ستر کی دہائی کو “فرد کی دہائی” کہا جاتا ہے۔ انفرادیت پسندی کا عروج اس وقت میں آیا۔ سماجی سائنس میں ہونے والی تبدیلیاں بھی اسی کے ساتھ ہی۔ مثال کے طور پر، سماجی نفسیات میں fairness کے لئے کی جانی والی وضاحت (equity theory) چار بنیادوں پر تھی۔ اور ان میں سے پہلا یہ تھا کہ انسان Homo economicus ہے۔ (یعنی اپنا ذاتی مفاد زیادہ سے زیادہ کرنا چاہتا ہے) اس کے ایک مصنف کے مطابق، “کسی بہت جھگڑالو سائنسدان کے لئے بھی ہماری اس پہلے تجویز کو چیلنج کرنا بڑا مشکل ہو گا۔ بہت سے الگ شعبوں کی تھیوریاں اس مفروضے پر ہے کہ انسان خودغرض ہے”۔ بظاہر تعاون، ایثار اور سادہ انصاف کے اعمال کی وضاحت بالآخر اپنے مفاد کی حفاظت کے طور پر ہی کرنا پڑے گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ظاہر ہے کہ اصل زندگی ایسی چیزوں سے بھری پڑی ہے جہاں پر اس تجویز کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔ لوگ ایسے ریسٹورنٹ میں بھی ٹِپ چھوڑ کر جاتے ہیں جہاں انہوں نے کبھی دوبارہ نہیں آنا۔ کئی بار وہ دریا میں چھلانگ لگا دیتے ہیں تا کہ ایسے بچے کو ڈوبنے سے بچایا جا سکے جن سے ان کا کوئی واسطہ نہیں۔ نامعلوم رہ کر خیرات دیتے ہیں۔ کیا اس کی وضاحت کی جا سکتی ہے؟
“کوئی مسئلہ نہیں”۔ قنوطیوں کی طرف سے جواب تھا۔ یہ صرف ہمارے قدیم ذہنی نظاموں کی ہونے والی غلط فائرنگ ہے۔ یہ سسٹم اس وقت ڈیزائن ہوئے تھے جب لوگ چھوٹے گروہوں میں رہتے تھے جہاں ہر کوئی رشتہ دار تھا۔ اب جبکہ ہم بڑے معاشروں میں اجنبیوں کے ساتھ رہتے ہیں، یہ قدیم خودغرض سسٹم ہم سے ان اجنبیوں کی مدد بھی کروا بیٹھتے ہیں جن سے واپس ملنے کا امکان نہیں۔ ہماری “اخلاقی صفات” ہمارے ڈیزائن کا جزو نہیں بلکہ ایک بائی پراڈکٹ ہے۔
ولیمز کے مطابق “اخلاقیات ایک حادثاتی صفت ہے۔ حیاتیاتی پراسس اندھے اور بے وقوف ہوتے ہیں۔ ان سے ایسی صفت نکلنا ان کی غلطی کی نشاندہی ہے”۔ ڈاکنز بھی ایسے ہی خیال کا اظہار کرتے ہیں۔ “ہم خودغرض پیدا ہوتے ہیں۔ اس لئے سخاوت اور ایثار سکھانا چاہیے”۔
لیکن یہ نکتہ نظر ٹھیک نہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جس طرح زرافہ اپنی گردن کی لمبائی کی وجہ سے منفرد ہے۔ ویسے جانداروں کی دنیا میں انسان ایثار کے زرافے ہیں۔ فطرت میں یکتا اور منفرد، جو کہ وقت پڑھنے پر بے لوث ہو سکتے ہیں اور شہد کی مکھیوں جیسی ٹیم سپرٹ کا مظاہرہ کر سکتے ہیں۔
