(Last Updated On: )
’’بیماری یا روحانی تجربہ‘‘کی ای بک اکتوبر 2020 ء میں ریلیز کیے جانے کے بعد
اہم ادباء اور قارئین کی طرف سے موصولہ چندتاثرات
ڈاکٹر عامر سہیل (ایبٹ آباد)
بیماری یا روحانی تجربہ
مجھے جناب حیدرقریشی کے فکروفن کو بہت قریب سے دیکھنے کا موقعہ ملا ہے۔اس کی تین وجوہات ہیں۔پہلی وجہ تو ان سے براہِ راست کچھ ملاقاتیں ہیں جو ان کے قیام ایبٹ آباد کے دوران ہوئیں اور ان کی ادبی شخصیت اور ادبی مصروفیات کا اندازہ ہوا،پھر ’’اوراق‘‘کے حوالے سے مجھے جہاں اور ادیبوں کی تحریروں کو تسلسل سے پڑھنے کا موقعہ ملاوہاں قریشی صاحب کے انشائیے،تنقیدی مضامین،شاعری اور افسانے دل لگا کر پڑھے۔پھرماہیا نگاری کے حوالے سے قریشی صاحب کے معرکے اردو ادب میں ایک بڑی تحریک بن کر سامنے آئے جن سے میری خاص دلچسپی تھی۔ آخری بڑی وجہ یہ ہے کہ مجھے ان کی ادبی خدمات پر باضابطہ تحقیق کا موقعہ بھی ملاجس کی وجہ سے قریشی صاحب کا وژن مجھ پر منکشف ہوا۔مجھے ان کی تحریریں پڑھ کر ہمیشہ یہ احساس ہوتا تھا کہ وہ روحانی،کشفی اور وجدانی معاملات کو اپنی زندگی کا قیمتی اور لائقِ توجہ جزو سمجھتے ہیں۔ان کے افسانوں کے علاوہ خاکہ نگاری اور پھر کھٹی میٹھی یادوں میں بھی اس موضوع پر کافی سرمایہ موجود ہے۔اس موجودہ کتاب (بیماری یا روحانی تجربہ)کو اگر ان کی تمام تخلیقی سرگرمیوں کے تناظر میں دیکھا جائے تو ان کی شخصیت اور ادبی بصیرت کا جامع منظر نامہ سامنے آجاتا ہے۔روحانی تجربہ اپنی نوعیت میں یکسر انفرادی اور موضوعی ہے اس لیے ہر شخص کے تجربات دوسروں سے مختلف اور معنی خیز ہیں۔ میں تو روحانی تجربات کو روح کا فرنیچرکہتا ہوںجو انسان کی زندگی میں سہولت اور خوبصورتی کا باعث بنتا ہے۔یہ کتاب پڑھنے کے بعد مجھے احساس ہوا کہ قریشی صاحب کی زندگی میںجو بار بار انوکھے اور اچھوتے واقعات پیش آتے ہیںاس کی وجہ سے ان کی زندگی کا سکھ چَین بڑھا ہے اور ہمیشہ اس سے بڑا فائدہ ہی پہنچا ہے۔یہ اطمینان قلب اور اسباب میں اضافہ کوئی معمولی شئے ہر گز نہیں۔بیماری کے دوران ہونے والے روحانی تجربات نے قریشی صاحب کی ساتویں حس بیدار کر دی ہے۔یہ کتاب پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ انسان کو کائناتِ اصغر اسی لیے کہا گیا کہ یہ بھی ایک طلسماتی جہان ہے جسے دریافت کرنا خاصا مشکل ہے۔قریشی صاحب باہمت انسان ہیں کہ ایسے واقعات کو کامل یکسوئی اور ادبی ذمہ داری سے پیش کر دیتے ہیں۔اس کتاب کا مطالعہ بار بار کرنا چاہوں گا کیونکہ کچھ مقامات میرے اپنے ذہن میں ابھی بہت واضح نہیں ہیں ممکن ہے دوسری یا تیسر ی قرات میں مزید گتھیاں سلجھ جائیں۔قریشی صاحب کو اتنی شاندار اور فکری امکانات سے بھرپور اور ثروت مند کتاب لکھنے پر مبارک باد پیش کرتا ہوں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قانتہ قدیر (لندن) :بہت ہی مزہ آیا۔ساری بک پڑھ لی ہے۔ایک دفعہ شروع کی ،پتہ ہی نہیں چلا اور ختم ہو گئی۔بہت ہی روحانی حالت تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر رضیہ حامد(بھوپال): بھائی آپ کی نئی کتاب ملتے ہی ایک ہی نشست میں پڑھ لی۔ماشاء اللہ آپ صاحبِ کشف ہیں،سبحان اللہ۔بہت بہت مبارک باد۔اللہ آپ کو صحت و تندرستی کے ساتھ سلامت رکھے۔آمین۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر ریاض اکبر(آسٹریلیا): کمال کی تخلیق ہے ذہن بھی۔اتنا سا ایک پیڑا اور اس میں راستہ بنا کر گزرتے ہوئے برقی رَو کے ہزارہا سگنل اور ان سگنل کے ذخیرے۔
جوگی بن کر چھم چھم ناچوں صاحب کا دیوانہ میں
میں دھرتی تو صاحب سورج ، شمع وہ،پروانہ میں
ماشاء اللہ۔علاج جاری رکھیں۔راس آرہا ہے اور روحانی تجربات اس کے علاوہ ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر محمد عبدالخالق(قاہرہ،مصر): بہت بہت مبارک ہو سر۔۔۔بھیجنے کا بہت شکریہ
