پچھلی صدی کاقصہ ہے۔ آخری عشرےکےابتدائی سالوں میں ہم نویں جماعت میں تھے۔ پروفیسروصی الحسن پاکستان سٹیل کیڈٹ کالج میں مطالعۂ پاکستان کےاستادتھے۔ نفیس طبیعت شفیق استاد کبھی موڈمیں ہوتے تولیکچرشروع کرنےسےپہلےاپنےٹریڈمارک اندازمیں کہاکرتے، صاحب آج آپ ہماری دعوت کیجیے۔ اس کامطلب ہوتاکہ طبیعت کوموزوں کرتاکوئی اچھاساشعرسنائیے
ـــ
تصویرمیں پروفیسروصی میس میں لنچ کے دوران راؤنڈ پرہیں۔ جابر ہاؤس کےسُرخ رنگ کےایپلٹ پہنےپانی کے گلاس سے شغل کرتے ہم ہیں۔
اب یہ اور بات ہے کہ ایک یادگار دن، ان کے اُس دن کے مخاطب و ممدوح کیڈٹ اسد (جسے ہم سب کرنل کہتے اور سمجھتے تھے) نے صدقِ دل اور پوری ارادتمندی کے ساتھ کھڑے ہوکرپروفیسر مذکورکی دعوت کچھ اس ڈھنگ سے کی تھی
شبِ برات کیا تحفہ میں تم کو بھیجوں
میری جان تم تو خود اک پٹاخہ ہو
خیر یہ ایک الگ قصہ ہے۔
تو صاحبو گذشتہ صدی کی آخری دہائی کے شروع کے سالوں میں مطالعۂ پاکستان پڑھاتے پروفیسر وصی اکثر کہاکرتے تھےکہ پیارے بچو وسطِ ایشیا کی مسلم ریاستیں اگر آزاد ہوسکتی ہیں تو مشرقی اور مغربی پاکستان دوبارہ ایک کیوں نہیں ہوسکتے! ایک دن انہیں دوبارہ شیروشکرہونا ہے۔
اورہم مطالعۂ پاکستان پڑھنےوالےطلباء دل میں کہتےکہ غداربنگلہ دیش دوبارہ پاکستان سےکیسےمل سکتاہے۔ سروصی بھی کیسی عجیب وغریب باتیں کرتےہیں
آج کی نسل زیادہ جانکارہے۔ وہ مطالعۂ پاکستان سےزیادہ سوشل میڈیا کی صارف ہے۔ آج کےپاکستانی کو پتہ ہےکہ غداربنگالی ہمارےمشرقی بازوکےمظلوم بھائی تھے جنہوں نےلڑمرکرہم سےآزادی حاصل کی تھی۔ گزری صدی کے پروفیسر وصی کی طرح آج کی جانکار، روشن خیال نسل بھی پاک بنگال دوستی اور بھائی چارے کی بات کرتی ہے۔
صاحبو اب یہاں سوال یہ اٹھتا ہے کہ ایک تلخ اور تکلیف دہ ماضی کی کوکھ سے جنمی آزادی کو دونوں ممالک کس حد تک سوئیکار کرنے کو تیار ہیں؟
رات کچھ کچھ بھیگ چلی تھی اور کچھ دیر سے پیدل چلتے ہمارے بوٹوں پر ایک ریتلی زمین کی دھول تھی اور ہونٹوں پر کراچی کے ساحِل کی نم ہوا کا نمکین ذائقہ۔ یہ پی اے ایف بیس مسرور تھی اور کراچی کی ساحلی پٹی کی قربت میں ایک جوبن پر آئی رات میں میرے ساتھ رحمان ارشد (المعروف راشد منہاس)
اور چھوٹے شیرازی کی سنگت تھی۔ مجھے کینیڈا سے پاکستان پہنچے دوسرا روز تھا اور چکلالہ کے دنوں کے واہیات گروپ کےاتنے ہی واہیات یہ دونوں ہواباز رضاکارانہ طورپر بیس مسرور کی ایک معمول کی پرواز پر اپنا نمبر لگا پاک فضائیہ کا طیارہ اڑا کراچی آگئے تھے اور اب میری دسترس میں تھے۔
