’’یہاں کیا ہورہا ہے؟‘‘ تمام نوکروں کو یہاں سے وہاں بھاگتے دیکھ شزا حماد کی جانب مڑی تھی جس نے لاعلمی سے کندھے اچکا دیے تھے۔
’’گڈ ایوینگ ایوری ون!‘‘ لاؤنج میں داخل ہوتے ہی وہ بلند آواز بولا تھا۔
’’ارے تم لوگ آگئے؟‘‘ مسز زبیری حماد کو دیکھ مسکرائی تھی۔
’’جی آگئے۔۔۔۔۔۔ اب آپ بتائیے یہ سب کیا ہورہا ہے؟ یہ اتنی بھاگم بھاگ کیوں؟‘‘ ان کے کندھے پر ہاتھ رکھے، ان کے ساتھ بیٹھے اس نے سوال کیا تھا۔
’’بھئی ہم تو خود لاعلم ہیں!۔۔۔۔ تمہارے ڈیڈ کے کوئی دوست آرہے ہے!‘‘
’’اوکے!‘‘ ان کے جواب پر اس نے سر اثبات میں ہلایا تھا۔
’’میم۔۔۔۔۔۔ وہ شزا کو سر آفس میں بلارہے ہیں!‘‘
میڈ کی بات پر حماد نے شزا کو دیکھا تھا جو مسکراتے لبوں اور محبت بھری آنکھوں سے اسے دیکھے جارہی تھی۔۔۔۔ میڈ کی آواز پر بھی اس کی نظریں حماد پر ہی ٹکی ہوئی تھی۔
’’اے لڑکی!‘‘ مسز زبیری کی پاٹ دار آواز پر وہ ہڑبڑا کر ہوش میں آئی تھی۔
’’جج۔۔۔۔۔۔جی۔۔۔۔۔۔۔؟‘‘
’’جی کی بچی کانوں نے کام کرنا بند کردیا ہے کیا؟ سنائی نہیں دیا؟ شبیر نے بلایا ہے تمہیں جاؤ ان کی بات سنو!‘‘ وہ تڑخ کر بولی تو شزا بھوکلاتی سر اثبات میں ہلائے میڈ کی پیروی کرتی ان کے کمرے تک جا پہنچی تھی۔
’’ماما مت کیا کرے ایسے بات۔۔۔۔۔۔ ہونے والی بہو ہے آ پکی!‘‘ حماد کی بات سنتے ہی ان کا منہ بن گیا تھا۔
’’دیکھ لو اس لڑکی نے ابھی سے میرے بیٹے کو اپنے قابو میں کرلیا ہے۔۔۔۔۔۔‘‘ ان کی بات پر وہ فقط مسکرا کر رہ گیا تھا۔
’’چچی ٹھیک کہہ رہی ہے حماد۔۔۔۔۔۔ نجانے کیوں اس شزا کے پیچھے بھاگتے پھیرتے ہو،۔۔۔حالانکہ اس سے بہتر آپشن ہیں تمہارے پاس!‘‘ عالیہ جل کر بولی تھی۔
مگر حماد اسے سن کہاں رہا تھا۔۔۔۔۔۔ نظریں اس راہ پر ٹکی تھی جہاں سے وہ ابھی ابھی غائب ہوئی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’سر!!۔۔۔۔۔۔ آپ نے بلایا؟‘‘ دروازہ ناک کیے اس نے اجازت چاہی
’’ارے شزا۔۔۔۔ آؤ۔۔‘‘ اسے دیکھ وہ فائل ٹیبل پر رکھتے اس کی جانب متوجہ ہوئے تھے۔
’’جی وہ آپ نے بلایا؟‘‘ دونوں ہاتھوں کو مسلتی نظریں جھکائے اس نے سوال کیا تھا۔
’’تم جانتی ہو میں نے تمہیں کیوں بلایا ہے؟ سوال نہیں پوچھو گا وہ تم جانتی ہو۔۔۔۔۔۔ جواب چاہیے۔۔۔ جس کا مجھے انتظار ہے!‘‘ دونوں بازو سینے پر باندھے وہ پرسکون انداز میں بولے تھے۔
’’کام ٹھیک جارہا تھا۔۔۔۔۔ مگر۔۔۔۔۔۔۔‘‘ ایک نظر ان پر ڈالتے وہ نظریں جھکا گئی تھی۔
’’مگر؟‘‘ ان کے مگر میں وہ انہیں وائے۔ذی نامی اس بلا کے بارے میں سب کچھ بتاچکی تھی۔
