معاشیات میں “سرمایہ” سے مراد ایسی شے کو لیا جاتا ہے جو کسی شخص یا ادارے کو سامان یا خدمات حاصل کرنا ممکن کرے۔ یہ معاشی سرمایہ ہو سکتا ہے (مثلاً، بینک میں پڑی رقم)، فزیکل سرمایہ ہو سکتا ہے (مثلاً، عمارت یا ساز و سامان)، یا انسانی سرمایہ ہو سکتا ہے (مثلاً، تربیت یافتہ ملازمین)۔ جس ادارے کے پاس سرمایہ زیادہ ہو گا، وہ کم سرمائے والے ادارے سے مقابلے میں آگے نکل جائے گا۔
اس کی ایک اور قسم سماجی سرمایہ ہے، جسے ماہرینِ معیشت نظرانداز کرتے رہے ہیں۔ یہ افراد کے درمیان کے روابط، ان کے ایک دوسرے پر اعتبار اور بھروسے کے تعلقات ہیں۔ جب باقی سب برابر ہو تو ایسا ادارہ جس میں سماجی سرمایہ زیادہ ہو، وہ کم متحد اور کم بھروسے والے اداروں سے آگے نکل جائے گا۔
سماجی سرمائے کی اس اصطلاح کے لئے ایک مثال نیویارک میں ہیرے کا کاروبار کرنے والے الٹرا آرتھوڈوکس یہودیوں کی دی جاتی ہے۔ یہ بہت مضبوط جڑا ہوا گروپ ہے جن کے لئے آپس میں کاروبار اور اعتماد کرنا بے حد آسان ہے۔ اگر کوئی ان کا مقابلہ کرنا چاہے تو سیکورٹی گارڈز اور وکلاء کا خرچ بہت آئے گا کیونکہ اس کاروبار میں فراڈ اور چوری آسان ہے۔ کٹر ہم مذہبوں کے اس گروہ کو ایسا خطرہ نہیں جس وجہ سے دوسرے ان کا مقابلہ نہیں کر پاتے۔
ہر کوئی سماجی سرمائے کو پسند کرتا ہے۔ لیکن ہم اپنا فوکس کمپنی سے ہٹا کر سکول، کمیونیٹی، کارپوریشن اور ملک تک لے جاتے ہیں۔ کسی بھی گروہ کے اچھے فنکشن کے لئے سماجی سرمایہ زیادہ ہونا بہت کارآمد ہے۔ لیکن یہ کیسے ہو سکتا ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لوگوں کو اچھا رویہ رکھنے، تعاون کرنے اور پھلنے پھولنے کے لئے بیرونی مسلط کردہ سٹرکچر اور پابندیوں کی ضرورت ہے۔ ان بیرونی پابندیوں میں مذہب، قوانین، ادارے، روایات، رواج، اقوام جیسے چیزیں آتی ہیں۔ اگر یہ نہ ہوں تو لوگ سماجی سرمایہ جلد ختم ہو سکتا ہے۔ اور اس وجہ سے کامیاب گروہ ان کے بارے میں فکر کرتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ اخلاقی کمیونیٹی کا معجزہ ہے کہ لوگ اپنے رشتہ داروں اور برادریوں تک محدود نہیں رہتے۔ بلکہ ان کے تعلقات ایک مکمل ماحول کا حصہ ہوتے ہیں اور یہ لوگوں کو زیادہ “نیک” بناتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کسی چھوٹے دیہات یا جزیرے پر آپ کو اپنی سائیکل یا گاڑی کو لاک لگانے کی ضرورت نہیں پڑتی لیکن اسی ملک کے بڑے شہر میں کئی بار لاک بھی کافی نہیں رہتے۔ چھوٹی، تنہا اور اخلاقی لحاظ سے یکسانیت والی جگہ ہونا سماجی سرمایہ بڑھا دیتا ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ چھوٹے دیہات رہنے کے لئے مجموعی طور پر اچھی جگہیں ہیں۔ بڑے شہروں کی گنجان آبادی اور تنوع کا مطلب یہ ہے کہ بہت سے لوگوں کے لئے یہ زیادہ دلچسپ اور تخلیقی جگہیں ہیں۔ اور یہی سودا ہے۔ (آپ کتنا اخلاقی سرمایہ قربان کر کے کچھ تنوع اور تخلیق کاری حاصل کرنا پسند کریں گے؟ یہ اس پر منحصر ہے کہ آپ کا ذہنی ڈائل کہاں پر ہے)۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اخلاقی سرمائے کو ہم ایسا وسیلہ کہہ سکتے ہیں جو اخلاقی کمیونیٹی برقرار رکھتا ہے۔
