اس سیریز میں ہم نے انسانی فطرت اور تاریخ کا ایک دورہ کیا۔ اور یہ دورہ اخلاقی نفسیات کی نظر سے تھا۔ یہ ہم میں شامل وہ خفیہ جزو ہے جس سے سیاست، نظریات اور اس زمین پر ہمارے غلبے کو سمجھا جا سکتا ہے۔ اس ٹور میں بہت کچھ بہت مختصر بتایا گیا تھا۔ آخر میں ختم کرنے سے پہلے چند چیدہ نکات ایک مرتبہ پھر:
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اخلاقی نفسیات کا پہلا اصول ہے کہ وجدان کا کردار پہلا ہے، عقل کا دوسرا۔ اور عقلیت پسندی کا ماڈل اکیڈمکس میں بہت دیر تک حاوی رہا ہے لیکن اسے حقائق کی حمایت نہیں۔ یہ ایک سراب ہے۔
اس کا خلاصہ یہ ہے کہ خود کو اور دوسروں کو ایک بڑے ہاتھی پر سوار ایک چھوٹا مہاوت سمجھیں۔ اس طرح آپ دوسروں کی بات کو زیادہ صبر سے سن سکیں گے۔ جب خود کو ایک مضحکہ خیز آرگومنٹ دیتے پکڑ لیں گے تو پھر دوسروں کے نکتہ نظر کا احترام بھی آ جائے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ٹور کا دوسرا حصہ اخلاقی نفسیات کا دوسرا اصول ہے۔ اخلاقیات وسیع ہے۔ اس کی مشابہت ہماری زبان کے ذائقوں کے ریسپٹر سے ہے۔ اس کی بنیادی اقدار میں پرواہ، انصاف، وفاداری، اتھارٹی، تقدیس اور آزادی آتے ہیں۔ اور ان کے آپس میں (کئی بار تضادات والے) تعلق سے اخلاقی دسترخوان تیار ہوتا ہے۔
اس حصے کا خلاصہ یہ ہو گا کہ ان لوگوں سے خبردار رہیں جن کی نظر میں اخلاقیات صرف کسی ایک ہی پہلو میں ہے۔ انسانی معاشرے پیچیدہ ہیں۔ ان کی ضروریات اور چیلنج ایک نہیں۔ ایک وقت یا ایک علاقے کے حل دوسرے میں کام نہیں کرتے۔
اس کا یہ مطلب نہیں کہ اخلاقیات میں کھلا میدان ہے۔ ہر قسم کی اخلاقیات برابر ہے اور ان کا آپس میں موازنہ نہیں کیا جا سکتا۔ (یہ اخلاقی relativism جیسے بے کار خیالات ہیں)۔ ایسا نہیں کہ کسی کو مہربانی پسند ہے اور کسی کو عقوبت خانے۔ اور یہ دونوں برابر ہیں۔ لیکن اخلاقی تنوع کا تعلق معاشرتی حالات سے ہے۔
عیسیٰ برلن کہتے ہیں، “جس طرح کلچر اور مزاج یکساں نہیں، اس طرح اخلاقی آئیڈیل بھی یکساں نہیں ہو سکتے۔ لیکن یہ لامحدود نہیں”۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تیسرا اصول یہ ہے کہ اخلاقیات باندھتی بھی ہیں اور اندھا بھی کر دیتی ہیں۔ ہم دو الگ مزاج بیک وقت رکھتے ہیں۔ ہم خود غرض بھی ہیں اور گروہی رویہ بھی رکھتے ہیں۔ اور ہمیں بے غرض بنانے میں سب سے بڑا کردار ہمارے نظریات ادا کرتے ہیں۔
اس کا خلاصہ یہ کہ ہمیں ایک صدی سے بتایا جاتا رہا ہے کہ ہم خودغرض ہیں۔ ہم ٹی وی پر پروگرام دیکھتے ہیں جن میں ہمارا بدترین رویہ دکھایا جاتا ہے۔ ہماری خودغرضی پر سائنسی کتابیں لکھی جاتی ہیں۔ اخلاقی حالتِ زار پر نوحہ پڑھتی خبریں چلتی ہیں۔
لیکن یہ سچ نہیں۔ ایسا ضرور ہے کہ ہم اپنی زندگیوں کا بڑا حصہ خودغرض مفادات کا پیچھا کرتے گزار دیتے ہوں لیکن ہم یہ صلاحیت رکھتے ہیں کہ ذاتی مفاد کو پار کر جائیں اور بڑے کّل کا جزو بن جائیں۔ اور یہ صرف صلاحیت نہیں ہے، ہماری زندگی کے بہترین تجربات کا دروازہ ہے۔ ایسے اعمال کا جنہیں ہم خود کرنا چاہتے ہیں اور جو ہمارے لئے یادگار بن جاتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مانیش نے تیسری صدی میں دنیا کی وضاحت اس طرح سے کی تھی کہ یہ اچھائی اور برائی کی جنگ ہے۔ اور بچوں کی سادہ کہانیوں اور مقبول فلموں میں بھی ایسا ہی دکھایا جاتا ہے۔