’’تو تمہیں کیا لگتا ہے؟ کیا انہیں تم پر شک ہوگیا ہے؟‘‘ شبیر زبیری اب پریشان نظر آرہے تھے۔۔۔۔۔ یہ کلب انہیں ہر حال میں چاہیے تھا۔۔۔۔۔ ان کے اللیگل بزنس کے لیے یہ بیسٹ لوکیشن تھی۔
’’مجھے نہیں لگتا۔۔۔۔ وہ بس ایک سرپھیرا انسان ہے جس کی وجہ سے مجھے مشکل درپیش آرہی ہے!‘‘ شزا نے گہری سانس خارج کی تھی۔
’’ہمم!! نام کیا ہے اس کا؟‘‘
’’کہتا ہے کہ لوگ اسے لیلیٰ کا مجنوں بلاتے ہیں۔‘‘ وہ منہ کے زاویے بگاڑ کر بولی تھی
’’یہ تو واقعی کوئی سرپھیرا ہے۔۔۔۔۔ فکر مت کرو۔۔۔۔ تم اپنے کام پر فوکس کرو۔۔۔۔۔ اسے میں ہینڈل کرلوں گا!‘‘ ان کی بات پر اس نے سر اثبات میں ہلایا تھا
’’سر!! وہ مجھے آپ کو یہ دینا تھا!‘‘ جاتے جاتے وہ پلٹی اور جیکٹ کی جیب میں سے ایک پین ڈرائیوو نکال کر اس نے ان کی جانب بڑھائی تھی۔
’’یہ؟‘‘ پین ڈرائیو اس کے ہاتھ سے پکڑ کر انہوں نے غور سے اسے دیکھا تھا۔
’’اس میں اس کلب میں ہوئے تمام اللیگل بزنسز کی ڈیٹیلز ہیں۔۔۔۔ سوچا آپ کے کام آئے گی!‘‘ وہ دھیما سا مسکرائی تھی
شبیر زبیری نے فورا وہ پین ڈرائیو تھامی تھی۔
’’آؤٹ!‘‘ پین ڈرائیو لیپ ٹاپ میں فٹ کرتے وہ بنا اس کی جانب دیکھ کر بولے تھے جو سر نفی میں ہلائے وہاں سے واک آؤٹ کرگئی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پین ڈرائیو اوپن کیے انہوں نے تمام پیپرز چیک کیے تھے مگر اچانک ان کی انگلیاں تھمی تھی۔ آنکھیں باہر کو نکل آئی تھیں۔
’’یہ؟۔۔۔۔۔۔یہ کیسے؟۔۔۔۔ آہ!! ڈیورڈ۔۔۔۔۔ آئی ول کل یو!‘‘ زور سے لیپ ٹاپ زمین پر مارے وہ چلائے تھے۔
’’اگر یہ زار باہر آگیا تو؟۔۔۔۔۔۔ نن۔۔۔۔۔نہیں۔۔۔۔۔ میں ایسا کچھ نہیں ہونے دوں گا۔۔۔۔۔ تمہیں میں چھوڑوں گا نہیں ڈیورڈ!!۔۔۔۔۔‘‘ وہ غصے سے بڑبڑائے تھے اور ساتھ ہی ایک فیصلہ لیا تھا انہوں نے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈگی میں چھپی وہ نجانے خدا نے اپنے بچ جانے کی کتنی دعائیں کرچکی تھی۔
اگر وہ جیک کے ہاتھ لگ گئی تو نجانے وہ اس کے ساتھ کیا کرتا!۔۔۔۔۔۔۔۔ خوف اس کے پورے بدن میں پھیل گیا تھا۔
’’زویا!!۔۔۔۔۔۔زویا!!َ۔۔۔۔‘‘ جیک کی غصیلی آواز اس کے کانوں سے ٹکڑائی تھی۔۔۔۔ اسے کچھ سمجھ نہیں آرہی تھی کہ وہ کیا کرے
’’سر اس جانب کوئی بھاگا ہے۔‘‘ اس سے پہلے وہ گاڑی کی جانب بڑھتا ایک گارڈ کے بولنے پر وہ دوسری جانب بھاگا تھا۔
’’زویا۔۔۔۔‘‘ وہ اس وقت بےبسی ہی بےبسی محسوس کررہا تھا۔۔۔۔۔۔ ابھی تو جی بھر کر اسے دیکھا بھی نہیں تھا اور وہ غائب ہوگئی تھی۔
