(مندرجہ ذیل جوناتھن ہائیٹ کی تحریر ہے)
ایک بڑا گہرا خیال جو دنیا میں اور مختلف زمانوں میں ابھرا ہے، وہ یہ ہے کہ ہمارا دنیا کا experience ایک سراب ہے، جیسے کوئی خواب ہو۔ یہ خیال مختلف مذاہب اور فلسفے میں بھی نظر آئے گا اور سائنس فکشن میں عام رہا ہے۔ ولیم گبسن نے 1984 میں ناول لکھا تھا جس میں استعمال کی گئی اصطلاح matrix تھی۔ جب اربوں کمپیوٹر جوڑ دئے جائیں اور لوگ اپنی رضامندی سے سراب کا شکار ہو جائیں۔
گبسن کے اس خیال سے فلم The Matrix بنی ۔ اس فلم کے ایک مشہور منظر میں فلم کے ہیرو، نیو، کو ایک انتخاب دیا جاتا ہے۔ یا تو سرخ گولی نگل لے جس کے بعد وہ میٹرکس سے باہر نکل آئے گا۔ اس کا سراب ختم ہو جائے گا۔ یا پھر نیلی گولی نگل لے اور پھر وہ بھول جائے گا کہ اسے کبھی ایسا انتخاب دیا گیا تھا۔ اور وہ اس خوشگوار سراب میں واپس چلا جائے گا جس میں باقی تمام لوگوں کے شعوری وجود بھی اپنا وقت گزار رہے ہیں۔ نیو سرخ گولی کا انتخاب کرتا ہے اور میٹرکس غائب ہو جاتی ہے۔
اگرچہ میرے لئے یہ اتنا ڈرامائی نہیں تھا لیکن شویڈر کی کتابیں میرے لئے سرخ گولی ہی تھیں۔ مجھے اس کے بعد نظر آنا شروع ہوا کہ ہر قوم میں کئی اخلاقی میٹرکس ساتھ رہتی ہیں۔ ہر میٹرکس خود میں ایک مکمل، مربوط اور پرکشش ورلڈویو دیتی ہے۔ اپنی میٹرکس کا آسانی سے دفاع کیا جا سکتا ہے اور باہر والوں کے حملے اس اخلاقی میٹرکس پر کچھ اثر نہیں کرتے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میری اخلاقی میٹرکس کی تعمیر میرے خاندان، قومیت اور پھر یونیورسٹی نے کی تھی۔ بائیں بازو کے پختہ خیالات کی وجہ سے میں ڈیموکریٹ پارٹی کا پکا حامی تھا۔ مخالف پارٹی کے صدر رونالڈ ریگن پر ہماری کلاس میں مذاق اور تنقیدی تبصرے ہوتے تھے۔ اس ماحول میں لبرل ہونا “نیکی” تھی۔
اور ہمارے نظریے کی نیکی اس قدر واضح تھی۔ ہم امن کے مارچ کرتے تھے۔ مزدوروں کے حقوق، سول رائٹس، ماحولیات کی حفاظت کے لئے کام کرتے تھے۔ ہم اچھے لوگ تھے۔
ہمارے مخالف (ری پبلکن پارٹی) جنگجو تھے، بڑے بزنس کی حمایت میں تھے، نسل پرست تھے، بنیاد پرست مذہبی تھے۔ میں اس بات کا تصور بھی نہیں کر سکتا تھا کہ آخر کیوں کوئی بھی عقل و شعور والا شخص اس قدر evil پارٹی کا حامی ہو سکتا ہے۔ ہم نفسیات پڑھ رہے تھے اور نفسیاتی وجوہات کی تلاش میں رہتے تھے کہ آخر کوئی کیوں کنزرویٹو ہو سکتا ہے۔ کچھ لوگوں میں یہ ذہنی نقص کیوں آ جاتا ہے جو انہیں حقیقت سے اس قدر اندھا کر دیتا ہے؟
ہم لبرل پالیسیوں کی حمایت اس لئے کرتے تھے کہ ہمیں دنیا صاف نظر آتی تھی، ہم لوگوں کی مدد کرنا چاہتے تھے جبکہ “وہ” صرف خودغرض تھے۔ (اسی لئے ٹیکس کم کرنے کے حق میں تھے یا اقلیتوں کے حقوق کے پروگراموں میں روڑے اٹکاتے تھے)۔