فرحت نواز کے کمنٹس اوراستفسار
فرحت نواز (رحیم یارخان):کتاب میں نے پڑھ لی ہے۔بہت دلچسپ لگی ہے اور بہت منفرد بھی۔پڑھنے والے ان تجربوں کو جھٹلا نہیں سکیں گے۔ یہ توجہ کھینچنے والی کتاب ہے،مجھے تو بہت اچھی لگی۔
فرحت نواز:آپ کی کتاب پڑھنے کے بعدسے اس کے مندرجات مسلسل ذہن میں گھوم رہے ہیں
۱۔نومینز لینڈ کو عالمِ ارواح کہہ سکتے ہیں؟
۲۔پڑھنے والے آپ کی باتوں کو کس بنیاد پر جھٹلائیں گے؟
۳۔کیا یہ تجربے ایمان کی پختگی پر منحصر ہیں؟
۴۔ان روحانی تجربوں کے لئے اللہ سے مضبوط روحانی تعلق ضروری ہے؟
اس طرح کے سوال ذہن میں آتے رہتے ہیں۔
جواب از ح۔ق:
۱۔جی بالکل عالمِ ارواح کا پہلا پڑاؤ۔۔۔۔یہاں سے بہت سارے لوگوں کو واپس بھیجا جاتا رہتا ہے۔
۲۔کوئی جھٹلائے بھی تو فرق نہیں پڑتا۔میں نے وہ بیان کیا ہے جو مجھ پر گزرتا رہا۔کوئی فرقہ نہیں بنایا
۳۔خدا پر ایمان کی پختگی تو لازمی ہے،البتہ کسی خاص فرقے یا مذہب سے ہونا لازمی نہیں۔
۴۔روحانی تعلق کیا ہے؟روحانیت کیا ہے؟۔۔انسانی روح کا روحِ اعظم (اللہ تعالیٰ)کی جستجو کا سفر۔۔۔جس کی جتنی جستجو ہو گی اس کے مطابق اللہ میاں اس پر منکشف ہوتا جاتاہے۔منکشف ہونا ہی روحانی تجربہ ہے۔اللہ تعالیٰ جیسا چاہے ویسا تجربہ کرا دے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کولمبس خاں(Noderstadt جرمنی): آپ کی ارسال کردہ کتاب ’’بیماری یا روحانی تجربہ‘‘کا بہت بہت شکریہ۔خاکسار گزشتہ دنوں بیرونی ذمہ داریوں میں کافی مصروف رہا۔مختصراََ عرض ہے کہ آپ کی کتاب کے مطالعے سے اپنے اور بعض دوسرے احباب کے اس سے قدرے ملتے جلتے تجربات پر گفتگو تو ہوتی رہی ہے لیکن جس مدلل انداز سے آپ نے س کے سائینسی پہلوؤں کو سامنے رکھ کرشعوری کیفیت کو قائم رکھتے ہوئے اپنے حواس خمسہ کو کسی چھٹی یا ساتویںحس کے حوالے کرکے ریکارڈ کیا ہے یہ پہلی بار میرے علم میں آیا ہے۔اگرچہ اس سے پیشترمیں نے Near
death experience کا کسی قدر مطالعہ تو کیا ہے لیکن میرے لئے آپ کی گواہی میں جو ثقاہت ہے وہ ایک یقینی علم کا باعث ہے۔
یہ موضوع نہایت دلچسپ ہے۔اس پر ڈسکشن کی بھی ضرورت ہے۔اور ان کیفیات کو تصورمیں خود پروارد کرکے کسی حد تک مزید سمجھنے کی کوشش کی جا سکتی ہے۔
دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کو صحت و سلامتی کے ساتھ کام کرنے والی زندگی سے نوازے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وقاص سعید(آسٹریلیا): ماشاء اللہ ، سر بہت بہت مبارک ہو۔
سرت دی سوئی،پریم دے دھاگے،پیوند لگے ست سنگے
کہے حسین فقیر سائیں دا تخت نہ ملدے منگے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زارا حیدر (بدین): بہت اچھا لگا پڑھ کے۔سر نے جو شو کی بات کی ہے،کبھی کبھی زندگی کے کچھ واقعات ایسے ہوتے ہیںکہ لگتا ہے یہ سب پہلے ہو چکا ہے۔شاید وہ انسان کے لا شعور میںپہلے سے نقش ہوتا ہے اور اس کی جھلکیاں وقتاََ فوقتاََ نظر آتی رہتی ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر راحیلہ خورشید(مظفرآباد): سر زبردست۔۔آپ سے کام کرنے کی تحریک ملتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عبداللہ جاوید(کینڈا)
حیدرقریشی کا کتابچہ ’’بیماری یا روحانی تجربہ‘‘
حیدرقریشی نے اپنے کتابچے’’بیماری یا روحانی تجربہ‘‘ کا تعارف کچھ اس طرح کرایا ہے کہ اس کے مشمولات کا دائرہ وسیع سے وسیع تر ہوگیا ہے۔ساتھ ہی قاری کو اس کے مطالعے میں شریک کرتے ہوئے اس کے ذہن کو کھلی چھٹی دے دی گئی ہے کہ وہ اس سے اپنی مرضی اور پسند کے مطابق مفاہیم کا استخراج کرے۔وہ کمال سادگی سے اپنے پہلے فقرے ہی میں اہم نکات سمیٹنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔مذکورہ نکات میں درج کئے دیتا ہوں۔
۱۔انہیں کچھ پیش آیا۔
۲۔انہوں نے کوئی روحانی تجربہ کیا ہے۔
۳۔انہوں نے دونوں کو جہاں تک بیان کرنا ممکن تھا بیان کر دیا ہے۔
