سر ہاتھوں میں گرائے وہ بس اس کی سلامتی کی دعائیں کیے جارہا تھا۔۔۔۔۔۔ سرخ آنکھیں اٹھائیں اس نے آئی۔سی۔یو کی جانب دیکھا جہاں اسے لیجایا گیا تھا۔
آج صبح ہی کی بات ہے جب وائے۔زی اور زویا ناشتے کی میز پر ناچاہتے ہوئے شزا کا انتظار کررہے تھے جو کہ فضول تھا، مگر پھر بھی ایک موہوم امید تھی انہیں۔۔۔۔۔ سنان اور ارحام شاہ کسی کام کے سلسلے میں فجر ٹائم سے گھر سے غائب تھے۔
کافی دیر انہوں نے انتظار کیا مگر وہ باہر نہ نکلی جسے وہ اس کی ناراضگی سمجھ بیٹھے جب انہیں بچوں کے رونے کی آواز آئی، پہلے پہل تو ان سب نے اسے اگنور کردیا یہ سمجھ کر کہ بچے بھوکے ہوگے مگر جب رونے کی آواز بڑھی تو وہ اس کے کمرے کی جانب بھاگے تھے۔
لاک کھولنے پر جو منظر انہوں نے دیکھا وہ انہیں ہلادینے کو کافی تھا، بیڈ کے قریب وہ زمین پر بیہوش گری تھی۔
زویا اور انعم نے فوراً بچوں کو سنبھالا تھا جبکہ وائے۔زی اسے باہوں میں اٹھائے باہر کو بھاگا۔
“بچوں کا دھیان رکھنا زویا!۔۔۔۔۔” زویا کو ہدایت دیے اس نے شزا کو پچھلی سیٹ پر لٹایا تھا۔
“میں ساتھ چلوں؟”
“نہیں!۔۔۔۔ تم بچوں کے پاس رکو!” اس کا سر تھپتھائے وہ ہسپتال کی جانب نکلا تھا۔
ہسپتال پہنچتے اسے فوراً آئی۔سی۔یو میں لے جایا گیا تھا۔
“پیشنٹ کے ساتھ کون ہے؟” ڈاکٹر کی آواز سن وہ ہوش میں آیا تھا۔
“میں ہوں!” وہ فوراً کھڑا ہوا
“آپ پیشنٹ کے ہسبنڈ ہے؟”
“نہیں میں ان کے ہسبنڈ کا بھائی ہوں!” وائے۔زی نے فوراً اصلاح کی۔
“ان کے ہسبنڈ کہاں ہے؟” ڈاکٹر نے مشکوک نگاہوں سے سوال کیا تھا
“ان کی دیتھ ہوگئی ہے”
“اوہ!” ڈاکٹر کو افسوس ہوا
“انہیں کیا ہوا ہے؟” وائے۔زی نے بیتابی سے سوال کیا
“میرے ساتھ آئیے!” اشارہ کیے وہ اپنے کیبین کی جانب وائے۔زی کو لے گئی تھی۔
“دیکھیے آپ کی پیشنٹ کی مینٹل کنڈیشن اسٹیبل نہیں ہے۔۔۔۔۔ کسی بات کا بہت گہرہ اثر لیا ہے انہوں نے۔۔۔۔۔ نروس بریک ڈاؤن ہوا ہے، اور ان کی کنڈیشن بتارہی ہے کہ یہ پہلی بار نہیں ہوا۔۔۔۔۔۔ پہلے بھی وہ کسی ایسی کنڈیشن سے گزر چکی ہے!۔۔۔۔۔ یہ تو معجزہ ہے کہ اب کی بار وہ بچ گئی۔۔۔۔۔ لیکن اگلی بار کی کوئی گارنٹی نہیں۔۔” ڈاکٹر کی بات سن، سر جھکائے اس نے مٹھیاں بھینچے اپنے اندر بڑھتے اشتعال کو کم کرنے کی کوشش کی تھی۔
“ہوش۔۔۔۔ ہوش کب تک آئے گا اسے؟”