ایک کمیونیٹی کی اقدار ، خوبیاں، رواج، شناخت، ادارے اور ٹیکنالوجی کا جال ہے جو اس میں خودغرضی کو دباتا ہے اور تعاون ممکن کرتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اخلاقی کمیونیٹی ایک نازک شے ہے۔ اس کو بنانا مشکل ہے اور تباہ کر دینا آسان۔ جب ہم بہت بڑی کمونیٹی کی بات کرتے ہیں (جیسا کہ ممالک اور اقوام) تو یہ چیلنج بڑا ہے۔ اور اس کا شیرازہ بکھر جانے کا خطرہ زیادہ ہے۔ غلطی کا امکان کم ہے۔ بہت سے اقوام اخلاقی کمیونیٹی کے طور پر ناکام ہیں۔ خاص طور پر کرپٹ ممالک جہاں پر ڈکٹیٹر اور اشرافیہ ملک کو اپنے مفاد میں چلاتے ہیں۔ اگر اس سرمائے کی قدر نہ کی جائے تو اس کو بڑھانے والے اقدار، خوبیاں، شناخت اور ادارے پنپ نہیں پاتے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہاں پر ایک اور چیز کی وضاحت۔ لازمی نہیں کہ اخلاقی سرمایہ ہمیشہ اچھی چیز ہی ہے۔ یہ کئی قسم کی خوبیوں کو دبا سکتا ہے جس میں انصاف اور مساوات ہیں۔ زیادہ سرمایہ ایک کمیونیٹی کو اچھا چلانے میں مدد کرتا ہے لیکن یہ اپنے دائرے سے باہر دوسری کمیونیٹی کو نقصان پہنچانے کے لئے بھی استعمال ہو سکتا ہے۔ فاشزم اس کی مثال ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔
تاہم، اگر آپ ایک تنظیم یا معاشرے کو تبدیل کرنا چاہ رہے ہیں اور آپ اس تبدیلی کا اخلاقی سرمائے پر ہونے والا اثر نظرانداز کر جاتے ہیں تو بڑا مسئلہ ہے۔
یہ وجہ ہے کہ انقلاب عام طور پر معاشرے میں تباہی لاتے ہیں۔ کاغذ پر اچھی لگنے والے اصلاحات منفی نتائج کا سبب بنتی ہیں۔
اور یہ وجہ ہے کہ لبرل ازم، آزادی اور مساوات جیسے بڑے فوائد کے باوجود، حکمرانی کے فلسفے کے طور پر کافی نہیں۔ کیونکہ روایات کا احترام نہ کرنے اور انہیں برقرار نہ رکھنے کا مطلب اس سرمائے میں کمی ہے۔
ایسی سوسائٹی اپنی شکل کھو دے گی اور شکست و ریخت کا شکار ہو جائے گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور بالکل اسی طرح ہی، کنزوریٹو ازم، اپنے فوائد کے باوجود، اچھے معاشرے کے لئے کافی نہیں۔ یہ طاقتور مفادات پر حد لگانے میں ناکام رہتا ہے، کئی قسم کے مظلومین کو چھوڑ جاتا ہے اور وقت کے ساتھ تبدیلی کا ساتھ دینے میں ناکام رہتا ہے۔
ایسی سوسائٹی سفاک ہو جائے گی اور وقت کا ساتھ نہ دے سکے گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور یہ وجہ ہے کہ اچھے اور صحتمند معاشرے مخالف خیالات کی باہمی کشمکش میں رہتے ہیں۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...