ہمیں اپنی تمام عمر دو مخالف محرکات کا سامنا رہتا ہے جس کا توازن رکھنا ہے۔ نئے کی کشش (neophilia) اور نئے کا خوف (neophobia)۔ اور ہر کسی کے لئے ان دونوں محرکات کا زور یکساں نہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لبرل نیوفیلیا میں زیادہ سکور کرتے ہیں۔ یہ نئے لوگوں، خیالات، موسیقی، خوراک سبھی کے بارے میں ہے۔ جبکہ کنزریٹو آزمائے ہوئے کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں۔ یہ سرحدوں، حدود اور روایات پر بھی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نیوفیلیا اور نیوفوبیا کا یہ مخمصہ دیکھنے کے لئے ہم خوراک کو دیکھ سکتے ہیں۔ زیادہ تر حیوان پیدائشی طور پر جانتے ہیں کہ انہوں نے کیا کھانا ہے۔ ایک koala bear کے حسیاتی نظام کا پروگرام اسے یوکلپٹس کے پتے کھانے کی طرف راہنمائی کرتا ہے۔ جبکہ انسان کو یہ بات سیکھنی ہے کہ کیا کھایا جائے۔ ہماری خوراک کا مینو وسیع ہے۔ ہم omnivore ہیں۔ اور یہ ہونا ایک موقع بھی ہے اور ایک مسئلہ بھی۔
اس سے ہونا والا بڑا فائدہ یہ ہے کہ خوراک کے بارے میں ہم لچکدار ہیں۔ ہم مہم جو نوع ہیں۔ نئی جگہ اور نئے برِ اعظم میں چلے جاتے ہیں اور یہ اعتماد ہوتا ہے کہ کھانے کو کچھ مل جائے گا۔ لیکن اس کا ایک نقصان ہے۔ یہ نئی خوراک زہریلی بھی ہو سکتی ہے۔ بیمار کر سکتی ہے۔ آزمائے ہونے کے ساتھ رہنے کا فائدہ بھی ہے۔ کیسے نیا ڈھونڈا جائے اور ساتھ ہی محفوظ رہا جائے۔ یہ اس بارے میں توازن کا مخمصہ ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کراہت کا جذبہ اس میں راہنمائی کرتا ہے۔ اور صرف خوراک میں ہی نہیں۔ ہم ایک دوسرے سے بیماری پکڑ سکتے ہیں۔ جراثیم کا نشانہ بن سکتے ہیں۔ ایسی چیزوں سے کراہت جو ہمیں نقصان پہنچا سکیں ۔۔ یہ ہمارے رویے کا امیون سسٹم ہے۔ دوسرے میں بیماری اور انفیکشن کو دیکھ کر اس سے دور رہنا حفاظت کرتا ہے۔ کھانے والی چیز کو دھونا، گندگی سے بچنا ہمارے جسمانی دفاع کے لئے سب سے کارگر طریقہ ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ناگوار بو، منظر اور دوسرے احساس ہمیں خطرناک اشیا اور لوگوں سے بچاتے ہیں۔ لاش، فضلہ، پھوڑے ۔۔۔ خطرناک جراثیم سے بچنا بدیہی مائیکروبائیولوجی ہے۔
صفائی، پاکی، تقدس کی اخلاقی بنیاد کے اصل ٹرگر یہاں سے ہیں لیکن اس کے موجودہ ٹرگر غیرمعمولی طور پر وسیع ہیں۔ اور مختلف زمانوں اور کلچرز میں ان میں تنوع رہا ہے۔
مختلف کلچرز اپنے سے باہر والے لوگوں سے رویے کے حوالے سے مختلف ہیں۔ اور اس بارے میں شواہد موجود ہیں کہ جن جگہوں اور وقتوں میں بیماریوں کا خطرہ کم ہے، وہاں پر باہر سے آنے والوں کے لئے رویہ زیادہ کھلے دل والا رہا ہے۔ وبائیں اور نئی بیماریاں عام طور پر باہر سے آنے والے لاتے ہیں۔ اور اس کے علاوہ نئے خیالات، سامان اور ٹیکنالوجی بھی۔ معاشروں کو بھی ویسے ہی مخمصے کا سامنا ہے۔ یہ xenophilia اور xenophobia کا توازن ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اتھارٹی کی اخلاقی بنیاد کی طرح تقدیس کی بنیاد ابتدا میں کمزور لگتی ہے۔ کیا یہ صرف بیماریوں سے بچانے کے لئے ہے؟ کیا اس کی وجہ سے ہونے والا ردِ عمل تعصب پیدا نہیں کرتا؟ اور اب، جبکہ ہمارے پاس اینٹی بائیوٹک ہیں، ہمیں اس بنیاد کو مسترد نہیں کر دینا چاہیے؟
بالکل بھی نہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ بنیاد کچھ اشیا کو “نہ چھونے والا” بناتی ہے۔ ان کی بری خاصیت کی وجہ سے (یہ شے اتنی گندی اور آلودہ ہے کہ اس سے دور رہا جائے)۔ یا ان کی اچھی خاصیت کی وجہ سے (یہ شے اس قدر مقدس ہے کہ اس کی بے حرمتی نہیں کی جا سکتی)۔
اگر ہمارے پاس ناگواری کا احساس نہ ہو تو غالباً ہمارے پاس مقدس کا احساس بھی نہیں ہو گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگر میری طرح آپ بھی یہ سمجھتے ہیں کہ علمِ انسان کا سب سے بڑا غیرحل شدہ اور پرسرار معمہ یہ ہے کہ آخر یہ کیسے ممکن ہوا کہ انسان بڑے پیمانے پر تہذیبیں بنانے کے قابل ہوئے؛ تو پھر آپ کو تقدس کی نفسیات میں خاص دلچسپی لینا ہو گی۔
آخر یہ کیا وجہ ہے کہ لوگ اشیاء کو(جھنڈے، مذہبی علامات)، جگہوں (عبادت گاہ، آپ کی قوم کی پیدائش سے تعلق رکھنے والا جنگ کا میدان)، لوگوں کو (مذہبی و نظریاتی راہنما، قومی ہیرو) اور اصولوں کو (آزادی، برابری، بھائی چارہ) کسی بھی دوسری چیز سے بڑھ کر قدر دیتے ہیں؟
اس کی شروعات جو بھی ہوں، تقدیس کی نفسیات افراد کو اخلاقی کمیونیٹی میں باندھتی ہیں۔ اور یہ وجہ ہے کہ کسی بھی کمیونیٹی میں جب کوئی اس کے مقدس ستون کی بے حرمتی کرے تو اس پر ہونے والا ردِ عمل جلد، جذباتی، اجتماعی اور سخت ہوتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس پسِ منظر کے ساتھ ہم جرمنی کے آدم خوری کے واقعے کی طرف واپس چلتے ہیں۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...