“معلوم نہیں۔۔۔۔۔۔ جیسی ان کی کنڈیشن ہے مجھے تو لگتا ہے وہ خود ہی ہوش میں نہیں آنا چاہتی۔۔۔۔۔ باقی بس دعا کی جاسکتی ہے۔”
“اوکے!” سست قدموں سے باہر نکلتا وہ پاس موجود بینچ پر ڈھے گیا تھا۔
آنکھیں بند کیے اس نے سر دیوار سے ٹکا دیا تھا، کچھ آنسوؤں نکل کر اس کے بالوں میں جذب ہوگئے تھے۔
دماغ ماؤف ہوچکا تھا۔۔۔۔ آج پہلی بار اس کا دل چاہا تھا کہ وہ روئے، چیخیں چلائے۔۔۔۔۔۔۔ ہوش سے بیگانہ اس وجود پر جاکر برسے، اس پر آشکار وہ عشق جو وائے۔زی نے اس سے کیا۔۔۔۔۔۔ مگر وہ سب تو لاحاصل تھا۔۔۔۔۔۔ وہ تو کسی اور کی ہوچکی تھی۔۔۔۔۔ بھلے وہ شخص اب ان کے درمیان میں نا تھا مگر اس کی محبت، اس کا عشق ہمیشہ ان کے درمیان رہنے والا تھا۔۔۔
فون کی بیل پر اس نے آنکھیں کھولے کال رسیو کی تھی جو سنان کی تھی۔
سنان سے بات کرکے اسے شزا کی طبیعت سے آگاہ کرتے وہ کال کاٹ چکا تھا جب معتصیم کی کال رسیو ہوئی تھی۔
شزا کی حالت کے بارے میں آگاہ کرتے وہ اس سے ولیمے پر نا آنے کی معذرت کرچکا تھا
“سوری یار مگر ناممکن ہے آنا!”
“کیا بات کررہے ہو۔۔۔۔۔ کوئ بات نہیں۔۔۔۔۔ اس وقت تمہارا شزا کے پاس ہونا زیادہ ضروری ہے، اسے اس لمحے سب سے زیادہ تمہاری ضرورت ہے!” اسے چند ایک ہدایات سے نوازتا معتصیم کال بند کرچکا تھا۔
چہرے پر ہاتھ پھیرے وہ کنٹین تک کافی پینے گیا تھا جب واپسی پر اسے شزا کی بہتر حالت اور روم میں شفٹ کرنے کی اطلاع دے دی گئی تھی۔
پرسکون سانس خارج کیے وہ روم میں داخل ہوا تھا جہاں ڈھیر ساری مشینوں میں جکڑی، آنکھیں موندے وہ دنیا جہاں سے غافل تھی۔
اس کے پاس کرسی پر بیٹھے وائے۔زی کی نگاہیں اس کے چہرے پر تھی۔۔۔۔۔۔ ایک پل کو توجی چاہا کہ اسے ہلائے، اسے بتائے کہ وہ اس کے لیے کیا معنی رکھتی ہے۔۔۔۔۔۔ اسے کہے کہ وہ بھول جائے اس حماد نامی شخص کو۔۔۔۔۔
“میری محبت کا اتنا امتحان مت لو شزا کہ تمہیں بچاتے بچاتے میں خود ختم ہوجاؤ!” اس کا ہاتھ تھامے وہ بےبسی سے بولا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ولیمے کا فنکشن بہت چھوٹا سا تھا جو بس گھر کے افراد کے درمیان میں معتصیم نے گھر پر ہی رکھا تھا! اس کا ارادہ گرینڈ ریسیپشن کا تھا مگر وہ یہ سب ماورا کے ٹھیک ہوجانے کے بعد کرنا چاہتا تھا، اسی لیے بزنس کو بہانہ بنا کر فلوقت وہ ٹال چکا تھا۔۔۔۔ اپنی کزنز سے باتیں کرتی ماورا کی نگاہیں بار بار بھٹک کر معتصیم کے چہرے پر جاٹھہرتی تھی جو اس وقت اسے سخت مضطرب نظر آرہا تھا۔
