ایک نوجوان بائیولوجسٹ جارج ولیمز 1955 میں دیمک کے ماہر کا لیکچر سن رہے تھے۔ لیکچر دینے والے کا دعویٰ تھا کہ دیمک کی طرح ہی کئی جانور ایک دوسرے سے تعاون کرتے ہیں اور مددگار ہوتے ہیں۔ بڑھاپا اور موت وہ طریقے ہیں جن سے نیچر نوجوان اور زیادہ فِٹ ممبران کے لئے جگہ بناتی ہے۔ لیکن ولیمز جینیات اور ارتقا کا اچھا علم رکھتے تھے۔ انہیں خوبصورت لگنے والے بے بنیاد دعوے پسند نہیں تھے۔ انہیں علم تھا کہ جانور اس لئے نہیں مرتے کہ دوسروں کو فائدہ پہنچا سکیں۔ دیمک ایک خاص کیس ہے جس میں تمام دیمک بہنیں ہوتی ہیں۔ وہ بائیولوجی کو ایسی کمزور سوچ سے نجات دلانا چاہتے تھے۔
ان کی لکھی کتاب 1966 میں شائع ہوئی۔ ان کی نظر میں نیچرل سلیکشن ایک ڈیزائن کا عمل تھا۔ اور اسے بیان کرنے کے لئے ڈیزائن کی زبان ہی کارآمد تھی۔ مثال کے طور پر، پروں کو صرف ایسے حیاتیاتی مکینزم کے طور پر سمجھا جا سکتا ہے جن کا ڈیزائن اڑنے کے لئے ہے۔کسی ایک سطح پر ہونے والے ایڈاپٹیشن کا ہمیشہ مطلب اسی سطح پر ہونے والا سلیکشن کا یا ڈیزائن کا عمل ہے۔ اور انہوں نے پڑھنے والوں کو خبردار کیا کہ اس سے بالا لیول (مثلاً گروہ) کی طرف نہیں دیکھنا چاہیے جب نچلے لیول (مثلاً فرد) سے کسی خاصیت کی مکمل وضاحت ہو سکے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ان کی دی گئی مثال “ہرن کی رفتار” کی تھی۔ جب ہرن ایک ریوڑ میں بھاگتے ہیں تو ہمیں ان کا تیزرفتار بھاگتا ہوا ریوڑ نظر آتا ہے۔ ایسا کہہ دینا پرکشش لگتا ہے کہ “پچھلے کئی ملین سال میں جو ریوڑ زیادہ تیز تھے، وہ سست رفتار ریوڑوں کے مقابلے میں شکار ہونے سے بچ گئے”۔ لیکن ولیمز نے یہاں پر نشاندہی کی کہ ہرن ایک “فرد” کے طور پر شکاری سے بھاگنے سے ڈیزائن ہوا ہے۔ سلیکشن کا عمل فرد کی سطح پر ہے، نہ کہ گروپ کی سطح پر۔ سست رفتار ہرن کھایا جاتا ہے جبکہ اسی ریوڑ کا تیزرفتار بچ جاتا ہے۔ ہمیں ہرن کی رفتار کی وضاحت کرنے کے لئے گروپ تک جانے کی کوئی ضرورت نہیں۔ ہرنوں کا تیزرفتار ریوڑ صرف تیزرفتار ہرنوں کا ریوڑ ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ولیمز کی مثال یہ دکھاتی تھی کہ گروہی سطح پر تجزیہ کرنے کے لئے ہمیں کس چیز کی ضرورت ہے۔ رویوں کے ایسے مکینزم جن کا مقصد یا فنکشن فرد کی نہیں بلکہ گروہ کی حفاظت ہو۔ صرف انہی کے لئے گروپ سلیکشن کے ڈیزائن تک جانے کی تک بنتی ہے۔
اگر ہرن عقلمند اور باشعور ہوتے، ایسی حکمتِ عملی بناتے جس میں سب سے تیزرفتار ہرن شکاری کو اپنے پیچھے لگا کر باقی گروپ سے الگ کر دیتے تو پھر ہمارے پاس ایسے شواہد ہوتے جس کے لئے گروپ سلیکشن کی وضاحت کی طرف جانا پڑتا۔
ولیمز نے اپنی کتاب میں کہا کہ گروپ سلیکشن ممکن تو ہے لیکن ان کی تمام کتاب اس تھیسس پر تھی کہ جانداروں میں گروپ کی سطح کا ڈیزائن موجود نہیں۔ حیوانات سے انہوں نے مثالیں لے کر واضح کیا کہ ایک نوآموز سائنسدان کو جو چیز ایثار یا قربانی لگتی ہے (جیسا کہ دیمک کے ماہر کو)، یا تو وہ بالآخر خودغرضی ہے یا پھر رشتہ داری کا چناوٗ (kin selection) جس میں مہنگے اعمال اپنے سے قریب ترین جین کی حفاظت کر کے جین کو فائدہ پہنچاتے ہیں۔ جیسا کہ دیمک میں۔
اور پھر رچرڈ ڈاکنز نے مشہور کتاب Selfish Gene کے نام سے 1976 میں لکھی، جس میں یہی موضوع اور دلائل زیادہ عام فہم طریقے سے بتاے گئے تھے۔ 1970 کی دہائی کے آخر تک یہ اتفاقِ رائے پیدا ہو چکا تھا کہ اگر کوئی بھی ایسی بات کرتا ہے کہ کوئی رویہ “گروہ کی بھلائی کے لئے” ہے تو وہ کم عقل ہے اور اس کی رائے کو نظرانداز کر دینا چاہیے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اکیسویں صدی کی ابتدا تک یہ خیالات سائنس میں غالب رہے، جن کی سماجی وجوہات بھی تھیں۔ خودغرض جین کے یہ خیالات بہت سی چیزوں کے بارے میں اچھی بصیرت دیتے تھے۔ لیکن ان کے ساتھ ہی ایک کمزوری بھی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جب ولیمز نے ہرنوں کی رفتار کی مثال دی تھی تو یہی مثال اس کو واضح کر دیتی ہے کہ انسانی گروہ ہرنوں کے گروہوں کی طرح کام نہیں کرتے۔ اگر ایک معاشرے میں لوگ خود کو تعاون کرنے والے گروہوں میں منظم کرتے ہیں جہاں محنت کی تقسیم طے کر لی جائے، تو پھر یہ صلاحیت گروہی سطح کا ڈیزائن ہے۔ اس کی توجیہہ کسی بھی طرح فرد کی سطح پر نہیں کی جا سکتی۔