دوستی میں جبکہ وہ بے لوث ہو ایک جادوئی حس ہوتی ہے۔ وہ لاہور کا عرفان ہو یا چک لالہ کا ہواباز گروپ، ملنے کو ایک بہانہ کافی ہوتا ہے اور ایک دوسرے کی سنگت میں مقام، وقت اور کاروبارِ زندگی بے معنی ہوجاتےہیں۔ چکلالہ سے پدھارے دونوں ہواباز جو رات کی رات مجھے دیکھنے کو آئے تھے اور صبح انہوں نے ایک دوسرے مشن پر پلٹ جاناتھا اس لمحۂ موجود میں ایک آلکس میں میرے ساتھ چلتے تھے۔ ہم کہ بیس مسرور کے ہی ایک ڈھابے نما ہوٹل کی کڑاہی اور دال فرائی سے سیر شکم تھے اور گولڈ لیف کے پاکستانی تمباکو کی لذت کشید کرتی سانس کھینچتے تھے تو ہمارے ارد گرد بیس کے رن وے سے اڑان بھرنے کی تیاری پکڑتے ’پرندوں‘ کے انجن کا شور تھا، سارے میں مٹی کے تیل کی بُو تھی اور ہمارے ہونٹوں پر کراچی کے ساحِل کی نم ہوا کا نمکین ذائقہ۔
بیس مسرور کی اس رات کی رات ملاقات میں بھی میں نے انہیں ایک کہانی کھوجنے پر لگا دیا تھا۔ چلتے چلتے رحمان ارشد بولا، ’سربیس کاشہداء قبرستان نزدیک ہی ہےوہاں دیکھتےہیں‘۔ مجھے علم تھاکہ ہماراگوہرِمقصودوہاں نہیں ہےمگر راستےمیں پڑتےایک قبرستان پرٹھہرنےاورفاتحہ پڑھنےمیں کوئی مضائقہ بھی نہیں تھا۔ چندقطعوں اور ان سےبھی کم قبروں پر مشتمل ایک چاردیواری سے گھِرا یہ کم آبادی والا قبرستان عالمِ مسرور تھا۔
پی ایف بیس مسرور کا شہداء قبرستان۔ سب سے پہلی قطار میں ہی ہم خرم صمد شہید سے جاٹکرائے۔ ونگ کمانڈر خرم صمد شہید پاکستان سٹیل کیڈٹ کالج میں ہمارے سینیئر تھے۔ تین جون 2014 کو معراج طیارے کی معمول کی تربیتی مشق کے دوران پیش آئےطیارے کے حادثے میں آپ شہید ہوگئے تھے۔
چند قطاریں چھوڑ کر پس منظر میں اللہ کی راہ میں مارے جانے والوں کو ابدی زندگی کی بشارت دیتی قرآنی آیت کےروشن ہوتے حروف کے جلو میں ایک اور کتبہ نظر پڑا۔ پینسٹھ کی ہوائی جنگ سے طلسماتی شہرت پانے والے ایم ایم عالم بیس مسرور کے شہداء قبرستان میں سورہے ہیں۔
مشرقی پاکستان سے تعلق رکھنے والے بنگالی محمد محمود عالم، ستارۂ جرات دو بار،ستارۂ امتیاز(ملٹری)، نے بنگلہ دیش بن جانےکےبعد پاکستان میں رہ جانے کو ترجیح دی۔ آپ پاک فضائیہ سے بطور ایئرکموڈور ریٹائر ہوئے اور 2013 میں وفات پائی۔
عالمِ مسرور میں اس رات ہماری کھوج 20 اگست 1971 کی دوپہر پاک فضائیہ کے T-33 تربیتی طیارے کو پیش آنے والے حادثے سے سے متعلق تھی مگر وہ نشان اگر وہاں ہوتا تو ملتا۔ اگر ہمارے پڑھنےوالوں کا دھیان راشد منہاس شہید کی طرف جارہا ہے تووہ بیس مسرور میں سپردِ خاک نہیں ہیں۔ پچھلی قسط میں ہم کراچی کےکالاپل کے پاس فوجی قبرستان کی کرسچیئن گریویارڈ سے ملحق دیوار کے ساتھ راشد منہاس شہید کےمزار پر فاتحہ پڑھ آئےتھے۔ راشدکی شہادت پر فوجی رسالے ہلال کے اسوقت کے ایڈیٹراکرام قمر نے قطعۂ تاریخِ وفات موزوں کیا تھا جو مزار کی چھتری تلےقبرکےسرہانے ایک سادہ کتبے پر درج ہے
