شکاگو یونیورسٹی کے رچرڈ شویڈر نفسیاتی اینتھروپولوجسٹ ہیں۔ انہوں نے مشرقی انڈیا میں اڑیسہ میں کام کیا ہے۔ ان کی تحقیق اڑیسہ اور امریکہ میں رہنے والوں کی شخصیت اور انفرادیت کے بارے میں سوچ پر تھی۔ اور اس پر کہ یہ کس طرح اخلاقی سوچ کے فرق کا باعث بنتی ہے۔ انہوں نے کلفورڈ گیرٹز کی تحقیق کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ مغربی معاشرے میں لوگوں کا “الگ فرد” کے طور پر تصور کیا جاتا ہے۔ یہ ایک بڑی غیرمعمولی سوچ ہے کیونکہ دنیا کے بڑے حصے میں ایسا نہیں۔
“مغربی فکر میں ایک شخص کو ایک منفرد اور خود میں بند فکری کائنات کے طور پر لیا جاتا ہے۔ جو اپنی آگاہی، جذبات، آراء، خیالات اور اعمال کو ایک کُل میں منظم کرتا ہے۔ اور ایسے افراد دوسرے افراد کے ساتھ رہتے ہیں۔ اس فکر میں معاشرہ پس منظر میں چلا جاتا ہے۔ اگر عالمی کلچر کے تناظر میں دیکھا جائے تو یہ ایک انوکھی فکر ہے”۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شویڈر ایک سادہ خیال پیش کرتے ہیں کہ الگ کلچرز کی اقدار میں اتنا فرق کیوں ہے۔ ہر معاشرے کو کچھ سوالات کو طے کرنا ہے کہ معاشرے کو منظم کیسے کیا جائے۔ اس میں سب سے اہم سوال یہ ہے کہ فرد اور گروہ کی ضروریات کا توازن کیسے قائم رکھا جائے۔ اس سوال کا جواب دینے کے دو طریقے ہیں۔ زیادہ تر معاشرے اس کے لئے “سماج کی مرکزیت” کا انتخاب کرتے ہیں۔ گروہ اور اداروں کی ضروریات کو فرد کی ضروریات سے بالاتر رکھا جاتا ہے۔ اس کے مقابلے میں “فرد کی مرکزیت” کا آئیڈیا ہے جس میں افراد کی ضروریات بالاتر ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔
سماج کی مرکزیت کا خیال تاریخ میں سب سے زیادہ قبول کیا جاتا رہا ہے۔ لیکن فرد کی مرکزیت کا آئیڈیا یورپی enlightment کی تحریک کے وقت ابھرا۔ بیسویں صدی میں یہ روایتی جواب کا مضبوط حریف بن گیا۔ فرد کے حقوق کا خیال تیزی سے پھیلا۔ صارف کا کلچر بڑھا۔
اسی دور میں سماج کی انتہائی مرکزیت کا عظیم آئیڈیا کمیونزم کی صورت میں سامنے آیا۔ فاشسزم اور کمیونزم مخالف خیالات تھے لیکن سماج کی مرکزیت کی انتہا ان میں مشترک تھی۔ ان کی تباہ کاریوں نے دنیا کو خوف زدہ کر دیا۔ ان کی جلد ہو جانے والی ناکامیوں کے ساتھ ساتھ ہی انفرادیت کے کلچر عام ہوتے گئے۔
(یورپی سوشلزم کا یا فلاحی ریاست کا تصور سماج کی مرکزیت کا نہیں بلکہ فرد کے لئے حفاظتی جال کا ہے)۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شویڈر کا کہنا تھا کہ اخلاقی نفسیات کے مروجہ خیالات انفرادیت پر مبنی کلچرز کو دیکھ کر بنائے گئے ہیں۔ اس وجہ سے یہ بہت سی چیزوں کی وضاحت نہیں کر پاتے۔ ان کا خیال تھا کہ اڑیسہ میں کوہلبرگ اور ٹوریل کی تھیوریاں کام نہیں کریں گے۔ یہاں پر اخلاقیات سماجی مرکزیت کی ہے۔ افراد ایک دوسرے پر منحصر ہیں اور اخلاقی قوانین اور سماجی روایات کے درمیان کوئی واضح حدِ فاصل نہیں ملے گی۔
یہ ایک دلچسپ خیال تھا لیکن کیا یہ ٹھیک تھا؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اپنے خیالات کو جانچنے کے لئے انہوں نے دو ساتھیوں کے ساتھ ملکر 39 مختصر کہانیاں بنائیں۔ پھر ان کی مدد سے پانچ سے تیرہ سال کی عمر کے درمیان کے 180 بچوں اور 60 بڑوں کے انٹرویو امریکہ شکاگو میں کئے۔ اڑیسہ کے شہر بھونیشور میں اتنے ہی براہمن بچوں اور بڑوں کے انٹرویو کئے جبکہ اچھوت لوگوں میں سے 120 کے۔ دنیا کے دو بہت مختلف شہروں میں چھ سو طویل انٹرویو کرنا ایک بڑا کام تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مشرق اور مغرب کے موازنے کے لئے کیا جانے والا یہ اپنی نوعیت کا پہلا کام تھا۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...