(Last Updated On: )
ہوئی ان سے محبت، تو پھر خوب ہوا
مضطرب ہو گئی طبیعت، تو پھر خوب ہوا
دل کی دہلیز پہ، خلوتوں نے دستک دی
طویل ہوگئی فرقت، تو پھر خوب ہوا
بالیقیں! دل آئینہ وفا کا ہے
ملی نہ دل کو رفاقت، تو پھر خوب ہوا
آسماں پہ کڑکتی ہوئی،بجلی کی طرح
آرزو بن گئی حسرت،تو پھر خوب ہوا
اب مجیب!کہوں اور کیا اپنے دل کی؟
ملی نہ مجھکو یہ وصلت،تو پھر خوب ہوا
****