پرواز ہے دونوں کی اسی ایک فضامیں
مومن کا نشاں اورمنافق کا نشاں اور
ہم اس رات مسرور بیس کے قبرستانوں میں نقلِ کتبہ کتبہ باشد ’منافق کا نشاں‘ ڈھونڈ رہے تھے۔ راشد کی دوسری سولو فلائٹ کے زبردستی کےہمسفر فلائٹ لیفٹیننٹ مطیع الرحمان۔ وہی جسے گوٹھ احمد شاہ کا علی محمد بنگالی کہہ کے بلاتا تھا۔
20 اگست 1971 کی شام کنڈیارو شریف کے پاس کی زمینوں سے اڑا ہیلی کاپٹر بیس مسرور پر دو میتیں لےکر آیا تھا۔ راشد کی بلیو برڈ از ہائی جیکڈ کی کال کے بعد ڈھنڈیا پڑی تو یہ عقدہ کُھلا تھا کہ بیس کا گراؤنڈ سیفٹی افسر مطیع الرحمان اور اس کی فیملی غائب تھی
شام گئے مطیع کی لاش آئی تو
بیس کے افسران کراچی میں بھارت کے قونصل خانے سے مسز مطیعُر اورکم سن بیٹیوں کو واپس لے آئے کہ افسر کی آخری رسومات میں شرکت کرسکیں۔ اگلے دن نمازِ جنازہ ادا کرکے فلائٹ لیفٹیننٹ مطیع الرحمان کو پی اے بیس مسرور میں دفنا دیا گیا۔ مشکوک حالات میں فرار کی کوشش کرنے والے ایک بنگالی افسر کو بیس کے فوجی قبرستان میں جہاں شہید دفن ہیں جگہ نہ ملی۔ عالمِ مسرور سے بیس کی مین روڈ شارع مسرور پر واپس آئیں تو مشرق کی سمت تھوڑا آگے جاکر برلبِ سڑک ایک اور نسبتاً بڑا قبرستان ہے جہاں کبھی یہاں موجود گاؤں کے مکین اور اب بیس کے سویلین عملے کے ملازمین سپردِ خاک کیے جاتےہیں۔
یہیں ایک قطعۂ زمین مطیع الرحمان کی آخری آرامگاہ ٹھہرااوریہیں دفن ہونےکےلگ بھگ تئیس سال بعدبنگلہ دیش سےاپنے شوہرکے ساتھ آئی ماہم مطیعُرخوندکر نےاپنےوالدکی قبر پر حاضری دی۔ پی اے ایف بیس مسرورکے غیرفوجی قبرستان کےایک ویران قطعےمیں ایک غدارکےمدفن پرکس کو پڑی تھی کہ پئے فاتحہ آئے،
دوچارپھول چڑھائےیاپھرشمع ہی جلاتاجائے۔ مس خوندکرنےاس بیکسی کےمزارپرفاتحہ پڑھی تووطن واپس پہنچ کرحکومت کو درخواست دی کہ آزادی کےہیرو اس کےشہید والدکو ایک اجنبی بے مہرملک کی لاوارث قبر سےواپس بنگلہ دیش لایا جائے۔ مگرابھی دو ’برادراسلامی ملکوں‘ کےجدائی کے زخم ہرے اور نفرت جوان تھی۔
عزیز قارئین جسے ایڈیٹر ہلال نےمنافق لکھا اور جسے ہم پاکستانی وطن فروش غدار کے نام سےجانتے ہیں، اس مطیع الرحمان کے متعلق ہماری معلومات ملکی سلامتی کے رازوں کی چوری اور ملک سے غداری تک محدود ہیں۔ فروری 1945 کو مشرقی بنگال کے ایک متوسط اور کثیرالعیال خاندان میں آنکھ کھولنےوالامطیع، ساتویں جماعت میں پی اے ایف سکول سرگودھا میں داخلہ ملنے پر مغربی پاکستان آگیا تھا۔