’’میں تمہیں ڈھونڈ لوں گا زویا۔‘‘ اس نے خود سے وعدہ کیا تھا جب کہ آنکھیں ہلکی سی نم ہوگئیں تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’چچ۔۔۔۔۔چھوڑو مجھے۔۔۔۔۔۔ میں کہہ رہی ہوں مجھے چھوڑ دو!‘‘ سنان کی گرفت میں مچلتی وہ چلائی تھی۔
زویا جو گاڑی سے باہر نکلنے لگی تھی پاس سے آتی آوازوں کو سن کر دوبارہ اندر چھپ گئی تھی۔
’’یا اللہ یہ کیا ہورہا ہے؟ میری مدد کیجیے!‘‘ اس نے آنکھیں سختی سے میچیں دعا کی تھی۔
’’پپ۔۔۔۔۔پلیز مجھے چھوڑ دو!‘‘ اب کی بار پری منتوں پر اتر آئی تھی۔
سنان شاہ نے کان لپیٹے اس گاڑی میں دھکا دیا اور خود ڈرائیور کے ساتھ فرنٹ سیٹ پر آبیٹھا تھا۔
پری بےبسی سے آنکھیں میچ کر رہ گئی تھی۔۔۔۔۔۔ بچنے کا اب کوئی بھی راستہ اسے نظر آرہا تھا۔
اس نے نم آنکھوں سے اس شخص کی پشت کو گھورا تھا جو اسے کڑوڑوں کی قیمت ادا کیے خرید چکا تھا اپنی مسٹریس کے طور پر۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گاڑی سٹارٹ ہوتے ہی زویا کی آنکھیں خوف سے کھلی تھی۔۔۔۔۔ اس نے ہلتی گاڑی کو دیکھا تھا جو اب اپنی منزل کی جانب رواں دواں تھی۔
وہ جیک کے چنگل سے تو نکل آئی تھی مگر اب کہاں جارہی تھی اسے کوئی آئیڈیا نہیں تھا۔ بس وہ اب دعا ہی کرسکتی تھی کہ اللہ اس کی مدد کرے اور اس کو اپنے حفظ و ایمان میں رکھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بنگلو کے باہر رکتے ہی گاڑی کا دروازہ کھول کر وہ شخص باہر نکلا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔ سوٹڈ بوٹڈ وہ شخص، مسکراتے اس نے آنکھوں سے گلاسز اتاری اور اس شاندار عمارت کو دیکھا تھا۔
’’فہام جونیجو!‘‘ شبیر زبیری مسکراتے اس کی جانب بڑھے تھے اور اسے زور سے گلے لگایا تھا۔
چھبیس، ستائیس سال کا وہ خوش شکل انسان ان کی جانب دیکھ کر مسکرایا تھا۔
اسے اپنی سنگت میں ڈرائینگ روم میں لاتے وہ صوفہ کی جانب بیٹھنے کا اشارہ کرتے خود بھی اس کے سامنے بیٹھ گئے تھے۔
’’جی تو کہیے فہام صاحب کیا خدمت کرسکتا ہوں میں آپ کی؟‘‘ چائے اور سنیکس کے سروو ہونے کے بعد شبیر صاحب اصل مقصد کی جانب آئے تھے۔
فہام جونیجو ذرا سا مسکرایا اور کوٹ کی پاکٹ میں سے ایک لفافہ نکال کر ان کے سامنے رکھ دیا
شبیر زبیری نے حیرانگی سے اس لفافے کو دیکھا اور پھر اسے کھولا تھا۔
اندر موجود تصویر کو آنکھیں چھوٹی کیے انہوں نے گھورا تھا۔
’’یہ کون ہے؟‘‘