اپنے دوسرے فقرے میں وہ جو کچھ پیش آیا اور جو روحانی تجربہ انہوں نے کیا ہے،اس کو عام سا کشف نہیں بلکہ ایک نادر کشف خیال کرتے ہیں۔یہ کشف انہیں اس خیال سے نادر معلوم ہوتا ہے کہ اس کشف میں ان کو ان کا جسم بھی شریک محسوس ہوتا ہے۔اپنے اس تجربے،پیش آنے والے واقعے کوکشف،نادر کشف کا درجہ دینے کے بعدحیدرقریشی اس کو اپنے دادا جی اور ابا جی کے تجربات سے جوڑتے ہوئے یہ بھی کہتے ہیںکہ ان کا تجربہ ایک روحانی تجربہ تھااور انہوں نے اپنے تجربے میں اپنے پڑھنے والوں کو شریک کیا ہے۔
حیدرقریشی نے قاری کو اختیار دیا ہے کہ وہ اس واقعے یا تجربے کو روحانی تجربہ قرار دے یا بیماریوں کا اثر یا دواؤں کا ری ایکشن سمجھے۔حیدرقریشی نے اس سے آگے اپنی کتاب’’کھٹی میٹھی یادیں‘‘سے ایک اقتباس شامل کیا ہے،اس کا لبِ لباب یہ مندرجہ ذیل فقرہ ہے۔
’’ میر ا شروع سے یہی خیال رہا ہے کہ سائنس خدا کی نفی کرتے ہوئے اسی کی طرف جارہی ہے،مذہب روحانی طور پر اسی کی طرف سفر کراتا ہے اور ادب بھی جمالیاتی سطح پر اسی حقیقتِ عظمیٰ کی طرف سفر کرتا ہے۔‘‘
مندرجہ بالا اقتباس شامل کرکے حیدر قریشی نے اپنے زیر تذکرہ واقعے یا روحانی تجربے کواپنی فکری زندگی کے ماضی سے ہم رشتہ کر دیا ہے اور خوب کیا ہے۔اسی طرح انہوں نے اس سے آگے اپنے خاکوں ’’برگد کا پیڑ‘‘ اور ’’ڈاچی والیا موڑ مہار وے‘‘ سے موزوں اقتباسات شامل کرکے اپنی کتاب کی تفہیم میں آسانیاں پیدا کر دی ہیں۔یہ خاکے 1986 اور 1990 کے درمیان لکھے گئے ہیں۔حیدر قریشی نے اصرار کے ساتھ یہ لکھا ہے۔
’’ میرا تجربہ خواب نہیں جیتے جاگتے،پورے ہوش و حواس کے ساتھ تھا۔۔۔میں ایک ہی وقت میں اپنے سارے بچوں کے ساتھ بھی بات کر رہا تھا اور دوسری دنیا میں بھی موجود تھا۔بچے میری کیفیت کو میرا آخری وقت شمار کر رہے تھے۔میں بھی پہلے یہی سمجھا تھا لیکن دوسری دنیا میں پھر جو کچھ ہوا وہ چار دنوں پر پھیلا ہوا ایک انوکھا روحانی تجربہ بن گیا۔‘‘
حیدر قریشی نے فرحت نواز کے خواب کو اپنی کتاب میں شامل کیا ہے اور اس کو خواب ہی بتایا گیا ہے۔اس خواب کے شمول سے قاری کو روحانی وقوعے،تجربے اور خواب کے تقابلی موازنے کی سہولت دستیاب ہو گئی ہے۔اس خواب کے شامل کرنے سے کتاب میں اسرار سے معمور سہی لیکن قدرے خوش آئند عنصرآمیز ہو گیا ہے اور کتاب ادبِ عالیہ کے دو اہم بوطبقائی لوازمات ’’انسٹرکشن‘‘ اور ’’انٹرٹین منٹ‘‘ کی حامل ہو گئی ہے۔
کسی واقعے کا وقوع ہونا یا پیش آناغیر اختیاری ہے،ہو جاتا ہے،لیا نہیں جاتا۔حیدرقریشی نے ابلاغ کے معاملے میں ایک کارِ نمایاں سر انجام دیا ہے۔یہ کوئی معمولی تحریر نہیں ہے۔یہ ایک سے زائد قرأت کا مطالبہ کرتی ہے۔
آئیے ایک بار پھر پڑھیں!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شہناز خانم عابدی(کینڈا)
تاثرات
جناب حیدر قریشی صاحب السلام علیکم
آپ کی کتاب ‘‘بیماری یا روحانی تجربہ‘‘پڑھی۔کتاب اتنی دلچسپ ہے کہ ایک دفعہ پڑھنی شروع کریں تو چھوڑنے کو دل نہیں چاہتا۔لیکن طبیعت کی خرابی کی وجہ سے میں نے اسے دو مرتبہ میں مکمل کیاہے۔
کوئی شخص جب بیمار ہوتا ہے تواسے ایک تو بیماری کی تکلیف اور دوسری اس کے ساتھ کی پریشانیاں،جیسے تشخیص وغیرہ کے مسائل میں الجھا رہتا ہے۔آپ بہت با ہمت آدمی ہیں کہ اتنے مشکل حالات میں بھی آپ نے قلم و قرطاس کا رشتہ نہیں چھوڑا۔
آپ نے اپنے تجربات،اپنے دادا جی اور اپنے والد صاحب کے تجربات کا بہت اچھے پیرائے میں تذکرہ کیا ہے۔آپ کے جذبات،آپ کے الفاظ دل میں اتر جاتے ہیں۔زندگی بھی کتنی عجیب چیز ہے،کیسے کیسے واقعات اور تجربات سامنے آتے ہیں۔ہر وہ شخص جو سچے دل سے لا الہ (الا اللہ)پر یقین رکھتا ہے اور وہ اللہ کو پانے کی چاہ بھی رکھتا ہے،جستجو بھی کرتا ہے،کوئی آپ کی منزل تک پہنچتا ہے،کوئی نہیں۔
میری طرف سے آپ کو ایک اچھی کتاب کے لئے بہت بہت مبارکباد!