1961 میں اس نے رسالپور اکیڈیمی میں پاکستان ایئر فورس کے چھتیسویں جی ڈی پی کورس میں شمولیت اختیار کی اور 1963 میں بطورپائلٹ آفیسر کمیشن حاصل کیا۔ اکیڈیمی مطیع الرحمان کو ایک اچھے ایتھلیٹ، تیراک اور کھلاڑی کےحوالے سے جانتی ہے۔ سرگودھا اور پشاور میں پوسٹنگ کے بعد فلائٹ لیفٹیننٹ مطیع الرحمان ایئر فورس اکیڈیمی میں فلائنگ انسٹرکٹر تعینات ہوا۔ پاکستان ملٹری اکیڈیمی کےپلاٹون کمانڈر کی طرح یہ ایک کیرئیر پوسٹنگ سمجھی جاتی ہے۔
انیس سو اکہترکے پرآشوب سال مطیع الرحمان پی اے ایف بیس مسرور کے نمبر دو سکواڈرن میں جیٹ کنورژن ٹریننگ انسٹرکٹر تعینات تھا تا آنکہ مارچ کے مہینے میں جب مشرقی بازو میں آپریشن سرچ لائٹ کا عفریت بنگالیوں پرپل پڑا تو مغربی بازو میں جہاں بنگالی افسر غیر مسلح کردیے گئے ویسے ہی بیس مسرورپر تعینات تمام بنگالی پائلٹوں کو گراؤنڈ کردیا گیا۔ ان میں ہمارا انسٹرکٹر مطیع الرحمان بھی شامل تھا۔ انٹرنیٹ پر مکتی باہنی کی ایک ویب سائٹ یہ دعویٰ بھی کرتی ہے کہ سن اکہتر کے شروع کے مہینوں میں جنوری سے اپریل تک مطیع الرحمان چھٹی پر ڈھاکہ میں تھا اور مکتی گوریلوں کے ساتھ چھاپہ مار کارروائیوں میں بھی شامل رہا۔ گوکہ اس کی تصدیق یا تائید ہم نہیں کرسکے مگر یہ دعویٰ قرینِ قیاس معلوم نہیں ہوتا۔ جو ہم جانتے ہیں وہ یہ ہے کہ مارچ کے بعد کے مہینوں میں بیس مسرور کے بنگالی پائلٹوں میں بے چینی ضرور تھی۔ کچھ مشرقی بازو سے آتی خبروں کے کارن اورکچھ اس وجہ سےبھی کہ ایک ناکردہ جرم کی پاداش میں محض شک کی بنیاد پر وہ سارے گراؤنڈ کردیئے گئے تھے۔ چھُپ چھُپ کر کچھ ملاقاتیں ضرور رہی تھیں جنکا ذکر اس وقت کے بنگالی پائلٹوں نے بعد ازاں ایئرکموڈور قیصر طفیل سے کیاجسکاذکر وہ راشد منہاس پراپنے مضمون میں بھی کرتےہیں۔ اس ساری صورتحال میں مطیع الرحمان کو گراؤنڈ ہوئے پائلٹوں کے مقابلے میں ایک فوقیت یہ حاصل تھی کہ گراؤنڈ سیفٹی آفیسر ہونے کی حیثیت سے وہ واحد بنگالی افسر تھا جس کی رسائی بیس مسرور کے ٹارمیک تک تھی۔ کچھ اس کی وجہ مطیع الرحمان کی ’بے ضرر‘ ہونے کی شہرت بھی رہی ہوگی جس کی بنا پرمسزمطیعُر کا مغربی پاکستانی بیگمات کےہاں آنا جانا تھا اورعین ممکن ہےفلائٹ لیفٹیننٹ مطیع الرحمان پر بقیہ بنگالی افسروں کے مقابلے میں بیس کے افسروں کو زیادہ بھروسہ بھی رہا ہو۔ صاحبو ایک بنگالی دل مطیع الرحمان کے جسے میں بھی دھڑکتا تو تھا۔ پیچھے سوناربنگلہ میں اس کے ہم وطن اپنی بقا کی جنگ لڑرہے تھے، اس فوج کے ہاتھوں جس نے انہیں مغربی بازو میں معطل کرکےرکھ دیاتھا۔ آزادی کی جنگ کوپلٹنے کو اس کابھی دل توہوگااور اگرایساقدم ایک پاکستانی جہازبمعہ پائلٹ اغواکرکےاٹھایا جائےتو اس کےخوش کن نتائج ہی ہیجان میں مبتلا کرنےکوکافی تھے۔