’’یہ کون ہے؟ اس سے تمہارا کوئی تعلق نہیں ہونا چاہیے۔۔۔۔۔۔ یہ کہاں ہے؟ اس سے مطلب رکھو۔۔۔۔۔۔۔ اور اسے ڈھونڈو!‘‘ فہام جونیجو کا لہجہ سپاٹ تھا۔
’’کتنا بڑا نقصان کروایا ہے اس نے تمہارا؟‘‘ شبیر زبیری نے دھیما سا مسکرا کر سوال کیا تھا۔
’’تمہارا اس سے بھی کوئی تعلق نہیں ہونا چاہیے‘‘ فہام زبیری نے کندھے اچکائے تھے۔
’’تمہیں اسے ڈھونڈنا ہے اور صحیح سلامت مجھ تک لانا ہے۔۔۔۔۔ اس کی سزا میں خود تعین کروں گا!۔۔۔۔۔ امید ہے میرا کام ہوجائے گا اور تم مجھے مایوس نہیں کرو گے!‘‘ اپنی جگہ سے اٹھتا، کوٹ کو جھٹکا دیے وہ دھیما سا مسکرایا تھا اور قدم باہر کی جانب بڑھائے تھے۔
’’نام تو بتاتے جاؤ‘‘ ان کے پوچھنے پر اس کے قدم رکے تھے۔
’’ماورا عباسی!‘‘ جواب دیتا وہ دہلیز پار کرگیا تھا۔
شبیر زبیری نے دوبارہ اس تصویر کو دیکھا تھا۔۔۔۔۔ جہاں ایک عام سی شکل و صورت کی حامل لڑکی کھڑی مسکرا رہی تھی۔
اس کی مسکراہٹ بہت خوبصورت تھی۔۔۔۔۔ انہوں نے اعتراف کیا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’دیکھیے مسٹر معتصیم جو بات آپ کی پیشنٹ کے چیک اپ کے بعد مجھے سمجھ آئی ہے وہ یہی ہے کہ ڈرگز کی ہیوی ڈوز کی وجہ سے وہ اپنا پاسٹ تقریبا بھول گئی ہے۔۔۔۔۔ انہیں صرف چند ایک اہم چیزیں، لوگ یا رشتے ہی یاد ہیں۔۔۔۔۔ اس کے علاوہ ان کا دماغ بالکل بلینک ہوگیا ہے۔۔۔۔‘‘ ڈاکٹر کی بات ابھی جاری ہی تھی کہ ماورا کی چیخنیں چلانے کی آواز پر وہ دونوں بھاگ کر اس روم میں داخل ہوئے۔۔۔۔۔۔۔ وہ پورے کمرے کا نقشہ بگاڑ چکی تھی۔
’’ماورا۔۔۔۔۔ ماورا!! ماورا!!‘‘ وہ فورا ماورا کی جانب بھاگا تھا جو اس وقت بالکل بھی اپنے ہوش میں نہیں تھی۔۔۔۔۔۔ اس کے جسم کے کئی حصوں پر زخم سے ہونا شروع ہوگئے تھے۔
’’ڈاکٹر!!‘‘ اسے بےقابو ہوتے دیکھ وہ چلایا تھا۔
ڈاکٹر نے فورا نرس کو اشارہ کیا تھا جو انجیکشن لیکر آگے بڑھی اور اس کے بازو میں پیوست کیا تھا۔
تھوڑی ہی دیر میں انجیکشن نے اپنا اثر دکھانا شروع کردیا تھا اور وہ معتصیم کی باہوں میں جھول گئی تھی۔
’’یہ سب کیا تھا ڈاکٹر؟‘‘ معتصیم نے جھنجھلا کر پوچھا تھا۔
’’ماورا جیسے کیسیز میں یہ سب عام ہے۔۔۔۔۔۔ اس کی باڈی کو اس وقت ڈرگز کی ضرورت تھی جس کی وجہ سے اس نے یوں ری۔ایکٹ کیا تھا مسٹر آفندی۔۔۔۔۔‘‘
’’اور یہ زخم؟‘‘ معتصیم کی بات پر ڈاکٹر نے ماورا کا ہاتھ اٹھا کر معتصیم کو دکھایا تھا۔۔۔۔۔۔ میل کی وجہ سے اس کے بڑھے ہوئے ناخنوں میں اندر تک میل بھرگئی تھی مگر پھر بھی وہ ناخنوں میں ہلکا سا خون دیکھ کر سب سمجھ چکا تھا۔
