آسٹریلیا میں سائنسدانوں نے 13000 افراد کے ڈی این اے کا تجزیہ کر کے کئی ایسے جین شناخت کئے جہاں پر لبرل اور کنزرویٹو میں فرق تھے۔ زیادہ تر کا تعلق نیوروٹرانسمٹر کے کام کرنے سے تھا۔ خاص طور پر گلوٹامیٹ اور سیروٹونن کے فنکشن سے۔ ان دونوں کا تعلق خطرے اور خوف کے وقت ردِ عمل سے ہوتا ہے۔ یہ تحقیق اس سے پہلے کی گئی سٹڈیز سے مطابق رکھتی تھی کہ کنزرویٹو خطرے میں زیادہ مضبوط ردِ عمل دکھاتے ہیں۔ اس میں گندگی اور جراثیم سے خطرہ بھی شامل ہے۔
کئی جین کا تعلق ڈوپامین سے ہے جو نئے تجربات کے لئے کھلا رکھتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگرچہ کسی ایک جین سے ہونا والا اثر بہت معمولی ہے لیکن یہ دریافت اس لئے اہم ہے کہ یہ جین سے سیاست تک ایک قسم کا راستہ بتاتی ہے۔ جین (ملکر) کچھ لوگوں کے دماغوں کو خطرات سے زیادہ چوکس رکھتی ہیں یا پھر نئے تجربات، تبدیلی اور انوکھی چیز سے ملنے والی خوشی کم یا زیادہ کرتی ہیں۔ یہ شخصیت کے دو اہم فیکٹر ہیں جو نظریات پر اثرانداز ہوتے ہیں۔
جان جوسٹ نے ایک اور اہم پیپر میں کچھ دوسری خاصیتوں کو بھی دریافت کیا لیکن ان سب کا تعلق خوف سے حساسیت سے تھا یا نئے تجربات کے بارے میں روئے سے تھا۔ مثال کے طور پر کنزرویٹو موت کے بارے میں یاد دہانی کا زیادہ اثر لیتے ہیں۔ یا لبرل تنظیم اور سٹرکچر کی ضرورت کم محسوس کرتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جین دماغ کی تشکیل کرتے ہیں۔ اور دماغ کا یہ سٹرکچر رویوں اور رجحانات کی وجہ بنتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شخصیت کہاں سے آتی ہے؟ اس کے لئے ہمیں شخصیت کی تین سطحوں کو الگ کرنا ہو گا۔ ڈان مک ایڈمز اس بارے میں تھیوری دیتے ہیں کہ سب سے نچلی سطح پر dispositional خاصیتیں ہیں۔ یہ بچپن سے لے کر بڑھاپے تک بڑی حد تک یکساں رہتی ہیں۔ اس میں خطرے سے حساسیت، نئی چیزوں کا شوق، لوگوں میں گھلنا ملنا اور احساسِ ذمہ داری جیسے خصائص ہیں۔ ایسا نہیں کہ یہ ذہنی ماڈیول ہیں جو کچھ لوگوں میں ہیں اور کچھ میں نہیں بلکہ اس کو دماغ کے سسٹم کے ڈائل پر ہونے والی adjustment سمجھا جا سکتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مستقبل میں لبرل اور کنزرویٹو بننے والے بچوں کی شخصیت میں ابتدا سے ہی فرق ہوتا ہے۔ لبرل زیادہ متجسس، بولنے والے اور خود انحصار ہوتے ہیں۔ اور ساتھ ہی زیادہ جارحانہ مزاج، ضدی، کم فرمانبردار اور صفائی نہ رکھنے والے بھی۔ یہ والی خاصیتیں سب سے نچلی سطح پر ہیں۔ دوسری سطح characteristic adaptations کی ہے۔ یہ عمر کے بڑھنے کے ساتھ ابھرتی ہیں۔ لوگ ان کو اپنے خاص ماحول اور زندگی کے چیلنج کے مطابق اختیار کر لیتے ہیں۔ یہ خصائص عمر کے ساتھ ان کے کردار کا حصہ بنتے جاتے ہیں۔
مک ایڈمز کے مطابق تیسری سطح “زندگی کا بیانیہ” ہے۔
انسانی ذہن کہانیوں کا پراسسر ہے، منطق کا پراسسر نہیں۔ ہر کوئی اچھی کہانی پسند کرتا ہے۔ ہر کلچر میں بچوں کو کہانیاں سنائی جاتی ہیں۔
اور ان میں سے سب سے اہم وہ کہانیاں ہیں جو ہم اپنے بارے میں سناتے ہیں۔