بیس مسرورکےبنگالی افسروں کےپاس ملکی سلامتی کو نقصان پہنچاتے کوئی راز نہیں تھے اور نہ ہی انہوں نے کوئی حساس نوعیت کے نقشے مارک کررکھے تھے جنہیں مطیع الرحمان ہندوستان کو فروخت کرنے جارہاتھا۔ وہ پاک فضائیہ کے ایک جہازکو بمع ہواباز ہندوستان میں اتارنے کی نیت سے جہاز میں چڑھا تھا۔ اس دن منہاس کی جگہ کوئی اور پائلٹ ہوتا تب بھی جہاز اغوا ہونے سے نہ روک سکتا۔
رن وے پر جانے کو ٹیکسی کرتے جہاز کو اگر سیفٹی افسر رکنے کااشارہ کرے تو کون ہوگا جو نہ رکے اور اس صورت میں کہ روکنے والا فلائنگ انسٹرکٹر بھی ہو تو کون ہوگا جو اسے جہاز کے پاس نہ آنے دے۔ مطیع الرحمان نے اپنے عہدے اور حیثیت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے پاک فضائیہ کے اعتماد کو دھوکہ دیا۔
کچھ اسی طرح کا برتاؤ بہت بڑے پیمانے پر پاک فوج نے مشرقی بازو میں کیا تھا۔ اپنی پوزیشن اور طاقت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ایسٹ بنگال رجمنٹ اور ایسٹ پاکستان رائفلز کے سپاہیوں کے اعتماد کو دھوکہ دیا تھا۔ ایک آپسی جنگ میں غداری اور جوانمردی برابر کے پلڑے میں تلنے والے دو باٹ تھے۔
ٹھٹھہ سے آگے گوٹ احمد شاہ کی فضاؤں میں جہاز کی اگلی اور پچھلی سیٹوں کے کنٹرول سنبھالے ایک مومن اور منافق اپنے اپنے ایمان اور حب الوطنی کی بقا کی جنگ لڑرہے تھے۔
15 دسمبر 1973 کو ایک آزاد مملکت بنگلہ دیش نے فلائٹ لیفٹیننٹ مطیع الرحمان کی وطن کی خاطر دی قربانی کے اعتراف میں اپنے شہید ہواباز کو بہادری کے سب سے بڑے اعزاز بیر سریشٹو سے نوازا جو ہماری فوج میں دیئے جانے والے نشانِ حیدرکے مساوی ہے۔ بعد ازاں جیسور کی ایئرفورس بیس کا نام مطیع الرحمان کے نام پر تبدیل کردیا گیا۔ 2003 کا ذکر ہے جب بنگلہ دیش کی حکومت نے آزادی کی جنگ میں کام آئے بہادری کا سب سے بڑا اعزاز حاصل کرنے والے سات بیرسریشٹو سپاہیوں کی یادگاریں ان مقامات پر بنانے کا فیصلہ کیا جہاں وہ شہید ہوئے تھے۔ ان میں سےفلائٹ لیفٹیننٹ مطیع الرحمان کی یادگار ڈھاکہ میں بیجوشرانی میں بنانے کا فیصلہ ہوا کہ بنگلہ دیش کے اس سپوت کی جائے شہادت پاکستان میں تھی۔
