سورج پور اور پرانے جنگل کے درمیان ایک بہت بڑا میدان ہے۔ اس میدان میں چیت کا میلہ لگا ہے۔ ٹھٹھ کے ٹھٹھ آس پاس کی بستیوں سے میلہ دیکھنے آئے ہیں۔ طرح طرح کی دُکانیں سجی ہیں۔ قسم قسم کے گھوڑے اور مویشی میلے میں نمائش کے لیے لائے گئے ہیں۔ ناچ رنگ سے ساری بستی گونج رہی ہے۔
زمانہ: ہجرت سے پہلے
وقت: دن چڑھے
کردار
کچھ مرد اور عورتیں، بندو، نندی
حسنی، عبدل، اُوشا، گھوڑا اور بیل
عورتوں اور مردوں کی ایک ٹولی ناچ کتھا میں ڈُوبی ہوئی ہے۔ عبدل، نندی اور حسنی بھی اس ہجوم میں موجود ہیں۔
کورس: پھر چیت کا میلہ آیا
من بھایا
ہو آیا
پھر چیت کا میلہ آیا
بندو: چھب سندر گورے گال
جوبن پر چمکیں لال
کھرا ہے مال
زمانہ گوری کا
کورس: پھر چیت کا میلہ آیا
من بھایا
ہو آیا
عورت: ہٹ دُور پرے کل مُوئے
تو میرا جوبن چھوئے
تری اکھیوں ماں ڈالوں سوئے
کل موئے
کورس: پھر چیت کا میلہ آیا
من بھایا
ہو آیا
بندو: ’’ہم تو ترے عِسک ماں مر گئے تنے کھیل کٹاری دِیکھے۔ ‘‘
(کورس): ’’اِس بانکے رے ترچھے گھونگٹ ماں توں سارے جگ سے نیاری دِیکھے۔ ‘‘
ایک آواز: متھے پر جھمر لشکاں مارے۔ مانگ ماں چمکیں ٹوماں
دوسری آواز: سارا گاؤں دہائیاں دیوے سہر ماں پڑ گئیں دھوماں
بندو: جوں جوں گوری غصّے ہووے منے ہور بی پیاری دِیکھے
کورس: اس بانکے رے ترچھے گھونگھٹ ماں توں سارے جگ سے نیاری دِیکھے
(تھوڑی دُور سے ڈھول اور تماشائیوں کی آوازیں آ رہی ہیں )۔۔ ۔
دھَنا دھَن دھَن
دھَنا دھَن دھَن
نندی: (عبدل سے )
چلو بیل گھوڑے کی دیکھیں لڑائی
(عبدل ذرا پانی پینے چلا جاتا ہے )
حسنی: کبھی ہم سے بھی کرو پیار
اب یوں نہ کرو انکار
کرو اقرار
پھر چیت کا میلہ آیا
من بھایا
ہو آیا
نندی: چلے جاؤ حسنی!
کئی بار تم سے کہا ہے کہ مجھ سے نہ بولو!
عبدل: کیا ہے نندی! کیا ہے ؟
حسنی بھیا اُدھر چلو گے!
ڈھول کی آواز: دھانا دھِن دھِن
دھِنک دھِنک دھِن دھِن دھا
دھِنک دھِنک دھِن دھِن دھا
زندہ دِل تماشائیوں کا ایک ہجوم گھوڑے اور بیل کی لڑائی دیکھ رہا ہے۔ نندی اور عبدل بھی اس ہجوم میں مل جاتے ہیں۔ حسنی ایک طرف ہجوم میں کھو جاتا ہے اور اپنا دو تارہ زمین پر دے مارتا ہے۔ ایک کالے گھوڑے کی پیٹھ پر سبز مخمل کا تارو ڈالا ہوا ہے۔ پاؤں میں جھانجریں ہیں۔ اُدھر ایک نیلا بیل ہے جو گاؤں کا سب سے جوان اور خوفناک نارا ہے۔ اس کے سینگوں پر لوہے کے خود چڑھے ہوئے ہیں۔ کمر پر سرخ رنگ کی قیمتی چادر ہے۔ گھوڑے پر ایک نوجوان اَسوار ہے۔ اس کے ہاتھ میں نیزہ ہے۔ گھوڑے اور بیل کے مالک ایک دوسرے کو للکارتے ہیں۔ لڑائی شروع ہوتی ہے۔
ڈھول کی آواز: دھانا دھِن دھِن
دھانا دھِن دھِن
دھا نا دھِن دھَِن
دھِنک دھِنک دھِنک دھا
دھِنک دھِنک دھِنک دھا
(گھوڑا اور بیل مقابلے میں آتے ہیں )
گھوڑا: (گھوڑا کہے بیل سے )
میں ہوں ایسا گھوڑا
مست ہو کے جب لہرماں آؤں
جھنجھل اُٹھا کے پیر اٹھاؤں
کئی کوس منٹوں ماں جاؤں
دے جواب او بیل تو میری بات کا!
بیل: سانچے بچن بیل کہے سن گھوڑے میری بات!
اونچی بولی بول کے کھول نہ اپنی ذات
میں ہوں اپنی ماں کا نارا مالک میرا کسان
صحرا کا لقمان
کھڑی دوپہر ہل ماں جوتے پانی دے نہ گھاس
کھنڈی آر سے پھوڑ کے کرے بدن کا ناس
ہاڑھی ہو کہ ساؤنی سب کے کشت اٹھاؤں
پھر بھی اپنے کام سے! کبھی نہ آنکھ چراؤں
دے جواب تو گھوڑے میری بات کا
گھوڑا: او ہریا کے نارے اپنی ذات پچھان!