“منہ دکھائی میں کیا ملا آپی؟” پھوپھو کی بیٹی نے اشتیاق سے سوال کیا جس پر ماورا نے مسکرا کر اسے برسلیٹ دکھایا تھا۔
“ماشااللہ!۔۔۔۔۔ کتنا پیارا ہے!” اس کی تعریف پر ماورا مصنوئی مسکرا دی تھی۔۔۔۔ تمام تر توجہ ناچاہتے ہوئے بھی اس کی جانب تھی جو اسے وقت جھنجھلایا ہوا تھا۔
تھوڑی ہی دیر میں کچھ رسمیں پوری کرنے کے لیے وہ ماورا کے قریب آبیٹھا تھا۔
“کیا ہوا ہے؟” اس نے سرگوشی نما انداز میں سوال کیا
“کیا ہوا ہے؟” معتصیم نے چونک کر اسی کا سوال اسے لوٹایا
“اتنے پریشان نظر آرہے ہو۔۔۔۔۔ کچھ ہوا ہے؟۔۔۔۔۔۔ سنان بھائی کی فیملی بھی نہیں آئی فنکشن میں ۔۔۔۔۔۔ کل بھی کافی پریشان تھے۔۔۔ کوئی بات ہے تو مجھ سے شئیر کرسکتے ہو!” ماورا کی بات پر وہ مسکرایا تھا۔
“بعد میں” اس کا ہاتھ دبائے وہ بولا تھا جس پر مسکراتے ہوئے اس نے سر اثبات میں ہلادیا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“یااللہ یہ تو بہت برا ہوا۔۔۔۔۔ اب وہ کیسی ہے؟” ماورا افسوس کن لہجے میں بولی تھی۔
“فلحال کنڈیشن اسٹیبل ہے۔۔۔۔۔ بس دعا کرو کہ اللہ اس کی مشکلات آسان کرے” معتصیم سانس خارج کیے بولا تھا
“ان شاءاللہ۔۔۔۔ سب بہتر ہوجائے گا۔۔۔۔۔ ہم جائے گے ملنے اس سے۔” ماورا مسکرائی تھی۔
“ضرور میری جان، مگر اس سے پہلے میں تمہاری اپائنٹمنٹ لے چکا ہوں ڈاکٹر۔۔۔۔۔ کل سے تمہاری تھیراپی ہوگی۔۔۔۔ آں آں۔۔۔ کوئی لفظ نہیں!” اسے منہ کھولتے دیکھ معتصیم نے اس کے لبوں پر انگلی رکھی تھی۔
“اوکے ڈیڈ!” اس تعبداری پر وہ ناچاہتے بھی ہنس دیا تھا۔
“مائی لوو!” اس کی آنکھوں پر لب رکھے وہ بڑبڑایا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گہری سانس خارج کیے اس نے اپنے ٹیسٹ کو ایک نظر پڑھا تھا۔۔۔۔ ٹیسٹ کا ٹائم ختم ہونے میں ابھی گھنٹہ پڑا تھا مگر اسے جلد از جلد گھر پہنچنا تھا۔
میم صبغہ کو ٹیسٹ تھمائے ان کی جانب ایک تھکی سی مسکراہٹ اچھالتی وہ کمرے سے باہر نکل گئی تھی۔
انسٹیٹیوٹ سے باہر نکلتے ہی اسے سامنے کریم گاڑی کے ساتھ کھڑا نظر آیا تھا۔
اس کی جانب بڑھتی وہ گاڑی میں جابیٹھی تھی۔۔۔۔۔ گاڑی ڈرائیو کرتے کریم نے ساتھ بیٹھی زویا پر ایک نگاہ ڈالی تھی جو اسے بہت تھکی تھکی لگ رہی تھی۔
گاڑی ایک جوس کارنر کے سامنے روکے وہ فریش فروٹ جوس خریدے اس کی جانب لایا تھا۔