یہ تب کی بات ہےکہ مسز ملی رحمان نے1994 میں اپنی بیٹی کی حکومت کودی گئی درخواست کی طرف دوبارہ توجہ دلائی۔ اورتب کچھ یوں ہواکہ 2006 میں سفارتکارانہ تعلقات میں بہتری کی جانب اٹھائےگئےقدم میں حکومتِ پاکستان نے مطیع الرحمان کی باقیات کو بنگلہ دیش منتقل کرنے کی سرکاری اجازت دےدی۔
ڈھاکہ سے کراچی آئے وفد کی نگرانی میں فضائیہ کےافسروں اور خطیب نےایک آخری مرتبہ فاتحہ پڑھتے ہوئے شارع مسرورکے پہلو سے لگی ایک چھوٹی پہاڑی کے دامن میں واقع قبرستان میں مزدوروں کو قبرنمبر 01 کی قبرکشائی کی اجازت دے دی۔
2006 کے جون میں بنگلہ دیش کےجھنڈے میں لپٹی ان کے سپوت کی باقیات ڈھاکہ پہنچیں تونیشنل پریڈ سکوائر میں عوامی پذیرائی اورنمازِ جنازہ کےبعدمسز ملی رحمان اور ان کی چھوٹی بیٹی کی موجودگی میں پورے فوجی اعزاز کے ساتھ فلائٹ لیفٹیننٹ مطیع الرحمان شہید بیر سریشٹو کو شہیدبُدھیجیبی کوبرستان جسےمارٹائرڈانٹلکچوئل گریویارڈ بھی کہتےہیں میں سپردِخاک کردیاگیا۔
مسرور کی ایک لاوارث گور کے مکین کو بالآخر اس کی اپنی سرزمین میں آزادی کے شہید کے رتبے کے حسبِ حال مزار نصیب ہوا۔
بیس مسرور کی اس ریتلی رات میں ساحلی نمک کا ذائقہ ہونٹوں پر لیے ہم جس تربت کو کھوجتے تھے وہ اب وہاں نہیں تھی۔
ایک پرآشوب اکہتر کے اگست کی بیس تاریخ کی دوپہر شاہ بندر کی ساحلی پٹی سے کچھ ادھر گوٹھ احمد شاہ کی فضاؤں میں ایک ہی جنگی جہاز کی نشستوں پر لڑی کنٹرول کی جنگ دو پائلٹوں کی بقا کی جنگ تھی، جس کا پانسہ راشد کے ہاتھ رہا۔
ایک بے جگری سے لڑے دونوں سپوتوں کو ان کی اپنی حکومتوں نے بہادری کے اعلیٰ ترین اعزازات سے نوازا، دونوں ملکوں نے فضائیہ کی ایک ایئر بیس اپنے شہیدوں کے نام کی اور انجام کار ایک حکومتی درخواست کو قبول کرتےہوئے ایک شہید کی باقیات کو اس کے موجودہ وطن روانہ کردیا گیا۔ اپنے لوگوں کے لیے دونوں شہید ایک دوسرے کے لیے غاصب اور غدار ٹھہرتے ہیں۔
صٓاحبو پچھلی صدی کے آخری عشرے کے ابتدائی سالوں میں بنگلہ دیش اور پاکستان کے باہم مل جانے کی آس رکھتے پروفیسر وصی ہوں، یا آج کل کے دونوں ملکوں کی دوستی کا دم بھرتے جانکار شہری۔ سوال یہ اٹھتا ہے کہ 2006 میں ایک قبرکشائی کےبعد باقیات کو بنگلہ دیش بھیجنے کے مقابلے میں کیا ہم بیرسریشٹوفلائٹ لیفٹیننٹ مطیع الرحمان کامزاراس دھرتی پرکھڑا کرنےکی اجازت دےدیتے؟
کیا آج کےبنگلہ دیش میں بوگرہ کےفائر سٹیشن کےمقابل قبرستان کی ایک بےنامی قبرمیں دفن اکہتر کی پاک بھارت جنگ میں ھِلّی کےہیرو میجر محمد اکرم شہید، نشانِ حیدر کا مزار سونار بنگلہ میں بن سکتا ہے؟
ـــ