اللہ تعالیٰ آپ کو صحت کے ساتھ لمبی زندگی عطا فرمائیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ف س اعجاز (کلکتہ) : پیش کش بہت عمدہ ہے۔عنوان کے بعدمتن دیکھا تو نئی مقصدیت کا احساس ہوا۔مبارک ہو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
یعقوب نظامی (بریڈفورڈ،برطانیہ)
تاثرات
آج اتوار کو چھٹی کا دن تھا۔میں صبح سے آپ کے ساتھ ساتھ سفر کر رہا ہوں۔آپ کی کتاب’’بیماری یا روحانی تجربہ‘‘تو کافی دنوں سے وٹس ایپ کے ذریعے مل گئی تھی،جس پر گروپ میں کچھ احباب نے رائے بھی دی لیکن میں پڑھے بغیررائے کا اظہار کرنے کا قائل نہیں۔
آپ کی کتاب کو میں نے تفصیل کے ساتھ پڑھا اور اس موضوع پر غالباََ پہلی کتاب پڑھی۔
اس سے ملتے جلتے واقعات میں نے سنے تو تھے لیکن انہیں افسانہ یا کہانی قرار دیا۔ایک بار جیو ٹیلی ویژن پرغالباََ سامعہ خان نامی ایک خاتون جو پامسٹری کی بھی ماہر ہیں،نے اپنے بارے میں بتایا کہ وہ اب تک دو بار مر کر زندہ ہو چکی ہیں۔ایک بار تین چار سال کی عمر میں ،دوسری بار جوانی میں۔
اس نے بتایا تھا کہ میری روح نکل کر چھت کے ساتھ ملحق ہو گئی اور میں اپنی لاش کو بستر پر دیکھ رہی تھی۔لیکن میں اس جہاں سے ابھی نہ جانے کے لئے بضد تھی۔پھر ساتھ لے جانے والوں نے کچھ مشورہ کیا اور مجھے واپس بھیج دیا۔
آپ کے خاندانی روحانی تجربات بہت ہی دلچسپ ہیں۔دادا جان اللہ رکھا قریشی اور اللہ رکھا کمہار کا واقعہ حیرت انگیز ہے۔یہ سچ ہے کہ موت کا دن مقرر ہے،لیکن آپ کے دادا جان کو غسل دینے اور کفن پہنائے جانے کے باوجود اسی دنیا میں مزید زندگی گزارنے کا موقعہ ملا اور پھر آپ کے والدِ گرامی کا واقعہ جنھوں نے روشنی میں بزرگوں کو دیکھا،کرامات کو ظاہر کرتی ہے۔
قرآن پاک میں سورہ نور میں ارشادِ خداوندی ہے:
اللہ آسمانوں اور زمین کا نور ہے۔اس کے نور کی مثال ایسی ہے جیسے ایک طاق میں چراغ رکھا ہوا ہو۔چراغ ایک فانوس میں ہو۔فانوس کا حال یہ ہو کہ جیسے موتی کی طرح چمکتا ہوا تارا۔
انسانی روح بھی اللہ تعالیٰ نے اپنی طرف سے پھونکی ہوئی ہے۔روح کی حقیقت سمجھنے کے لئے ہمارے پاس ابھی تک کوئی علم نہیں لیکن اس سے قریب تر اگر کوئی چیز ہو سکتی ہے تووہ روشنی سے تشبیہ دی جا سکتی ہے۔آپ کی بیماری اور روحانیت یقیناََ ایک کڑی ہے اور آپ نے دیانتداری کے ساتھ اپنے تجربات کو بیان کیا ہے جسے لا دین بیک جنبش قلم مسترد کر دیں گے،سائنس دان اسے مختلف زاویے سے دیکھیں گے لیکن اہلِ ایمان اور قرآنی علم کے حامل لوگ اسے اللہ تعالیٰ کا کرشمہ اوران تجربات کو درست قرار دیں گے۔
مجھے بہت خوشی ہوئی کہ بہت سے دانشوروں کے برعکس آپ دین سے نہ صرف جڑے ہوئے ہیں بلکہ باعمل مسلمان نماز ،روزہ اور حج کی سعادت کے ساتھ قرآن فہمی کے حامل ہیں۔
آپ کی بات درست ہے کہ ابھی انسانی دماغ کا دس پندرہ فیصد ہی استعمال ہوا ہے۔جوں جوں یہ
صلاحیتیں بڑھیں گی انسان کو اپنی ہستی کے بارے میں انکشافات معلوم ہوتے جائیں گے جو انسان کو دین سے دوری کی بجائے قریب لائیں گے۔
چند سالوں سے کیمرے کی آنکھ نے انسانی زندگی کو بڑے آسان طریقے سے محفوظ کرنا شروع کر دیا ہے۔اور پھر کمپیوٹر نے ہمارے ریکارڈ کو بہتر طور پر محفوظ اور ایک بٹن دبانے سے مطلوبہ معلومات دستیاب ہو جاتی ہیں، تو میں سوچتا ہوں کہ انسانی ایجاد کردہ کمپیوٹر اگر یہ کمالات دکھا سکتا ہے تواللہ تعالیٰ کے مین فریم سپر کمپیوٹرمیں تو ہر چیز خودبخود محفوظ ہو رہی ہو گی جسے روزِ حشر ایک بٹن دبانے سے ہمارے سامنے لا کر پیش کر دیا جائے گا۔اس طرح جوں جوں سائنس ترقی کر رہی ہے قرآنی تعلیمات مزید واضح ہوتی جا رہی ہیں۔
