فلسفی طویل عرصے سے اس بات پر غیرمتفق رہے ہیں کہ کیا کسی بڑی اچھائی کے لئے کسی کو نقصان پہنچانا قابلِ قبول ہے۔ Utilitarianism ایک فلسفانہ مکتبہ فکر ہے جس کے مطابق آپ کو مجموعی طور پر اچھائی کو دیکھنا چاہیے، خواہ اس کے لئے کسی کو نقصان ہی کیوں نہ پہنچانا پڑے۔
اخلاقی مخمصوں میں سے ایک مشہور “ٹرالی کا مسئلہ” ہے۔ ٹرین کا ایک بے قابو ڈبہ پانچ لوگوں کی طرف بڑھ رہا ہے۔ آپ کے پاس انتخاب ہے کہ ایک شخص کو پل کے نیچے دھکا دے دیں۔ ٹرالی اس سے ٹکرا کر رک جائے گی۔ کیا آپ کو اس انجان شخص کی اس طریقے سے جان لینے کا انتخاب کرنا چاہیے تا کہ پانچ لوگوں کی جان بچائی جا سکے؟
اس کے جواب میں utilitarian نکتہ نظر یہ ہے کہ “ہاں، اسے دھکا دے دیں”۔
جبکہ ایک اور مکتبہ فکر کے فلسفیوں کا ماننا ہے کہ افراد کے حقوق کا احترام ہماری ذمہ داری اور ہمارا فرض ہے۔ کسی بھی صورت میں انہیں نقصان نہیں پہنچانا چاہیے۔ اس نکتہ نظر کو deontology کہا جاتا ہے۔ ڈیونٹولوجسٹ کی نظر میں اخلاقی اصول کا ماخذ اور توجیہہ احتیاط سے کی گئی ریزننگ سے آتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جوشوا گرین کے خیال میں utilatarian نکتہ نظر سرد منطق کی بنیاد پر ہے اور ڈیونٹولوجسٹ کا ماخذ gut feeling ہے، جس کی بعد میں عقلی توجیہہ کی جاتی ہے۔ اور یہ ان کی تحقیق کا موضوع تھا۔
گرین نے اس کا پتا لگانے کے لئے بیس کہانیاں تشکیل دیں۔ مثال کے طور پر ٹرالی کے مخمصے میں ایک تبدیلی یہ کی گئی کہ کسی شخص کو دھکا نہیں دینا بلکہ ایک سوئچ دبانا ہے جس سے ٹرالی ایک دوسرے ٹریک پر چلی جائے اور وہاں پر کھڑا ایک شخص مارا جائے۔ حساب کتاب کے اعتبار سے تو یہ بالکل ویسا ہی سودا ہے۔ ایک شخص کی زندگی لے کر پانچ کی جان بچا دینا لیکن intuitionist نکتہ نظر سے دونوں فیصلے یکسر مختلف ہیں۔ کسی کو اپنے ہاتھوں سے دھکا دینا کے خوفناک فیصلے سے آزاد ہو جانے کے بعد زندگیاں بچانے کا انتخاب آسان ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گرین نے شرکاء کو فنکشنل ایم آر آئی سکین کرتے وقت یہ کہانیاں پیش کیں۔ شرکاء کو انتخاب کرنا تھا کہ کیا لیا گیا ایکشن درست ہے۔
نتائج بہت واضح تھے۔ جب لوگ ایسی کہانیاں پڑھتے ہیں جہاں پر کسی شخص کو ضرر پہنچتا ہے تو دماغ کے جذباتی حصے متحرک ہوتے ہیں۔ اور جذباتی ری ایکشن اخلاقی رائے کی پیشگوئی کرتے ہیں۔
گرین نے اپنی مشہور تحقیق 2001 میں شائع کی۔ اس کے بعد سے کئی لیبارٹریوں میں اس قسم کے تجربات کئے جا چکے ہیں جس میں شرکاء کو مناظر دکھائے جاتے ہیں جن کا تعلق اخلاقیات سے ہے۔ چندہ دیتے ہوئے، جرم کی سزا ملتے وقت، چیٹنگ کرتے ہوئے، تعاون کرتے وقت۔ چند استثنا چھوڑ کر، ملنے والے نتائج ایک مسلسل اور باربط کہانی بتاتے ہیں۔ دماغ کا جذباتی پراسسنگ کا مرکز فوری طور پر متحرک ہو جاتا ہے۔ اور اس کا تعلق لوگوں کی اخلاقی رائے اور فیصلوں سے ہوتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جب ای او ولسن نے 1975 میں پیشگوئی کی تھی کہ ایتھکس کا تعلق ذہن کے جذباتی مراکز سے نکلے گا تو انہیں بڑی تنقید کا نشانہ بننا پڑا تھا۔ اس وقت کا سیاسی ماحول ایسے خیالات کے لئے موزوں نہ تھا۔ آنے والی دہائیوں میں نہ صرف ارتقائی نفسیات بلکہ نیوروسائنس سمیت کئی شعبوں کے سائنسدانوں کی تحقیق کی وجہ سے یہ تبدیل ہو چکا تھا۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...