“پی لو ضرورت ہے تمہیں!” جوس اس کی جانب بڑھائے وہ بولا تھا۔
“آپی کب ٹھیک ہوگی کریم؟۔۔۔۔۔ مجھ سے ان کی یہ حالت دیکھی نہیں جاتی” وہ تھکے ہوئے لہجے میں بولی تھی۔
“وہ جلد ٹھیک ہوجائے گی فکر مت کرو۔۔۔ اللہ ان کا حامی و ناصر ہے!” موڑ کاٹتے اس نے تسلی دی تھی۔
دو ہفتے ہوگئے شزا کو ہسپتال سے ڈسچارج ہوئے مگر وہ مکمل طور پر خاموش ہوگئی تھی۔۔۔ ہمیشہ گم سم رہتی۔۔۔۔۔۔ بچوں کو بھی ٹھیک سے وقت نہیں دے پارہی تھی۔
ڈاکٹرز کے مطابق اس کے دماغ پر کوئی گہرہ اثر ہوا تھا اسی لیے اس کا دماغ سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے مفلوج ہوگیا ہے۔
سنان اور ارحام شاہ بھی دو ہفتوں سے گھر واپس نہ آئے تھے ایسے میں وائے۔زی اور زویا ہی اس کا اور بچوں کا خیال رکھ رہے تھے۔
کریم جو سنان کے ساتھ گیا ہوا تھا اسے بھی سنان نے ضرورت کے تحت واپس بھیج دیا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گھر آتے ہی وہ فریش ہوئے بنا شزا کے کمرے کی جانب بڑھ گئی تھی جہاں انعم بڑی مشکل سے دونوں بچوں کو سنبھالے ہوئے تھی جبکہ شزا ان سے لاپرواہ کھڑکی کے پاس کھڑی نجانے کیا دیکھ رہی تھی۔
“ادھر دو میرے بچوں کو!” وہ دونوں جو انعم کو تنگ کیے ہوئے تھے زویا کے پاس آتے ہی انہیں سکون آگیا تھا۔
مگر یہ بھی وقتی سکون تھا مشعل میڈم کے لیے کیونکہ اسے ہمیشہ وائے۔زی ہی چاہیے ہوتا تھا۔
“کیا مسئلہ ہے بھئی کیوں تنگ کررہے ہو آپی کو؟” بقول انعم کے اسے آنٹی کہلوانا پسند نہ تھا تو زویا بچوں کے سامنے اسے آپی ہی کہتی تھی۔
اس کی بات پر عبداللہ تو ہنس دیا تھا جبکہ مشعل نے منہ بسور لیا تھا۔
“زویا انہوں نے سیریلیک بھی نہیں کھایا!”
“اچھا آپ سب کے لیے کھانا لگاؤ۔۔۔۔۔ یہ خالہ کے ہاتھ سے ہی کھانا کھائے گے۔۔۔۔۔ کیوں بھئی ٹھیک کہا نا؟” ان دونوں کی چھوٹی سی ناک کو چومتی وہ بولی تھی۔
دونوں بچوں کو بےبی چئیر پر بٹھائے وہ دوبارہ کمرے میں داخل ہوتی شزا کی جانب بڑھی تھی۔
کھڑکی کے پاس کھڑی شزا کے لبوں پر ایک جاندار سی مسکراہٹ تھی۔۔۔۔۔ ہاتھ اٹھائے اس نے ہلایا تھا۔
“آپی کس کو دیکھ کر مسکرایا جارہا ہے؟” زویا کی آواز سن وہ پہلے تو وہ ٹھٹھکی مگر ساتھ ہی ایک جاندار مسکراہٹ اس کے لبوں پر در آئی تھی۔
“کسی کو بتاؤ گی تو نہیں نا؟” اس نے دھیمی آواز میں سوال کیا تھا۔
“نہیں بتاؤں گی!”