ایک چیز جس کا ہم نے کبھی تصور نہیں کیا تھا، وہ یہ کہ متبادل اخلاقی دنیائیں بھی ہو سکتی ہیں جس میں بنیادی اقدار مختلف ہوں۔ اور چونکہ ہم یہ تصور نہیں کر سکے تھے، اس لئے ہم اس بات کو ماننے کے لئے تیار نہیں تھے کہ ہمارے نظریاتی مخالف بھی اپنے اخلاقی یقین کے بارے میں اتنے ہی مخلص ہیں جتنا کہ ہم۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اپنی اخلاقی برتری کا یہ طلسم صرف اس وقت ٹوٹا جب میں انڈیا گیا اور میں اکیلا تھا۔ اگر میں صرف ایک سیاح ہوتا تو تین ماہ میں کچھ بھی نہ بدلتا۔ دوسرے مغربی سیاحوں کی طرح واپس آ کر میں اس معاشرے کے صنفی تعصب، غربت اور جبر کی کہانیاں سناتا۔
جب میں واپس آیا تو پھر مجھے سوشل کنزرویٹو نکتہ نظر سمجھ آنے لگا۔ آخر کیوں میرے مخالف ویسے نظریات رکھتے تھے۔ اس کا مطلب یہ نہیں تھا کہ میں ان سے اتفاق کرتا تھا لیکن اس نئی بصیرت نے مجھے نظریاتی جانبداری کی قید سے نجات دلا دی۔ اس سے پہلے مخالف کی بات پر میرا طریقہ بھی وہی تھا جو کہ عام طور پر سب کا یہ ہوتا ہے۔ (یعنی پہلے اس کی بات کو مسترد کرو اور پھر سوال کرو)۔ اب میں اس بات کو سمجھ سکتا تھا کہ “لبرل اور کنزرویٹو نظریات بنیادی طور پر ہی الگ ہیں لیکن دونوں اچھے معاشرے کے وژن ہیں”۔
اور ایک بار میرا جانبداری کا غصہ ختم ہو گیا تو پھر میرے لئے اس بات پر قائم رہنا ضروری نہیں رہا تھا کہ “ہم ٹھیک ہیں، وہ غلط ہیں”۔ اب میں دوسری اخلاقی میٹرکس کی تفتیش کر سکتا تھا۔ یہ میرے لئے ویسا تھا جیسے کسی نے نیند سے بیدار کر دیا ہو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“We are multiple from the start”
شوہڈر کا یہ فقرہ اخلاقی اور سیاسی نفسیات میں بہت اہم ہے۔ ہماری اٹھان کے ساتھ کئی اخلاقی پہلو متحرک ہوتے ہیں اور کئی ڈویلپ نہیں ہو پاتے۔ اگر آپ خودمختاری کی ایتھکس کی قدر کی ترجیح کے ساتھ بڑے ہوئے ہیں تو شاید آپ کو ان جگہوں پر امتیاز اور جبر نظر آئے جہاں پر اس کا شکار لوگوں کو بھی اس میں کچھ بھی غلط نظر نہیں آ رہا۔ لیکن سالوں بعد جب آپ کسی روایتی معاشرے کے بارے میں اچھی کتاب پڑھیں یا سفر کریں یا بچوں کے والدین بنیں تو پھر اپنے اندر اخلاقی الجھنیں محسوس ہونے لگتی ہیں جن کی سمجھ نہیں آتی۔
یا اس کے برعکس کسی زیادہ روایت پسند معاشرے میں پرورش پائی ہے جہاں کمیونیٹی اور تقدیس کے ایتھکس کی ترجیح ہے تو پھر وہاں پر بھی تذلیل یا بے حرمتی نظر آئے جہاں پر دوسروں کو کچھ بھی غلط نہیں نظر آتا۔ لیکن جب آپ کو کہیں اپنے ساتھ امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑے یا کوئی اچھی کتاب پڑھنے کو ملے یا سفر کرنا پڑے تو پھر آپ کو جبر اور برابری کے دلائل نئی روشنی میں نظر آنے لگیں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور یہ سرخ گولی نگل لینا انسانی ذہن کے نقائص دریافت کرنے کے بجائے اخلاقی ڈیزائن کی تفتیش ممکن کرتا ہے۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...