سورہ نور کی اس آیت پر بات ختم کرتا ہوں کہ۔۔۔
اللہ اپنے نور کی طرف جس کی چاہتا ہے رہنمائی فرماتا ہے۔
یقیناََ اللہ تعالیٰ آپ کو اپنے کرشمات کی جھلکیاں دکھا رہے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خالد یزدانی (لاہور) انھوں نے اپنی نئی کتاب ’’بیماری یا روحانی تجربہ ‘‘ میں اپنی بیماری کی روداد کو جس سچائی سے بیان کیا وہ قابل تعریف ہے ،جہاں تک حیدر قریشی کی نظم ونثر کا تعلق ہے تو پاکستان کے اس بہت اچھے قلم کار کی توصیف پر جتنا لکھا جائے کم ہے۔ انہوں نے کسی صلہ و ستائش سے بے نیاز ہو کر صرف اور صرف دل سے لکھا ہے اور دل سے لکھا دوسروں کے دلوں پر بھی اثر کرتا ہے۔دعا ہے کہ حیدر قریشی کا قلم یونہی رواں دواں رہے اور ہم سب ان کی تحریروں سے مستفید ہوتے رہیں۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مرزا حبیب الرحمن (خان پور) اس سارے معاملے میں آپ کے خاندانی پس منظرجو آپ کے خون میں شامل ہے اس کے بھی اثرات ہیں۔آپ کا نام،خاندان،اعلیٰ تخیل،طویل جدوجہد، بیماری پر صبرواستقامت اورشاید بے چین روح، ان سب کے باعث یہ سب میرے لئے حیران کن نہیں ہے۔۔۔۔۔اگر کوئی دوست میٹافزکس آف حیدرقریشی پر آپ کی تحریروں کی روشنی میں کام کرے توایک اچھی کتاب مرتب ہو جائے گی۔باقی اس کتاب میں فرحت نواز کا ذکر خوشگوار محسوس ہواجو شاید بعد میں تاریخی ادبی حوالے کے طور پر ذکر ہوگا۔۔۔۔مجھے اپنے شہر کے ساتھ محبت ہے۔باپ فیصل آباد کا مغل پنجابی اور ماں مقامی سرائیکی۔مجھے آپ سے عقیدت اس وجہ سے ہے کہ آپ اردو ادب کے آفتاب و ماہتاب بن کر بھی آپ کی تحریروں میں خان پور،سرائیکی ادب،رحیم یارخان نظر آتا ہے۔باقی آپ نے جتنا کام کر لیا ہے اب آپ تواپنے کارہائے نمایاں سے بلھے شاہ کے اس مصرع کا مصداق ہیں۔ بلھے شاہ اساں مرنا ناہی گور پیا کوئی ہور
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نازیہ خلیل عباسی (میران شاہ) تین کونٹینٹ پڑھے ہیں۔روحانیت کیا ہے؟،اباجی اور داداجی کے تجربات اور پیش لفظ۔۔۔آپ پر جو اثرات ہوئے اور آپ جن تجربات سے گزرے وہ بھی کافی دلچسپ ہیں۔آپ کا اسلوب ہمیشہ کی طرح خاصا دلچسپ ہے۔خاص بات کو آسانی،روانی اور بے ساختگی سے کہہ دیتے ہیں،یہی وجہ ہے کہ پڑھتے ہوئے وقت گزرنے کا احساس نہیں رہتا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
راحت نوید (امریکہ)
بیماری یا روحانی تجربہ
’’بیماری یا روحانی تجربہ‘‘ یہ نام ہے اس کتاب کا جسے حیدر بھائی نے’’کتابِ دل‘‘بھی کہا ہے۔ایک بڑے رائیٹر کے بارے میں لکھنا ایک مشکل کام ہے جبکہ ان کے حلقۂ احباب میں بھی بہت اعلیٰ ذوق اور پائے کے ادیب اور شاعر لوگ موجود ہوں اور لکھ رہے ہوں۔
یہ کتاب واقعی پیش آنے والے ایک روحانی تجربے کے بیان پر مشتمل ہے۔اباجی اور دادا جی کے واقعات تو میں نے بھی فیملی کے افراد سے سن رکھے تھے اور حیدر بھائی کی کتابوں میں پڑھ رکھے تھے۔اب ان کا یہ تجربہ مجھے بھی نسل در نسل روحانیت کی منتقلی کی کڑی دکھائی دیتا ہے۔