“وہ، وہ حماد تھا۔۔۔۔۔ ملنے آیا تھا، مگر تم کسی کو بتانا نا۔۔۔۔۔ نہیں تو یہ لوگ مار دے گے اسے۔۔۔۔۔ نہیں بتاؤ گی نا؟” اس کے دونوں ہاتھ تھامے شزا نے آس سے پوچھا تھا۔۔۔۔۔ زویا بےبسی سے اسے دیکھ کر رہ گئی تھی۔
“نہیں بتاؤں گی۔۔۔۔ اچھا چلے آئے کھانا کھا لے!” زبردستی مسکراتی وہ اس کا ہاتھ پکڑے کھانے کی ٹیبل پر لے آئی تھی جہاں انعم عبداللہ کو تو سکون سےسیریلیک کھلا چکی تھی جبکہ مشعل آنکھیں گھمائیں آس پاس وائے۔زی کو ڈھونڈ رہی تھی۔
شزا کو چئیر پر بٹھائے زویا نے اسے کھانا ڈال کردیا تھا جب وائے۔زی کھانے کے لیے وہاں آیا تھا اسے دیکھ مشعل کی آنکھیں روشن ہوئیں تھی اور تیزی سے وہ اس کی جانب لپکنے کی کوشش کرنے لگ گئی تھی۔
“نو مشعل!” وائے۔زی نے اسے آنکھیں دکھائی جن کا زرا اثر نہ لیتی وہ اس کی جانب اپنے ہاتھ بڑھا چکی تھی۔
“زویا۔۔۔۔ مشعل کو مجھے دے دو۔۔ وہ اسے تکلیف پہنچائے گا!” شزا خوف سے بولی تھی۔
اس کی حالت سمجھتے زویا نے مشعل کو شزا کو تھمایا تھا جو اسے خود کے سینے سے لگائے سیریلیک کھلانا شروع ہوگئی تھی جبکہ مشعل کی ابھی بھی کوشش وائے۔زی کے پاس جانے کی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“آرام سے دھیان سے!” اسے اسٹینڈ کی مدد سے چلتے دیکھ معتصیم اس کے ساتھ ساتھ ہی تھا
“بس اب اور نہیں” وہ تھکے ہوئے لہجے میں بولی تھی۔
“بس پانچ منٹ اور۔۔۔۔۔۔۔ پھر آج کی پریکٹیس مکمل ہوجائے گی اوکے” معتصیم کی بات پر ناچاہتے ہوئے بھی اس نے سر اثبات میں ہلایا تھا اور اب لان میں اس کے ساتھ ساتھ وہ چھوٹے چھوٹے قدم اٹھائے چل رہی تھی۔
پانچ منٹ کی مزید واک کے بعد اب وہ دونوں لان میں موجود کرسیوں پر بیٹھے چائے سے لطف اندوز ہورہے تھے۔
کرسی کے ساتھ سر ٹکائے ماورا نے اپنے شوہر کو دیکھا تھا جو سائے کی طرح اس کے ساتھ رہتا تھا۔
آفس کے ساتھ ساتھ وہ ماورا کو بھی سنبھال رہا تھا اور ایسے میں ایک بار بھی اس کے ماتھے پر تھکن کی ایک لکیر تک نہ آئی تھی۔
آفس کا زیادہ تر کام بھی وہ گھر سے ہی کررہا تھا، ہاں ایک چیز جو بدلی تھی وہ تھی اس گھر کی سکیورٹی جو پہلے سے مزید سخت کردی گئی تھی۔
ماورا نے ایک دو بار اس سے پوچھا بھی مگر وہ مکمل طور پر اس کی بات کو ٹال گیا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“آپی کی ذہنی کنڈیشن مزید بگڑتی جارہی ہے بھائی۔۔۔۔ اب تو وہ حماد بھائی کو دل کے اجالے میں تصور کرنے لگ گئی ہے۔۔۔۔۔ ہمیں جلد از جلد کچھ کرنا ہوگا!”
