دینے والے امیج تھے لیکن ہزاروں جذباتی نوجوان ان کو مسلمانوں کی مزاحمت کے ہیرو کے طور پر دیکھتے تھے۔ القاعدہ عراق کو اب القاعدہ کی مرکزی قیادت کی ضرورت نہیں تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اردن کے ہوٹلوں پر حملہ اس اعتماد کی وجہ سے کیا گیا تھا لیکن اس کے نتائج اچھے نہیں نکلے تھے۔ پہلی بار عراقی القاعدہ کو وضاحت پر مجبور ہونا پڑا تھا کہ اصل میں شادی کے مہمان نشانہ نہیں تھے۔ ان ہوٹلوں کا انتخاب کیا گیا تھا جس میں امریکی جاسوس آیا جایا کرتے تھے۔ اس ردِ عمل سے عراقی القاعدہ نے جلد سبق سیکھ لیا۔ اگلا پلان بہت ہی ہوشیاری سے بنایا گیا۔ نیا بڑا نشانہ سمراء میں تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پانچ مسلح افراد ایک ہزار سال پرانی العسکری مسجد کی طرف جا رہے تھے۔ یہ 22 فروری 2006 کی صبح تھی ۔۔۔ سمراء میں اس کا مسجد سنہرا گنبد ایک بہت مشہور سٹرکچر تھا۔ چھ بج کر چوالیس منٹ پر دو بہت بڑے دھماکوں نے شہر کو ہلا کر رکھ دیا۔ شہر کے مکین اس جگہ پر پہنچے تو یہ گنبد ملبے کا ڈھیر بن چکا تھا۔ اس کی بیرونی دیوار گر چکی تھی اور چھت کے سریے نظر آ رہے تھے۔ اس بم سے کوئی بھی زخمی نہیں ہوا تھا۔ اب کسی کو شکایت نہیں ہو سکتی تھی کہ القاعدہ معصوم شہریوں کو قتل کرتی ہے۔ اس نے تو بس شیعہ اسلام کی ایک اہم ترین تعمیر کو گرایا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شیعہ عسکری گروہ پہلے بھی بے قابو تھے۔ اس واقعے کے بعد بپھرے ہوئے غضبناک گروہوں نے سنیوں کی آبادیوں میں تباہی مچا دی۔ محلے اجاڑ دئے۔ حملے اور جواب حملے اور انتقام در انتقام کے ان چکروں نے شہر میں لاشوں کے ڈھیر لگا دئے۔ چند روز میں شہر کے مردہ خانے میں تیرہ سو لاشیں پہنچ چکی تھیں۔ فرقہ واریت کے بارود کو تیلی لگا دی گئی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
القاعدہ عراق کی برانڈنگ کرنے کے لئے اب نئی ویڈیو بنائی گئی۔ اس کو بنانے میں کئی دن لگے، کئی طرح سے ایڈٹ کیا گیا اور یہ ایک پروفیشنل پروڈکشن تھی۔ اسی طریقے سے، جیسے اسامہ بن لادن بنوایا کرتے تھے۔ اس میں زرقاوی بغیر ماسک کے تھے۔ عسکری کونسل سے مشورہ کر رہے تھے۔ نقشے کی سٹڈی کر رہے تھے۔ جنگجووں کے ساتھ صحرا میں جا رہے تھھے۔ مشین گن فائر کر رہے تھے۔ پراعتماد اور جوان ہمت، سیاہ ٹوپی اور سیاہ لباس میں ملبوس۔ نیچے سفید رنگ کے نیو بیلنس کے جاگر۔
اس کے ساتھ کمنٹری میں تحقیر کا عنصر بھی پہلے سے کم تھا، “دشمن اب ننگا ہو چکا ہے۔ کمزور پڑ چکا ہے، ان شاء اللہ، اس کے ٹکڑے ہو جائیں گے۔ اس کو سانس لینے کا موقع نہیں دینا۔ اس پر ایک کے بعد دوسرا حملہ ہو گا۔ ساتھیو، ڈٹے رہنا”۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فرقہ وارانہ فسادات جوبن پر تھے۔ اس حملوں کے چند ہی روز بعد امریکی فوجیوں نے بغداد میں زیرِ زمین قید خانہ دریافت کیا تھا جہاں شیعہ پولیس افسر سنیوں پر تشدد کرتے تھے۔ یہ تہہ خانہ بموں سے بچنے کی پناہ گاہ تھی جہاں پر اب دو سو سنی قیدی رکھے گئے تھے۔ ان کو بجلی کے جھٹکے اور پٹائی کی خوراک روزانہ دی جاتی تھی، کھانے کے لئے کبھی کبھار۔ یہ عراق کے وزیرِ داخلہ فلاح النقیب کے گھر سے اگلی گلی میں ہو رہا تھا۔
دونوں طرف لوگ صرف اس جرم میں قتل کئے جا رہے تھے کہ وہ غلط عقیدے سے تعلق رکھتے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زرقاوی کے بارے میں اہم معلومات زیرِتفتیش عراقی سے ملی۔ مبصر کو بم نصب کرنے کے الزام میں پکڑا گیا تھا۔ اعترافی بیان میں مبصر نے اہم معلومات دی تھی کہ زرقاوی باقاعدگی سے ملنے ایک امام شیخ عبدالرحمٰن سے ملتے ہیں۔ دونوں کی ہر آٹھ دس دن بعد ملاقات ہوتی ہے۔ ڈرون سے اب عبدالرحمٰن کے گھر کی نگرانی کی جانے لگی۔ دو ہفتے بعدشیخ عبدالرحمٰن کی سلور گاڑی کا پیچھا کرتے ہوئے دیکھا کہ خلافِ معمول یہ بغداد کی مین سڑک کی طرف چلی گئی اور سڑک کنارے رک گئی۔ چند منٹ بعد اس سے عبدالرحمٰن اترے اور ایک نیلے ٹرک میں بیٹھ گئے۔ ٹرک شمال کی طرف شہر کے باہر جانے لگا۔ آدھے گھنٹے بعد اس نے مشرق کی طرف موڑ کاٹا۔ اس کی منزل بعقوبہ تھی۔ شہر کے قریب پہنچ کر اس سفید پک اپ اس کا انتظار کر رہی تھی۔ عبدالرحمان اب اس میں سوار ہو گئے۔ شہر سے تین میل دور یہ ایک کچے راستے پر جانے لگی۔ کھجور کے درختوں کے گھنے سائے میں یہ ایک دو منزلہ گھر تھا۔ ڈرائیور کو گھر کے گارڈ نے اندر آنے دیا۔ اس وقت شام پانچ بجنے میں پانچ منٹ رہتے تھے۔ یہ سب سکرین پر دیکھا جا رہا تھا۔ تین سال سے زرقاوی کو تلاش کیا جا رہا تھا۔ کیا یہ وہ وقت تھا؟
مک کرسٹل کے ڈپٹی نے کہا، “مجھے معلوم نہیں کہ یہ زرقاوی ہیں یا نہیں لیکن جو بھی ہے، اہم لگتا ہے”۔ سب سکرین کو گھور رہے تھے۔ اس عمارت سے اب ایک مضبوط جسم والا شخص نکلا۔ مکمل سیاہ لباس اور عبدالرحمان کو اندر لے گیا۔ مک کرسٹل نے اس کی جسامت اور چال سے اندازہ لگایا، “یہی زرقاوی ہے”۔
ڈیلٹا فورس کے دستے یہاں سے چالیس میل دور تھے لیکن ہیلی کاپٹر تیار نہیں تھا۔ نشانہ کیسے بنایا جا سکتا ہے؟ اس کے لئے تلاش شروع ہوئی۔ ایک ایف سولہ طیارہ معمول کے گشت پر تھا۔ اس سے رابطہ ہو گیا۔ یہ پانچ منٹ میں یہاں پر پہنچ سکتا تھا۔ مک کرسٹل ابھی گومگو میں تھے کہ گھر کو نشانہ بنایا جائے یا نہیں۔ ان کی نظر میں زرقاوی کے ہونے کا امکان اسی سے نوے فیصد تھا۔ ڈپٹی نے کہا کہ “انتظار نہیں کیا جا سکتا۔ فیصلہ لینا ہو گا”۔ جنرل کا جواب آیا، “ٹھیک ہے”۔ چھ بجے کے قریب کا وقت تھا جب ایف سولہ کے پائلٹ کو حکم ملا، “بم گرا دو”۔
پہلے ایک اور اس سے سو سیکنڈ کے بعد دوسرا بم گرا۔ جب دھواں چھٹا تو گھر گر چکا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈیلٹا ٹیم ہیلی کاپٹر میں بیس منٹ بعد یہاں پہنچی۔ عراقی پولیس یہاں پہلے پہنچ چکی تھی۔ اس ملبے سے زرقاوی کو نکالا گیا۔ وہ شدید زخمی تھے لیکن ہوش میں تھے۔ سٹریچر پر لیٹے زرقاوی نے آنکھیں کھولیں تو امریکی فوجیوں کے چہرے ان کو دیکھ رہے تھے۔ یکایک چونک کر وہ کچھ بڑبڑائے اور سٹریچر سے اترنے کی کوشش کی۔ ان کو روک لیا گیا۔
اس شام سات بج کر چار منٹ پر زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے زرقاوی اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔ کھجوروں کے درختوں کے پیچھے سورج غروب ہو رہا تھا۔ اپنی زندگی میں اسلامی خلافت قائم کرنے کا انکا خواب ختم ہو گیا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زرقاوی کی موت کا اعلان اگلے روز کیا گیا۔ اردن کے دارالحکومت عمان میں اس خبر کا ری ایکشن فوراً آیا۔ لوگ سڑکوں پر جشن منانے نکل آئے۔ ان کے آبائی شہر زرقہ میں ایک مقامی گروپ ان کو شہید قرار دے کر ان کی یادگار کھڑی کرنا شروع ہو گئے۔ اس گروپ سے دوسروں کی ہونے والی جھڑپوں پر قابو پانے کیلئے پولیس کو مداخلت کرنا پڑی۔
عراق میں اس کا ردِعمل خاص نہیں آیا۔ بلاشبہ، زرقاوی ایک کرشماتی لیڈر تھے لیکن القاعدہ ایک شخص نہیں، ایک تنظیم تھی۔ اس کی کارروائیاں جاری رہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انبار صوبے کے کچھ علاقوں میں قبائلی اٹھ رہے تھے۔ انہوں نے ان جہادیوں کو دھمکیاں دینی شروع کر دی تھیں۔ ان کو چیلنج کرنے لگے تھے۔ اس سے کچھ عرصہ بعد ان جہادیوں کو شکست دینے والی تحریک سنی قبائل کی بیدارئ انبار شروع ہوئی جس نے انہیں گلیوں کوچوں سے ہٹا کر تہہ خانوں میں دھکیل دیا۔ ان تہہ خانوں سے نکلنے والی داعش کی پیدائش میں ابھی کچھ برس باقی تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ساتھ لگی تصویر میں اس گھر کا ملبہ نظر آ رہا ہے جہاں زرقاوی رہا کرتے تھے۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...