آج کے دور کے بچے جو سائنس فکشن موویز وغیرہ دیکھتے رہتے ہیں وہ تو شاید اس بات کو بھی کوئی فلم یا ویڈیو گیم سے منسوب کریں لیکن ہم لوگ جنھوں نے اپنے بزرگوں کے واقعات سنے ہوئے ہیں کہکئی دفعہ اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کے ذریعہ اپنے کئی بندوں کی مدد فرمائی۔اور بزرگوں پر کشفی کیفیات بھی طاری ہوئیں،تو ان سب کی روشنی میں میری عقل یہ کہتی ہے کہ یہ یقیناََ روحانی تجربہ ہی تھا۔اور پھر نوید کے ساتھ تین گھنٹے سے زائد مسلسل بات کرنا،میں خود اس کی چشم دید گواہ ہوں۔ایک شخص جو انتہائی سخت بیماری سے پوری طرح اُٹھا بھی نہیں کہاں سے اتنی ہمت لے آیا کہ بلا تکان باتیں ہی کرتا چلا رہا تھا۔
حیدر بھائی کے ہی ایک شعر پر بات ختم کرتی ہوں۔
دنیا کو سمجھائیں کیسے ، آخر کیسے سمجھے
باتیں اپنی سچی،سیدھی اور دنیا ہے گول
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وَتُعِزُّمَن تَشَآء ُ وَ تُذِلّ ُ مَن تَشَآء ُ ط بِیَدِکَ الخَیرُ ط
(اٰل عمران: ۲۷)
حیدر قریشی سے متعلق اب تک ہونے والایونیورسٹی سطح کا تحقیقی کام
۱۔حیدر قریشی شخصیت اور فن۔۔۔۔منزہ یاسمین ( ایم اے اردو کا تحقیقی مقالہ سال ۲۰۰۲۔۲۰۰۰ء)
(اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور،پاکستان)
۲۔حیدر قریشی شخصیت اور ادبی جہتیں ۔۔۔۔ ڈاکٹرعبدالرب استاد (تحقیقی مقالہ برائے پی ایچ ڈی ۲۰۱۳ء)
(گلبرگہ یونیورسٹی گلبرگہ،کرناٹک،انڈیا)
۳۔حیدر قریشی۔حیات وخدمات انجم آراء( ایم فل کا مقالہ سال ۲۰۱۳ء)
(کلکتہ یونیورسٹی،کولکاتا،انڈیا)
۴۔حیدر قریشی کی ادبی خدمات ۔۔۔۔عامر سہیل(تحقیقی مقالہ برائے ایم فل اُردو،۲۰۱۴ء)
(ہزارہ یونیورسٹی،مانسہرہ،پاکستان)
۵۔حیدر قریشی کی شاعری کا مطالعہ ۔۔۔ہردے بھانوپرتاپ ( ایم فل کا مقالہ ،سال ۲۰۱۴ء)
(جواہر لال نہرو یونیورسٹی،دہلی۔انڈیا)
۶۔حیدر قریشی کی افسانہ نگاری کا مطالعہ ۔۔۔رضینہ خان ( ایم فل کا مقالہ سال ۲۰۱۴ء)
(جواہرلال نہرو یونیورسٹی،دہلی۔انڈیا)
۷۔حیدرقریشی کی شاعری کی روشنی میںبیرونی ممالک کی اردو شاعری۔’’ تنقیدی مطالعہ اور ترجمہ‘‘
شعرالمھجرعندحیدرقریشی’’دراسۃ تحلیلیۃ نقد یۃ مع الترجمۃ‘‘
احمد عبدربہ عباس عبدالمنعم (ایم اے کا مقالہ سال ۲۰۱۵ء)۔ازہر یونیورسٹی۔قاہرہ،مصر
یہ مقالہ عربی میں لکھا گیا ہے اور اس کے لیے حیدرقریشی کے چار شعری مجموعوں کا عربی ترجمہ بھی کیا گیا ہے۔
۸۔’مجلہ ’’جدیدادب‘‘کی ادبی خدمات‘‘ از کنول تبسم (ایم فل کا مقالہ۔سال ۲۰۱۸ء)
وفاقی اردو یونیورسٹی۔اسلام آباد
۹۔رسالہ ’’جدیدادب‘‘کی ادبی خدمات ۔تحقیقی و تنقیدی مطالعہ از محمد شعیب
ہزارہ یونیورسٹی۔مانسہرہ۔ (ایم فل کا مقالہ۔۲۰۱۸ء)
۱۰۔جدید ادب میں شائع ہونے والے مباحث۔۔۔۔شازیہ حمیرہ ایم اے اردو کاتحقیقی مقالہ
سال۲۰۰۹۔۔۔۲۰۰۷ء۔اسلامیہ یونیورسٹی بھاولپور ،
۱۱۔حیدر قریشی بہ حیثیت محقق ونقاد۔۔۔۔صغریٰ بیگم ایم فل کا تحقیقی مقالہ
سال ۲۰۱۶،۔۔وفاقی اردو یونیورسٹی اسلام آباد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یونیورسٹی مقالات میں حیدرقریشی کا جزوی مگر اہم ذکر
۱۔اردو میں ماہیا نگاری از ڈاکٹر صبیحہ خورشید
سال ۲۰۰۹ء۔ناگپور یونیورسٹی،ناگپور،انڈیا سے پی ایچ ڈی کا مقالہ
۲۔رحیم یار خان کے جدیدشعراء کا تصورِ محبوب از فرزانہ یاسمین
سال ۲۰۱۷ء ۔نیشنل کالج آف بزنس،ایڈمنسٹریشن اینڈ اکنامکس لاہور،ایم فل کا مقالہ
نیشنل کالج آف بزنس،ایڈمنسٹریشن اینڈ اکنامکس لاہور
۳۔ ـ’’ ضلع رحیم یارخان کے شعراء گو ہر ؔ ملسیا نی ،منور نقوی،حیدر قر یشی کا خصوصی مطا لعہ‘‘ از محمد بلال قادر