اس کی بات پر وائے۔زی گہری سانس بھر کر رہ گیا تھا۔
“تم بتاؤ جازل وہاں کے کیا حالات ہیں؟” اب وہ جازل کی جانب متوجہ ہوا تھا۔
“مرینہ چوہان پاکستان آچکی ہے اور اب وہ انتطار میں ہے کہ کب تم لوگ شزا کو لے کر باہر نکلو گے اور کب وہ اس سے مل کر ارحام شاہ کو مروادے۔” جازل کی بات پر دوسری جانب ویڈیو کال پر موجود سنان کے لب مسکرائے تھے۔
“تو اسے مرینہ چوہان سے ملوا دو۔۔۔۔۔۔۔ ویسے بھی وقت آگیا ہے کہ اب اس تمام فلم کا ڈراپ سین ہوجائے۔” سنان کی بات سن اس نے سر اثبات میں ہلایا تھا۔
“تم کب واپس آرہے ہو؟” وائے۔زی نے سنان سے سوال کیا تھا۔
“فلحال مشکل ہے۔۔۔۔۔۔ مان کی شادی ہے، اس نے فورس کیا ہے رکنے کے لیے بول رہا ہے!” سنان کی بات پر زویا کے لب فوراً پھیلے تھے۔
“کیوں نا ہم آپی کو بھی شادی میں لے جائے؟۔۔۔۔۔۔۔ ہوسکتا ہے تھوڑی دیر کے لیے ہی مگر ان کا مائنڈ ڈائیورٹ ہوجائے؟” زویا کی بات پر کچھ سوچتے ہوئے جازل مسکرایا تھا۔
“میرے پاس ایک بہت اچھا پلان ہے۔۔۔۔۔ ہم بھابھی کو شادی کی شاپنگ کے حوالے سے مال لیجائے گے، مرینہ چوہان کو میں یہی بتاؤں گا میرے جاسوس نے مجھے اطلاع دی ہے بھابھی کے گھر سے نکلنے کی۔۔۔۔۔۔ اس طرح سے ہم مرینہ چوہان اور شزا کو ملوادے گے؟” جازل کی بات پر سنان نے سر اثبات میں ہلایا تھا۔
“آئیڈیا دونوں کے برے نہیں ہیں۔۔۔۔ میرے خیال سے ہمیں یہ کرنا چاہیے۔۔۔۔ فلحال اسے واقعی میں ایک اچھے ماحول کی ضرورت ہے۔۔۔۔ تو بس ڈیسائیڈ ہوگیا۔۔۔۔ زویا اور وائے۔زی تم دونوں بھی شزا کے ساتھ آرہے ہو!۔۔۔۔۔ باقی پیچھے کا تمام معاملہ کریم سنبھال لے گا۔۔۔۔ ٹھیک ہے؟” سنان کی بات سنتے ان سب نے سر اثبات میں ہلایا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“فہام جونیجو!” کال اٹھائے ارحام شاہ بس اتنا ہی بولا تھا
“کیسے ہو ارحام شاہ۔۔۔۔۔ سنا ہے بچھڑی اولاد سے مل بیٹھے ہو، خاصے مصروف ہو!۔۔۔۔۔۔ اور اوپر سے تمہارے اس چہیتے معتصیم کی شادی بھی تو تھی نا اپنی بچھڑی محبوبہ سے؟۔۔۔۔۔ تمام بچھڑے مل گئے۔۔۔۔۔ واٹ آ لولی ہیپی اینڈینگ!” فہام جونیجو کا میٹھا طنز انہوں نے بخوبی محسوس کیا تھا۔
“کام کی بات کرو جونیجو۔۔۔۔۔۔ کال کیوں کی ہے؟”
“وہ کیا ہے نا ارحام شاہ تمہارے اس چہیتے معتصیم کے پاس کچھ ایسا ہے جو میرا ہے اور وہ مجھے واپس چاہیے۔۔۔۔۔۔ تو بس اس سلسلے میں تمہاری زرا سی مدد درکار ہے مجھے!” وہ ہنس کر بولا تھا