’’یہ بھی نارمل ہے مسٹر آفندی۔۔۔۔۔۔ ڈرگز نہ ملنے کی وجہ سے ان کی باڈی پر ری۔ایکشن ہوا تھا۔۔۔۔۔ اور یہ زخم بھی اسی وجہ سے ہوئے ہیں!‘‘
’’تو اب؟،۔۔۔۔۔مینز کہ ایسا کیا کیا جائے کہ وہ ڈرگز لینا چھوڑ دے؟‘‘ اس نے ماتھے پر بل ڈالے سوال کیا تھا۔
’’دیکھیے یہ اتنا آسان نہیں۔۔۔۔ ان کی باڈی کو دیکھ کر یہ بات کلئیر ہے کہ وہ ہیوی ڈوز لیتی ہے۔۔۔۔۔۔۔ ایسے میں ہمیں انہیں فورا ہی ڈرگز سے دور نہیں کرنا بلکہ آہستہ آہستہ اس کی مقدار کم کرنا ہوگی یہاں تک کہ انہیں دینا بند کردیا جائے!‘‘ ڈاکٹر نے تفصیلی جواب دیا تھا۔
’’مگر یہ بہت رسکی ہے اس کے لیے!‘‘ نظریں سوئی ہوئی ماورا پر ٹکی ہوئی تھی۔
’’ایک دوسرا راستہ بھی ہے!۔۔۔۔۔‘‘
’’کیا؟‘‘ اس نے فورا پوچھا
’’نیچر!‘‘
’’نیچر؟‘‘
’’جی مسٹر آفندی نیچر۔۔۔۔ نیچر از دا بیسٹ ڈاکٹر!!۔۔۔۔۔۔۔ انہیں تازہ یا کھلی ہوا والے ماحول میں لے جائے۔۔۔۔۔ جہاں سکون ہو۔۔۔۔ دنیا کے شور اور ہنگامے سے کوسوں دور‘‘ ڈاکٹر کی بات سمجھتے اس نے سر اثبات میں ہلایا تھا۔
’’اور ایک اور بات مسٹر آفندی!۔۔۔۔‘‘ جاتے جاتے ڈاکٹر پلٹا تھا۔
’’آپ کے پیشنٹ کو شاور کی اشد ضرورت ہے!‘‘ ڈاکٹر کی بات وہ شرمندہ سے مسکرا دیا تھا۔
اسے خود بھی ماورا کی حالت دیکھ کر اب اس بات کا احساس ہوا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’یہ۔۔۔۔۔۔یہ۔۔۔۔۔۔ یہ تم مجھے کہاں لائے ہو؟‘‘ ایک سنسان سڑک پر گاڑی رکتے دیکھ پری برے سے ڈری تھی۔
خوف سے اس نے کانپنا شروع کردیا تھا۔
اس وقت وہ اور سنان ہی یہاں موجود تھے۔۔۔۔۔۔ بیچ راہ میں ہی سنان نے اپنے ڈرائیور کو گارڈز کے ساتھ اپنے پینٹ ہاؤس بھیج دیا تھا اور خود ڈرائیو کرکے پری کو یہاں لایا تھا۔
اس سے پہلے پری مزید کوئی سوال کرتی ایک گاڑی بالکل ان کے سامنے آرکی تھی اور اس میں نکلتے شخص کو دیکھ کر اس کی آنکھیں پھیل گئیں تھی۔
’’مم۔۔۔۔۔۔۔مان!‘‘ اس کے لب ہلے، آنکھوں پر جیسے یقین نہیں آیا تھا۔
’’پری!‘‘ وہ مسکرایا تو وہ بھاگتی ہوئی اس کے سینے جالگی تھی۔
اس نے بری طرح سے رونا شروع کردیا تھا
’’تم۔۔۔۔تم کیوں نہیں آئے مان۔۔۔۔۔ میں، میں بہت ڈر گئی تھی۔۔۔۔۔ بہت انتظار کیا تمہارا۔۔۔۔۔۔ اور اب جب۔۔۔ مجھے لگا کبھی مل نہیں پاؤں گی تم سے۔۔۔۔۔۔ تم بھول گئے ہو مجھے!‘‘ اسکی شکایت پر وہ مسکرایا تھا۔