ایم فل کا مقالہ۔نیشنل کالج آف بزنس،ایڈمنسٹریشن اینڈ اکنامکس لاہور
۴۔’’خان پور میں اُردو غزل کی روایت کا تجزیاتی مطالعہ‘‘ از نذیر بزمی
ایم فل کا مقالہ۔نیشنل کالج آف بزنس،ایڈمنسٹریشن اینڈ اکنامکس لاہور
۵۔اُردو میں میراجی شناسی کی روایت کا تجزیاتی مطالعہ از ساجدہ پروین پی ایچ ڈی کا مقالہ
علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی۔اسلام آباد۔سال ۲۰۱۴ء
۶۔’’لالۂ صحرا‘‘۔۔۔’’ادب جہاں‘‘۔۔۔’’جدید ادب‘‘کی ادبی خدمات از ثنا اظہر
ایم فل کا مقالہ۔نیشنل کالج آف بزنس،ایڈمنسٹریشن اینڈ اکنامکس لاہور
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ادبی اعتراف
حیدر قریشی کے بارے میںلکھی گئی ا ور مرتب کی گئی کتابیں
۱۔حیدر قریشی فکر و فن مصنف: محمد وسیم انجم
(مطبوعہ ۱۹۹۹ء)ناشر:انجم پبلشرز،کمال آباد نمبر ۳،راوالپنڈی۔پاکستان
۲۔حیدر قریشی فن اور شخصیت
مرتبین :نذیر فتح پوری اور سنجئے گوڑ بولے(مطبوعہ۲۰۰۲ء)
ناشر:اسباق پبلی کیشنز۔پُونہ،انڈیا
۳۔حیدر قریشی کی ادبی خدمات
مرتب:ڈاکٹرنذر خلیق (مطبوعہ ۲۰۰۳ء)ناشر:میاں محمد بخش پبلشرز،خانپور،پاکستان
۴۔حیدر قریشی شخصیت اور فن ۔۔۔منزہ یاسمین کا تحقیقی مقالہ کتابی صورت میں۔
اسلامیہ یونیورسٹی بھاولپور سے ایم اے اردو کاتحقیقی مقالہ ۔سال ۲۰۰۲۔۲۰۰۰ء
ناشر:میاں محمد بخش پبلشرز۔خانپور ۔پاکستان
۵۔حیدر قریشی سے لیے گئے انٹرویوز
مرتب:سعید شباب (مطبوعہ ۲۰۰۴ء) ناشر:نظامیہ آرٹ اکیڈمی۔ایمسٹرڈیم۔ہالینڈ
۶۔ادبی کتابی سلسلہ عکاس حیدر قریشی نمبر ۔۔۔مدیر ومرتب: ارشد خالد
ناشر:عکاس پبلی کیشنز،اسلام آباد (کتاب نمبر ۴۔مطبوعہ اکتوبر ۲۰۰۵)
۷۔حیدر قریشی کی شاعری مرتب:ہردے بھانو پرتاپ
ناشر:ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس۔دہلی۔(مطبوعہ ۲۰۱۳ء)
۸۔حیدر قریشی شخص و عکس مدیر و مرتب:ارشد خالد
ناشر:عکاس انٹرنیشنل اسلام آباد(۲۰۱۴)
۹۔حیدر قریشی کا ادبی سفر عامر سہیل کا ایم فل کا تحقیقی مقالہ کتابی صورت میں
ناشر: سقراط بکس۔ایبٹ آباد۔۲۰۱۵ء
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حیدر قریشی پر ترتیب دئیے گئے گوشے اور مطالعۂ خصوصی
۱۔گوشہء حیدر قریشی مطبوعہ ماہنامہ’’اسباق‘‘پونہ شمارہ:فروری تا اپریل۱۹۹۳ء ۔ایڈیٹر: نذیر فتح پوری
۲۔حیدر قریشی (بطور افسانہ نگار) مطبوعہ ماہنامہ ’’شاعر‘‘بمبئی۔
شمارہ مئی تا دسمبر ۱۹۹۷ء ۔ہم عصر اردو ادب نمبر۔۔۔ ایڈیٹر : افتخار امام صدیقی
۳۔اشاعتِ خصوصی’’دنیائے ادب کا درخشاں ستارہ؍حیدر قریشی‘‘ ہفت روزہ ہوٹل ٹائمز اسلام آباد ۲۲ مئی تا ۲۸ مئی۱۹۹۸۔ مرتبین:اختر رضا کیکوٹی و محمد وسیم انجم
۴۔گوشہء حیدر قریشی مطبوعہ سہ ماہی’’ادبِ عالیہ‘‘وہاڑی۔شمارہ مارچ ۲۰۰۲ء۔ایڈیٹرز:ریاض ہانس
۵۔ خصوصی مطالعہ ’’مہرِامروز‘‘ مطبوعہ ماہنامہ کائنات شمارہ مئی ۲۰۰۴ء
(urdudost.com) ایڈیٹر: خورشید اقبال
۶۔گوشہء حیدر قریشی مطبوعہ ماہنامہ شاعر بمبئی شمارہ نومبر ۲۰۰۴ء ۔ایڈیٹر: افتخار امام صدیقی
۷۔خصوصی مطالعہ سہ ماہی ادب ساز دہلی( تقریباََ۵۰ صفحات میگزین سائزپر مشتمل)
شمارہ:۶،۷،جنوری تاجون۲۰۰۸ء ، ایڈیٹر: نصرت ظہیر
۸۔ خصوصی مطالعہ ’’عمرِ لا حاصل کا حاصل‘‘
مطبوعہ ادبی کتابی سلسلہ عکاس انٹرنیشنل اسلام آباد (کتاب نمبر ۱۰) مدیر: ارشد خالد
۹۔گوشہ بحیثیت محقق و نقاد ،مطبوعہ ،ادبی کتابی سلسلہ عکاس انٹرنیشنل اسلام آباد(کتاب نمبر ۱۱،مئی ۲۰۱۰ء)
