سکاٹ مرفی نے ورجینیا یونیورسٹی میں ایک تجربہ کیا۔ سیب کا جوس ڈبے سے نکال کر گلاس میں ڈالا اور تجربے کے شرکاء کو کہا کہ اس کا ایک گھونٹ لیں۔ سب نے لے لیا۔ اس کے بعد انہوں نے سفید پلاسٹ کا ڈبہ نکالا اور کہا۔
“اس ڈبے میں ایک کاکروچ ہے جو سٹیریلائزڈ ہے۔ اس میں کوئی جراثیم نہیں۔ ہم لیبارٹری سپلائی کمپنی سے ایسے چند کاکروچ لے کر آئے تھے۔ ان کو بالکل صاف ماحول میں رکھا گیا ہے۔ لیکن پھر بھی مزید احتیاط کے لئے، ہم نے ان کو پھر سٹیرئلائز کیا ہے۔ میں اس کاکروچ کو جوس میں ڈبو کر نکالوں گا۔ کیا اب آپ اس گلاس میں سے دوسرا گھونٹ لیں گے؟”
ایک اور تجربے میں سکاٹ نے کہا کہ وہ کاغذ پر لکھے معاہدے پر دستخط کرنے کے عوض دو ڈالر دیں گے۔ تحریر تھی، “میں اپنی موت کے بعد اپنی روح سکاٹ مرفی کو دو ڈالر کے عوض فروخت کرتا ہوں”۔ نیچے دستخط کے لئے جگہ تھی۔ صفحے کے آخر میں لکھا تھا کہ “یہ فارم ایک تجربے کے لئے ہے۔ اس معاہدے کی قانونی حیثیت نہیں”۔ سکاٹ نے شرکاء کو کہا کہ وہ دستخط کر دینے کے بعد اس معاہدے کو خواہ پھاڑ دیں، انہیں دو ڈالر پھر بھی مل جائیں گے۔
شرکاء میں سے 37 فیصد کاکروچ والے جوس سے گھونٹ لینے کو تیار ہوئے۔ جبکہ روح فروخت کرنے کے لئے 23 فیصد۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جن شرکاء نے انکار کیا، سکاٹ نے ان سے وجہ پوچھی اور چیلنج کرنے کی کوشش کی۔ انہوں نے دلائل اور منطق کی مدد سے مزید دس فیصد طلباء کو جوس پینے کے بارے میں ذہن قائل کر لیا۔ جبکہ سترہ فیصد مزید کو روح فروخت کرنے کے بارے میں۔ لیکن اکثریت اپنے ابتدائی فیصلے پر قائم رہی۔ حالانکہ وہ ایسا کرنے کی کوئی بھی اچھی وجہ نہیں بتا سکے۔ دلچسپ چیز یہ کہ ان میں سے کئی ایسے بھی تھے جنہوں نے تسلیم کیا کہ وہ روح پر یقین ہی نہیں رکھتے لیکن پھر بھی اس پر دستخط کرنے کو تیار نہیں ہوں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسی طرح کی ایک اور کہانی۔ جینیفر ایک ہسپتال میں کام کرتی ہے۔ وہ سبزی خور ہے اور اس کا خیال ہے کہ جانوروں کو خوراک کے لئے مارنا اخلاقی اعتبار سے غلط ہے۔ ایک رات ہسپتال میں ایک نامعلوم لاش آئی۔ اسے خیال آیا کہ یہ گوشت ایسے ہی پھینک دینا ضیاع ہو گا۔ وہ اس کے گوشت کا ایک ٹکڑا کاٹ کر گھر لے آئی۔ پکایا اور کھایا۔
یہ کہانی اس نوعیت کی ہے جو کراہت کے جذبے کو اجاگر کرتی ہے اور اس کو سننے والے فوری طور پر اس کو گھناونا اور اخلاقی لحاظ سے ناقابلِ قبول فعل قرار دیتے ہیں۔ لیکن وجہ بیان کرنے کے لئے مشکل ہوتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مرفی کے کئے گئے کئی دوسری تجربات سے واضح ہوتا ہے کہ لوگ اخلاقی فیصلہ پہلے لیتے ہیں اور جذبات کے ذریعے لیتے ہیں اور اگر عقل کا خادم اچھی توجیہہ نہ بھی تلاش کر سکے تو بھی لازم نہیں کہ جذبات کا آقا ذہن بدل لے۔ لاجواب ہو جانا بھی یہ کام نہیں کر سکتا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ اور ایسے کئے گئے دوسرے تجربات صاف طور پر دکھاتے ہیں کہ جبلی جذبات کا ہمارے فیصلوں میں بڑا کردار ہے۔ اور ان میں عقل کا کردار ثانوی ہے۔ کوئی شخص کوئی عمل کس وجہ سے کر رہا ہے؟ لازم نہیں کہ اس کے لئے اس شخص کی اپنی پیش کی گئی توجیہہ درست ہو۔ اور اس لئے نہیں کہ وہ جان بوجھ کر کچھ غلط کہہ رہا ہے۔
کسی کے بھی (بشمول اپنے) رویے کو سمجھنے کے لئے ہمیں جس چیز کو سمجھنا ہے، وہ یہ جذبات ہیں۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...