“کیا مطلب کیا ہے اس کے پاس اور کیسی مدد؟” ارحام شاہ چونکا تھا
“ارے کچھ خاص نہیں مجھے بس اس کی بیوی چاہیے۔۔۔۔۔۔ مجھے ماورا آفندی چاہیے جس پر اصولاً حقیقی حق میرا بنتا ہے۔” وہ ہنس کر بولا تھا
“دماغ خراب ہوگیا ہے تمہارا فہام جونیجو۔۔۔۔۔۔ کیا بکواس کررہے ہو” ارحام شاہ فون پر دھاڑا تھا
“آواز نیچی ارحام شاہ۔۔۔۔۔ یاد رکھو کہ تم کس سے مخاطب ہو!” فہام جونیجو کی سپاٹ آواز سن ارحام شاہ زرا سا گڑبڑایا تھا۔
“میں تمہاری کسی قسم کی کوئی مدد نہیں کروں گا فہام جونیجو۔۔۔۔۔ اچھا ہوگا اگر تم اس لڑکی کا پیچھا چھوڑ دو!” ارحام شاہ نے اسے پرسکون لہجے میں سمجھانا چاہا تھا جس پر فہام جونیجو ہنس دیا تھا۔
“مدد تو تمہیں میری کرنا ہوگی ارحام شاہ، نہیں تو معتصیم آفندی کو اس کی زندگی کے اس آدھے سچ سے واقف کروا دوں گا جو تم نے چھپایا ہوا ہے!”
“کیا مطلب کیسا سچ؟” ارحام شاہ کے ماتھے پر پسینے کی ننھی بوندے جگمگائی تھی
“کیا تم نے مجھے بیوقوف سمجھ رکھا ہے ارحام شاہ؟۔۔۔۔۔ تمہیں کیا لگا کہ معتصیم کو اس سچ سے آگاہ کرکے کہ اس کے ماں باپ کو میں نے مارا ہے تم اپنا دامن بچالو گے؟۔۔۔۔۔ اگر سچ یہ ہے کہ میں اس کے ماں باپ کا قاتل ہوں تو سچ یہ بھی ہے کہ تم اس قتل میں برابر کے شریک تھے ارحام شاہ۔۔۔۔۔۔ یہ جو تم نے مجھے ڈبل کراس کرنے کی کوشش کی ہے نا بہت بھونڈی حرکت تھی اور اگر تم نہیں چاہتے کہ تمہیں اس کا جواب ملے تو چپ چاپ میری بات مان جاؤ۔۔۔۔۔۔ وہ لڑکی میرے حوالے کردو۔۔۔۔۔ اور تمہارا یہ راز، راز ہی رہے گا!” فہام جونیجو کی بات سن ارحام شاہ نے گہری سانس خارج کیے بالوں میں ہاتھ پھیرا تھا۔
فہام جونیجو وہ سانپ تھا جسے ڈسنے کا فن ارحام شاہ نے سکھایا تھا اور اب وہ الٹا اسی پر وار کرنے کے در پر آگیا تھا۔
“ٹھیک ہے میں مدد کروں گا۔۔۔۔۔ مگر وعدے کے مطابق تم اپنا منہ بند رکھو گے۔” ارحام شاہ کے لہجے میں بےبسی محسوس کیے فہام جونیجو گہری مسکراہٹ مسکرایا تھا۔
“کیوں نہیں میرے دوست۔۔۔۔۔۔ بلکل ایسا ہی ہوگا۔۔۔۔۔۔ ماورا کے بدلے تمہارا راز۔۔۔۔۔۔۔” فہام جونیجو نے اسے یقین دلوایا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“کیا تمہیں یقین ہے وہ شزا کو لے کر ہی باہر نکلے ہیں؟” مرینہ کی بات پر جازل نے سر اثبات میں ہلایا تھا