مری ٹاپ سے تھر تھر کانپیں بڑے بڑے بلوان
کیا پنکھرو کیا حیوان
ماں پر پوت پتا پر گھوڑا
بہت نہیں تو تھوڑا تھوڑا
میں ہوں بلوچی گھوڑا!
میرے سموں کی گھنی گرج سے پھٹ جاوے دھرتی کی کھال!
بیل: دانت چھپا کے بول رے ارجل!
میں ہوں نادیا بیل!!
میرے آگے سے ہٹ جا او بے پیروں کے پِیر
ایسی ٹکّر پلٹ کے ماروں جان رہے نہ سریر
سنگی ایسی گھما کے ماروں چھلنی ہو سورج کا تھال
او خچر کے لاڈے تو کیا جانے میری چال!
چندر بنسی سورج بنسی کا ہے مجھ میں خون
گھوڑا: ہٹ جا او ملعون!
بیل: میری ماں کل دھرتی کی ماں میں ناروں کا نارا
میں دھَرتی کا پیارا
گھوڑا: او بچھیا کے نارے اُونچا بول نہ بول
بیل: او سوری کے جو!
گھوڑا: ہو ترا ہو جا بیل کا منہ!
میں ہوں بلوچی گھوڑا
بیل: میں ہوں نادیا بیل!
(لڑائی شروع ہوتی ہے )
دھَانا دھِن دھِن
دھَانا دھِن دھِن
دھِنک دھِنک دھِن دھِن دھا
دھِنک دھِنک دھِن دھِن دھا
دھا تر کٹ دھا
دھا ترکٹ دھا
ترکٹ دھا
ترکٹ دھا
دھا ترکٹ دھا
عبدل: (نندی کے کان میں چپکے سے کہتا ہے )
ناچ کتھا دیکھو گی نندی!
سب اس شور میں کھوئے ہوئے ہیں
میں چلتا ہوں تم مرے پیچھے چلتی آؤ!
(ڈھول کی آواز تیز ہو جاتی ہے )
نندی: میرے بھیا یہاں آ گئے تو۔۔ ۔
عبدل: نہیں وہ ادھر کیا کرے گا!
عبدل اور نندی ناچ کتھا میں آ جاتے ہیں۔ ان کے پیچھے پیچھے حسنی بھی آتا ہے۔
کورس: پھر چیت کا میلہ آیا
من بھایا
ہو آیا
حسنی: (نندی کو کہتا ہے )
خلقت ناچے پی کے بھنگ
تم بھی ناچو میرے سنگ
نندی: نہیں میں نہ ناچوں گی!
عبدل: ناچو نندی! یہ میلہ ہر روز نہیں ہوتا ہے نندی!
نندی: نہیں میں نہ ناچوں گی عبدل!
نہیں میں نہ ناچوں گی!
بُندو: (حسنی کو کہتا ہے )
ناچ رے بھین ناچ
اوشا کے سنگ ناچ
خوب رہے گا اوشا اور حسنی کا جوڑا
اس میلن میں ناری کا کیا توڑا
(اوشا اور بندو حسنی کو مسکرا کر دیکھتے ہیں )
حسنی: رادھے بن کیا ناچے نچیا منڈل بھئیو اداس
سب نَر ناری میلن دیکھیں میں دیکھوں آکاس
اُوشا: میں تیری رادھا ہوں موہن میں ناچوں تو گا!
مدھر بانسری چھیڑ کے من کی جوت جگا
بندو ساز چھیڑتا ہے اور حسنی ناچنے لگتا ہے۔ ہرنوں کی ایک ڈار چوکڑیاں بھرتی ہوئی قریب سے گزر جاتی ہے۔
حسنی: بینا باجے تنا نوم تنانوم
جھانجھن بولے چھن
نادھِن دھِن نا ڈھولک بولے مدھُر مَدھُر بجے بِین
بہت بڑی سرکار ہے تیری سیّد قطب الدینؒ
بینا باجے تنانوم تنا نوم
جھانجھن بولے چھن
آئیوری سجنی چیتن میلن
سمے دکھاوے میٹھے سپنن
توڑ تاڑ کے چھوٹے دَرپن
دھُومن شاہ کا ناؤں رٹے من
للت، بھیرویں، شنکرا، ایمن
آئیوری سجنی چیتن میلن
بینا باجے تنانوم تنانوم
جھانجھن بولے چھن
کورس: پھر چیت کا میلہ آیا
من بھایا
ہو آیا
پھر چیت کا میلہ آیا
بندو: دیکھو جی جورا جوری
حسنی: اِک چودہ برس کی چھوری
ملے ہم سے چوری چوری
ہو گوری
کورسپھر چیت کا میلہ آیا
من بھایا
ہو آیا
پھر چیت کا میلہ آیا
ایک نوجوان: مرا نام منوہر لال
مری چاندی کی سُکھ پال
کر دوں گا مالا مال
گو رُو گھنٹال
کورس: پھر چیت کا میلہ آیا
من بھایا
ہو آیا
پھر چیت کا میلہ آیا
اُوشا: بجے ڈھولک اور مردنگ
دو تارا اور منہ چنگ
تم گاؤ ہمارے سنگ
بہادر جنگ
کورس: پھر چیت کا میلہ آیا
من بھایا
ہو آیا
پھر چیت کا میلہ آیا