نظریات اور سیاست لوگوں کو تقسیم کرتی ہے۔ یہ تقسیم تلخ ہے۔ لیکن یہ تقسیم اچھائی اور برائی کی نہیں۔
ہمارا ذہنی ڈیزائن اپنے گروہ کو نیک سمجھنے کا ہے۔ ہم intuition پر بھروسہ رکھنے والی مخلوق ہیں۔ ہم اپنے جذبات کو مقدم رکھتے ہیں اور عقل سے ان کا دفاع کرنے کی حکمتِ عملی بناتے ہیں۔ اور یہ اس بات کو مشکل کر دیتا ہے (لیکن ناممکن نہیں) کہ ہم ان لوگوں کے رابطہ کر سکیں جو الگ اخلاقی میٹرکس میں رہتے ہیں۔ اس کی دستیاب بنیاد تو ایک ہی ہے لیکن ان کی میٹرکس کی تعمیر الگ طریقے سے ہوئی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تو پھر اگلی مرتبہ ایک کوشش کر دیکھیں۔ اگر آپ کسی ایسے شخص کے ساتھ بیٹھے ہیں جس کی اخلاقی میٹرکس مختلف ہے تو تھوڑا صبر کریں۔ پہلے اپنے میں مشترک چیزوں کے نکات دریافت کر لیں۔ اس پر اعتبار قائم کرنے کا طریقہ ڈھونڈ لیں۔ اور پھر جب اخلاقیات پر بات ہو تو آغاز کسی چیز کی تعریف سے کریں یا مخلصانہ دلچسپی سے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہماری اخلاقی حس ہمیں اپنوں کے ساتھ جوڑتی ہے، دوسروں سے اندھا کرتی ہے ۔۔۔۔ لیکن یہی ہمیں دوسرے کے ساتھ ملا بھی سکتی ہے۔
اپنے اختلافات کو ساتھ لئے بھی ہم سب ساتھ چل سکتے ہیں۔
اور یہ ہماری اس انوکھی حِس کا معجزہ ہے۔ وہ غیرمعمولی انسانی صلاحیت ہے جس نے تہذیب کا بننا ممکن کیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ ہماری نوع میں انتہائی پیچیدہ اخلاقی نفسیات پائی جاتی ہے۔ صحیح اور غلط، نیک و بد۔۔۔ ہم اپنے ڈیزائن میں اخلاقیات کا جنون رکھتے ہیں۔ اور یہ جنون نارمل انسانی کنڈیشن ہے۔ یہ ہماری خامی نہیں بلکہ بنیادی خاصیت ہے۔ بنیادی طور پر ہم اخلاقی نوع ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
اس اہلیت کی وجہ سے ہم بڑی تعداد میں ایسے گروپ بنتے ہیں جن کو رشتہ داری یا جینیاتی ہم آہنگی کی گوند نہیں جوڑتی۔ اور ساتھ ہی ساتھ دوسری طرف، ہماری یہی خاصیت ان تعاون کرنے والے گروہوں کو ایک دوسرے سے تنازعے میں بھی رکھتی ہیں۔ اور کسی درجے کی کشیدگی ایک معاشرے کے صحت مند اور توانا رہنے کے لئے ضروری ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
اپنی ناپختہ عمر میں ہماری خواہش ہوتی ہے کہ عالمی امن ہو اور تمام دنیا کے لوگ مل جل کر رہیں۔ لیکن اس موضوع کی سمجھ کے بعد آپ جلد ہی جان لیتے ہیں کہ یہ ایک غلط خواہش ہے۔
قابلِ عمل یہ ہے کہ مقابلے کے نظریات ایک توازن میں رہیں۔ جوابدہی کا پلڑا کسی ایک طرف نہ جھک جائے۔ سماجی رسہ کشی کا کانٹے دار مقابلہ ہمیں آگے بڑھاتا رہے۔ اور ایسے لوگوں کی تعداد کم سے کم ہوتی جائے جو یہ یقین رکھتے ہوں کہ صرف وہی حق پر ہیں اور اپنے نظریے کے غلبے کے لئے کوئی بھی راستہ اور کوئی بھی طریقہ اپنانا ٹھیک ہے۔
یہ خواہش دیرپا عالمی امن و آشتی جیسی رومانوی تو نہیں لیکن ایسی ہے جسے حاصل کیا جا سکتا ہے۔
ختم شد
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...