نظریے کی ایک سادہ تعریف ایسے کی جاتی ہے کہ “معاشرے کے درست نظام اور اسے حاصل کرنے کے بارے میں آراء اور یقین کا ایک بنڈل”۔ اور اس میں ایک سب سے بنیادی سوال آتا ہے۔ کیا موجودہ نظام برقرار رکھا جائے یا اسے بدل دیا جائے؟
فرانس کی 1789 کی اسمبلی میں جو ممبران برقرار رکھنے کے حق میں تھے، وہ دائیں طرف بیٹھے اور جو بدل دینے کے حق میں تھے، وہ بائیں طرف۔ اس وقت سے لے کر آج تک سیاست میں دائیں بازو کی اصطلاح کنزرویٹو ازم اور بائیں بازو کی اصطلاح لبرل ازم کے لئے استعمال ہوتی آئی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مارکس کے بعد بہت سے سیاسی تھیورسٹ یہ مفروضہ لیتے رہے کہ انسان اپنے نظریات کا انتخاب ذاتی مفاد کی بنا پر کرتے ہیں۔ طاقتور اور امیر لوگ نظام برقرار رکھنے کے حق میں ہوتے ہیں۔ جبکہ مزدور اور کسان تبدیل کرنے کے حق میں (مارکسسٹ نظریات کے مطابق، اگر ان کا شعور بیدار کر دیا جائے تو وہ اپنا ذاتی مفاد پہچان لیں گے)۔
لیکن آج کی دنیا میں طبقاتی تقسیم نظریاتی تقسیم سے کوئی خاص مطابقت نہیں رکھتی۔ امیر لوگوں میں دونوں طرف کے خیالات ہیں (زیادہ تر ٹیکنالوجی کے ارب پتی بائیں بازو کے خیالات رکھتے ہیں)۔ اور غریب لوگوں میں بھی۔ اور جب سیاسی سائنس نے اس کو زیادہ تفصیل سے کنگھالا تو معلوم ہوا کہ ذاتی مفاد سیاسی رویے کی پیشگوئی کرنے میں ناکام رہتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بیسویں صدی میں ستر اور اسی کی دہائی کے بعد سیاسی سائنسدانوں نے “کورے کاغذ” کی تھیوری قبول کر لی۔ اس کے مطابق، انسان کو نظریات کی پٹی اس کے والدین اور معاشرہ پڑھا دیتے ہیں یا پھر ٹی وی پروگراموں سے جذب ہو جاتی ہے۔ اور انسان تمام عمر ان کا اسیر رہتا ہے۔ جبکہ کچھ دوسروں نے یہ مفروضہ لیا کہ انسان ایسے ایشوز پر اتنا کنفیوز رہتا ہے کہ لوگ کوئی خاص نظریات رکھتے ہی نہیں ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
لیکن پھر 1980 کی دہائی میں جڑواں کی سٹڈی آنا شروع ہوئیں۔ سائنسدانوں نے آئیڈینٹیکل جڑواں کی بڑی ڈیٹابیس کنگھالنا شروع کی (ان کے تمام جین ایک ہی ہوتے ہیں) اور ان کا موازنہ فریٹرنل جڑواں سے کرنا شروع کیا (ان کے نصف جین ایک جیسے ہوتے ہیں)۔ دونوں میں پیدائش سے پہلے اور پھر بچپن کا ماحول بھی یکساں ہوتا ہے۔
اگر معاشرتی تربیت کا خیال درست ہوتا تو ان دونوں مختلف طرح کے جڑواں میں کوئی فرق نہیں ملنا چاہیے تھا لیکن معلوم ہوا کہ آئیڈنٹیکل جڑواں ہر چیز میں ایک سے ہوتے ہیں۔
اور اس سے بڑھ کر یہ کہ ایسے جڑواں جن کی پرورش الگ گھرانوں میں ہوئی ہو، وہ بھی ایک جیسے نکلتے ہیں۔ جین ہماری شخصیت کے ہر پہلو پر اثرانداز ہوتے ہیں۔
یہاں صرف ذہانت، ذہنی عارضوں یا شرمیلا ہونے جیسی خاصیتوں کی بات ہی نہیں۔ بلکہ یہ بھی کہ موسیقی، مرچوں والے کھانے اور تجریدی آرٹ میں پسند بھی شامل ہے۔ اس بات کا امکان کہ طلاق ہو گی یا نہیں، مذہب کی طرف رجحان کتنا ہے اور سیاسی رجحان کس سمت ہے۔ ان میں بھی جین کا بڑا ہاتھ ہے۔ جینیات سیاسی پسند میں چالیس سے پچاس فیصد کے فرق کی وضاحت کر دیتی ہیں۔ کس طرح کے گھرانے میں پرورش ہوئی؟ اس کا کردار مقابلتاً کم ہے۔
یہاں پر سوال یہ کہ ایسا کیسے ہو سکتا ہے؟ کیا سوشل میڈیا، ٹیکس اور بیرونی قرضوں کے بارے میں رویوں کا تعلق جین سے ہے؟ یہ ایشو تو صرف پچھلے ایک آدھ صدی کی ہی ہیں۔ اور نظریات کی اساس جینیاتی کیسے ہو سکتی ہے؟ لوگ تو اپنی سیاسی وابستگی بلوغت میں بھی بدل لیتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ان سوالات کا جواب دینے کے لئے ہمیں واپس جبلت کی تعریف کو دیکھنا ہو گا۔ جبلی ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ کوئی چیز تبدیل نہیں ہو سکتی۔ جین دماغ کی تعمیر کے لئے راہنمائی کرتی ہیں لیکن یہ پہلا خاکہ تعمیر کر دیتی ہیں۔ بچپن کے تجربات اس خاکے کو مزید رنگ دیتے ہیں۔
نظریات کی شروعات کو سمجھنے کے لئے ڈویلپمنٹ کو پوری طرح دیکھنا ہوتا ہے۔ ابتدا جین سے ہوتی ہے۔ اور اختتام کسی شخص کا ایک خاص پارٹی کو ووٹ دینے سے یا پھر ایک سیاسی احتجاج میں شرکت کرنے سے ہوتا ہے۔ اور اس کے درمیان میں تین مراحل ہیں۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...