لازمی نہیں کہ یہ بیانیہ سچی کہانی ہو۔ یہ ماضی کا سادہ اور منتخب حصہ ہوتا ہے۔ اس سے اکثر مستقبل کا ایک وژن بنایا جاتا ہے۔ اگرچہ زندگی کا بیانیہ ایک حد تک واقعات کے بعد کی گئی خودساختہ تخلیق ہے لیکن یہ لوگوں کے رویوں، تعلقات اور ذہنی صحت پر اثرانداز ہوتا ہے۔
زندگی کا بیانیہ اخلاقیات سے بھرا ہوتا ہے۔ اور اس میں لبرل یا کنزرویٹو میں کوئی فرق نہیں۔ ہماری اپنے بارے میں کہانیوں کا پیٹرن ایک ہی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جب اپنے مذہبی عقائد اور اخلاقی یقین کا پوچھا جائے تو کنزرویٹو احترام، گروہی ہم آہنگی اور پاکیزگی کے گہرے احساس کا ذکر کرتے ہیں جبکہ لبرل انسانی مصائب اور سماجی انصاف کا۔
زندگی کا بیانیہ سیاسی شناخت کی ڈویلپمنٹ کا راستہ بھی ہے۔ مثال کے طور پر، کیتھ رچرڈز اپنی سوانح عمری میں زندگی کے اہم موڑ کا ذکر کرتے ہیں۔
رچرڈز Rolling Stones کے گروپ میں گٹار بجاتے تھے اور غیرروایتی باغی کے طور پر شہرت پائی تھی۔ وہ کہتے ہیں کہ کسی وقت میں وہ سکول میں “اچھے بچے” تھے اور سکول کے گانے کے گروپ کا حصہ تھے۔ ان کے گروپ نے کئی مقابلے جیتے تھے۔ گروپ کے ماسٹر نے سکول سے رچرڈز اور ان کے دوستوں کے بارے میں کلاس چھوڑنے کی اجازت لے لی تھی۔ تا کہ وہ بڑے مقابلوں میں شرکت کر سکیں۔ لیکن جب یہ لڑکے بڑے ہوئے اور ان کی آواز بدلی تو گروپ کے ماسٹر نے انہیں نکال دیا۔ اور اس کے بعد انہیں بتایا گیا کہ انہیں اپنا سال دہرانا پڑے گا کیونکہ انہوں نے کلاسیں پوری نہیں پڑھیں۔ گروپ ماسٹر نے ان کا دفاع کرنے کے لئے ایک لفظ بھی نہیں کہا۔
رچرڈ کہتے ہیں کہ “مجھے ایسا لگا جیسے میرے پیٹ پر گھونسا مارا گیا ہو”۔ اور اس سے ہونے والے اثر ان کے سیاسی رجحانات پر بھی ہوئے۔
“جب میرے ساتھ یہ ہوا تو میں غصے میں پاگل ہو گیا۔ میرے میں انتقام لینے کی شدید خواہش پیدا ہو گئی۔ میں پورے ملک کو تباہ کرنا چاہتا تھا۔ میں نے اگلے تین سال ایسا ہی کیا۔ اگر باغی بناوٗ گے تو باغی ہی ملے گا۔ یہ آگ ابھی تک نہیٰں بجھی۔ میں نے اب دنیا کو اپنے طریقے سے دیکھنا شروع کیا۔ ویسے نہیں جیسے مجھے دکھایا جا رہا تھا۔ مجھے احساس ہوا کہ بدمعاشوں سے بھی بڑے بدمعاش ہوتے ہیں۔ اور یہ بدمعاش “وہ” ہیں۔ یہ سارا نظام، یہ اتھارٹی۔ یہ اس قابل نہیں کہ ان پر بھروسہ کیا جائے۔ ان کی بات مانی جائے۔ میرے میں آگ کا شعلہ بھڑک گیا تھا”۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رچرڈ کی شخصیت ایسی ہو گی کہ وہ سرکش (non-conformist) بنیں لیکن یہ طے شدہ نہیں تھا۔ اگر ان کے اساتذہ نے ان کے ساتھ سلوک مختلف کیا ہوتا یا پھر انہوں نے زندگی کا بیانیہ کچھ مختلف بنایا ہوگتا تو شاید وہ روایتی ملازمت کر رہے ہوتے۔ اور اپنے ساتھیوں کے اخلاقی میٹرکس کا حصہ ہوتے۔ لیکن ایک مرتبہ انہوں نے بیانیہ بنا لیا کہ وہ ظالم سماج کے خلاف جہاد کر رہے ہیں تو پھر ان کی زندگی کا راستہ طے ہو گیا۔ ان کی زندگی کی بیانیہ ان کے سیاسی خیالات سے ہم آہنگ ہو گیا۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...