مدیر :ارشد خالد
۱۰۔ مطا لعۂ خاص۔ ایک کتاب:’’عمرِ لاحاصل کا حاصل‘‘ ۔
مطبوعہ ادبی کتابی سلسلہ عکاس انٹرنیشنل اسلام آباد۔کتاب نمبر۱۳۔مارچ ۲۰۱۱ء۔ مدیر و مرتب: ارشد خالد
۱۱۔ایک گوشہ حیدر قریشی کے لیے۔دو صفحات پر مشتمل۔ روزنامہ پیغام دہلی شمارہ:۱۰؍مئی ۲۰۱۴ء ،
ایڈیٹر:مطیع الرحمن عزیز
۱۲۔’’ایک گوشہ حیدرقریشی کی تحقیق و تنقید نگاری کے لیے‘‘۔
مطبوعہ عکاس انٹرنیشنل،اسلام آباد،کتاب نمبر ۲۸۔اپریل ۲۰۱۸ء۔مدیرومرتب: ارشد خالد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انٹرنیٹ پرحیدر قریشی کی تمام کتابوں کی پی ڈی ایف فائلز
خود سے پہلے
اباجی اور امی جی۔۔۔۔۔حیاتِ مبارکہ حیدر۔۔۔۔مبارکہ محل
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شعری مجموعے
سلگتے خواب،۔۔ عمرِ گریزاں ،۔۔محبت کے پھول،۔۔دعائے دل ،۔۔درد سمندر ،۔۔زندگی،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نثری مجموعے
روشنی کی بشارت،۔۔۔قصے کہانیاں ،(افسانے)۔۔۔میری محبتیں (خاکے)
کھٹی میٹھی یادیں ،۔ ۔۔ قربتیں،فاصلے(انشائیے)،۔۔۔ سوئے حجاز(سفرنامہ)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تحقیق و تنقید
حاصلِ مطالعہ،۔۔تاثرات، ۔۔مضامین اور تبصرے، ۔۔مضامین و مباحث
ستیہ پال آنند کی بودنی،نابودنی،۔۔ڈاکٹر گوپی چند نارنگ اور مابعدجدیدیت،
وزیر آغا عہد ساز شخصیت،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ماہیا کے حوالے سے تحقیق و تنقید
اردو میں ماہیا نگاری، ۔۔۔اردو ماہیے کی تحریک،
اردو ماہیے کے بانی ہمت رائے شرما،۔۔۔ اردو ماہیا،۔۔۔ ماہیے کے مباحث،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حالاتِ حاضرہ
منظر اور پس منظر،۔۔ ۔ خبرنامہ،۔۔ ۔ اِدھراُدھرسے، ۔۔۔چھوٹی سی دنیا،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حیدر قریشی کی مذکورہ بالا تمام کتابیں،الگ الگ کتاب کی صورت میںاس لنک پر دستیاب ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انٹرنیٹ پرحیدرقریشی کی کتابوں کی پیش کش کا ایک اور انداز
چھ شعری مجموعے ایک جلد میں
’’ قفس کے اندر‘‘
۱۵۲ صفحات کے عوامی ایڈیشن اور ۶۱۸ صفحات کے انٹرنیٹ ایڈیشن دونوں ساتھ ساتھ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
افسانوں،خاکوں،یادوں،انشائیوں اور سفر ناموں پر مشتمل چھ نثری مجموعے ایک جلد میں
’’خواب کے اندر خواب‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اردو ماہیے کی تحقیق و تنقید پر مشتمل پانچ کتابیں ایک جلد میں
’’اردو ماہیا تحقیق و تنقید‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
علمی و ادبی موضوعات پرچھ تنقیدی مجموعے ایک جلد میں
’’ہمارا ادبی منظر نامہ‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پانچ شعری اور چھ نثری مجموعوں پر مشتمل میگزین سائزکتاب
’’عمرِ لاحاصل کا حاصل‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مذکورہ بالا کلیات کی صورت میں حیدر قریشی کی کتابیں اس لنک سے لے سکتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حیدر قریشی کے فن کے حوالے سے مرتب کی گئی اور لکھی گئی کتابیں
اخبار وادبی رسائل کے نمبراور گوشے اوریونیورسٹیوں کے دستیاب تحقیقی مقالات اس لنک پر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