اگر اخلاقیات میں آپ کا آئیڈیل کوئی ایسا شخص ہے جس کی زندگی کا مقصد ہی اجنبیوں کی مدد کرنا ہے تو ایسے لوگ تو نایاب ہیں۔ لیکن اگر آپ لوگوں کے گروہی رویے پر توجہ رکھیں ۔۔۔ ایسے لوگ جو مشترک مقاصد اور اقدار رکھتے ہیں، ایک دوسرے سے واقفیت رکھتے ہیں ۔۔۔ اور پھر ان کی صلاحیت دیکھیں کہ وہ کیسے اکٹھے ملکر کام کرتے ہیں، محنت تقسیم کرتے ہیں، ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں اور ایک یکجا ٹیم کے طور پر کام کرتے ہیں کہ ہم اس کو نوٹ بھی نہیں کرتے۔ آپ کبھی ایسی “خبر” نہیں دیکھیں گے کہ “کالج کے چالیس طلباء، جو ایک دوسرے کے رشتہ دار نہیں تھے، ملکر ایک سٹیج ڈرامہ کر رہے ہیں۔ انہیں اس کا کوئی معاوضہ بھی نہیں مل رہا”۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انسانی گروہ ہرنوں کے گروہوں کی طرح کام نہیں کرتے۔یہ محض افراد کے اکٹھ نہیں۔ اگر ایک معاشرے میں لوگ خود کو تعاون کرنے والے گروہوں میں منظم کرتے ہیں جہاں محنت کی تقسیم طے کر لی جائے، تو پھر یہ صلاحیت گروہی سطح کا ڈیزائن ہے۔ اس کی توجیہہ کسی بھی طرح فرد کی سطح پر نہیں کی جا سکتی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہائیٹ بتاتے ہیں کہ “یہ چیز گیارہ ستمبر کے بعد میرے رویے کی وضاحت کرتی ہے۔ اس نے میرے گروہی سوئچ آن کر دئے۔ میرا جھنڈا لگانے، خون دینے، خیرات دینے کے کام ٹیم پلئیر کے طور پر تھے۔
اور میرا ردِ عمل تو بس منحنی سا تھا۔ اس کے مقابلہ میں سینکڑوں دوسرے لوگ تھے جو اسی وقت اپنی گاڑیوں میں بیٹھے طویل فاصلہ طے کر کے اس مقام پر پہنچ رہے تھے جہاں پر وہ ملبے میں سے بچ جانے والوں کو نکال سکیں۔
کیا یہ سب کسی ذاتی خود غرض مفاد کے لئے تھا؟
نہیں، خودغرضی ہماری نوع کے رویوں کی وضاحت نہیں کرتی۔”
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مصیبت کے وقت جھنڈے تلے اکٹھے ہو جانا (rally-round-the-flag) گروہی مکینزم کی ایک مثال ہے۔ اس کی وضاحت کے لئے ہمیں گروہ کی سطح تک جانا پڑتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گروہی سلیکشن ایک ایسا آئیڈیا ہے جس کی سائنسدانوں میں قبولیت اب بڑھ چکی ہے لیکن ابھی تک تمام ارتقائی ماہرین اس پر متفق نہیں ہو سکے۔ (کئی سائنسدان ابھی بھی گروہی رویوں کی وضاحت kin selection سے کرنے کی کوشش کرتے ہیں)۔ لیکن چونکہ ہمارا موضوع محض اخلاقی نفسیات ہے تو ہم ان ماہرین کو یہیں چھوڑ کر ابھی آگے بڑھتے ہیں اور اپنی توجہ انسان کی نفسیات پر مبذول کرتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گروہ پسندی کی منفی سائیڈ ہمیں جنگ و جدل، نسلی تعصب اور قبائلی عصبیت جیسی بدصورت چیزوں میں نظر آتی ہے۔ لیکن گروہ پسندی ہی وہ چیز ہے جو ہمیں خودغرضی سے آگے بڑھاتی ہے۔ یہ وہ جادوئی جزو ہے جس نے اور انسانوں کا زمین پر ہزاروں سال سے پرامن قیام ممکن کیا ہے۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...