“میرا جاسوس کبھی غلط نہیں ہوسکتا!۔۔۔۔ شزا اس گاڑی میں موجود تھی” جازل کے کنفرم کرنے پر مرینہ چوہان کے لبوں پر ایک زہرخند مسکراہٹ در آئی تھی۔
“ویٹ ڈئیر بھانجی۔۔۔۔۔ تمہاری یہ خالا بہت جلد تم سے ملنے آرہی ہے۔” قہقہ لگاتی جازل کو وہ کوئی سائیکو لگی تھی۔
“پلان اے ڈن!” میسج ٹائپ کیے اس نے سینڈ کیا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اپارٹمنٹ میں داخل ہوئے اس نے ہاتھ میں موجود بکس کو ٹیبل پر رکھا تھا، نقاب اتارے وہ کچن کی جانب بڑھی تھی۔۔۔۔۔ پانی پیے وہ صوفہ پر آبیٹھی تھی۔
آنکھیں بند کیے اس نے کچھ لمحوں کے لیے خود کو پرسکون کرنا چاہا تھا۔
فون کی بیل پر آنکھیں کھولے اس نے کال اٹینڈ کی تھی۔
“صبغہ!!” خوشی سے بھرپور آواز اس کے کانوں سے ٹکڑائی تھی۔
“پری!” وہ دھیما سا مسکرائی تھی۔
“کیسی ہو؟” اس نے سوال کیا
“بہت، بہت، بہت خوشششش!!!۔۔۔۔۔۔ گیس واٹ؟۔۔۔۔۔۔۔ میری شادی ہورہی ہے مان کے ساتھ!” اس کی خوشی سے بھرپور آواز سن کر صبغہ بھی ہنس دی تھی۔
“بہت مبارک ہو میری جان!”
“او ہیلو صرف مبارک سے کام نہیں چلے گا۔۔۔ تم آرہی ہو میری شادی پر!” وہ اسے فون سے ہی دھمکی دیتے بولی تھی
“یار!!۔۔۔آئی وش کے میں آسکتی۔۔۔۔ مگر آف نہیں ملے گا۔۔۔۔”
“لسٹن می کئیرفلی مس صبغہ تم میری شادی پر آرہی ہو، اور آرہی کا مطلب ہے آرہی ہو سمجھی!۔۔۔۔۔۔ اب اگر تم نے کوئی ڈرامہ کیا تو مجھ سے برا کوئی نہیں ہوگا!” اس کے لہجے میں موجود وارننگ وہ صاف محسوس کرسکتی تھی۔
“یار پری۔۔۔۔”
“اگر تم نہیں آئی نا تو دیکھ لینا زندگی بھر بات نہیں کروں گی نہ کبھی شکل دکھاؤں گی!” سوں سوں کرتی وہ کال کاٹ چکی تھی۔
صبغہ کا دل چاہا تھا کہ اپنا ماتھا پیٹ لے۔۔۔۔۔
اس کی زندگی کے اس نئے سفر کے لیے صبغہ بہت خوش تھی مگر وہ اس وقت کسی گیدرنگ کے موڈ میں نہیں تھی۔
چودہ سال ہوگئے تھے اسے تنہائی کی یہ زندگی گزارتے ہوئے اور اب تو جیسے عادت ہوگئی تھی۔
مگر پھر بھی وہ ایک شخص بہت یاد آتا تو جو اپنا وعدہ وفا نہ کرسکا۔۔
وہ آج بھی خود کو لندن کے اس گاؤں میں پاتی تھی جہاں اپنے کمرے کی کھڑکی سے اسے لکڑیاں کاٹتے دیکھ وہ کئی گھنٹے ضائع کردیتی تھی اور پھر اس کی سزا بھی پاتی تھی مگر اسے تو جیسے اس کے آنے کے بعد کسی سزا، کسی تکلیف کی پرواہ نہ رہی تھی۔
“سنان!” آنکھیں موندے اس کے لبوں سے یہ نام ادا ہوا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...