’’شش!!۔۔۔۔۔ ایسا نہیں بولتا۔۔۔۔۔ مان کیسے اپنی پری کو بھول سکتا ہے۔۔۔۔۔ وہ بہت محبت کرتا ہے اس سے!‘‘ اسے اپنے ساتھ لگائے اس نے سنان کو دیکھا تھا جس کی آنکھوں کے سامنے ایک عکس لہرایا تھا مگر وہ اسے جھٹک گیا تھا۔
’’مان۔۔۔۔۔ مان یہ، یہ وہی ہے۔۔۔۔۔ اس نے مجھے خریدا۔۔۔۔۔ مجھے دور کردیتا تم سے!‘‘ وہ سنان کی طرف دیکھ غصے سے بولی تھی۔
جہاں مان اس کی بات سن کر مسکرایا تھا وہی سنان نے سر نفی میں ہلایا تھا۔
’’اس نے یہ سب میرے ہی کہنے پر کیا تھا پری!‘‘ مان نے اس کی غلط فہمی دور کی تھی۔
’’ہاں؟؟؟ کیا؟‘‘ اسے کچھ سمجھ نہیں آیا
’’گھر جاکر بتاؤں گا!‘‘ اسے گاڑی میں بٹھاتا وہ بولا تھا۔
’’تمہارا بہت شکریہ سنان۔۔۔۔۔ یہ احسان ہے مجھ پر۔۔۔۔ جو بہت جلد چکانے کی کوشش کروں گا میں!‘‘ سنان سے مصحافہ کرتے وہ بولا تھا
’’جب تک احسان کا بدلا نہیں ملے گا تب تک تمہیں یاد دلاتا رہوں گا میں تاکہ تم بھولو مت!‘‘ مان کی بات پر وہ ہنس کر اس کے گلے ملا تھا۔
موبائل کی رنگ ٹون نے سنان شاہ کو اپنی جانب متوجہ کیا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گاڑی پینٹ ہاؤس میں جاکر رکی تھی۔۔۔۔۔۔ تمام گارڈز گاڑی سے نکل آئے تھے۔۔۔۔۔ ان کا ارادہ اب اپنے اپنے کمرے میں جاکر آرام کرنے کا تھا۔ ڈگی تھوڑی سی کھولے اس نے ان تمام آدمیوں کو جاتے دیکھا تھا۔۔
بنا آواز پیدا کیے وہ گاڑی سے نکلی اور مین گیٹ کی جانب قدم بڑھائے تھے جب ایک گارڈ کی نظر اس پر پڑی تھی۔
’’اے کون ہو تم؟‘‘ آواز سنتے ہی اس نے بھاگنا شروع کردیا تھا
’’پکڑو اسے!‘‘ وہ سب اس کے پیچھے بھاگے تھے۔۔۔۔ گیٹ پر کھڑے گارڈز نے شور سن کر فورا گیٹ بند کردیا تھا۔
بےبسی سے اس نے بند گیٹ کو دیکھا اور پھر اپنے پیچھے کھڑے ان آدمیوں کو جو اسے گھورے جارہے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’بتاؤ ہمیں کون ہو تم اور یہاں کس مقصد سے آئی ہو؟‘‘ وہ اس وقت ایک کال کوٹھری میں موجود تھی اور ان میں سے ایک آدمی اس سے باز پرس کرنے میں مصروف تھا مگر وہ خوف سے دوہری ہوتی کچھ بھی بولنے سے قاصر تھی۔
اس کا دل تو چاہا تھا کہ زویا کو تھپڑ لگا دے مگر یہ وہاں موجود کسی بھی آدمی کی تربیت میں شامل نہ تھا۔
وہ سب اللیگل کام ضرور کرتے تھے مگر بچوں اور عورتوں پر ظلم کے سخت مخالف تھے۔
’’یہ ایسے نہیں منہ کھولے گی۔۔۔۔۔ سر کو کال کرنا ہوگی!‘‘ وہ بڑبڑایا مگر اس کی بڑبڑاہٹ زویا نے بخوبی سنی تھی۔
’’سر؟۔۔۔جیک؟۔۔۔۔ننن۔۔۔۔۔۔نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔سر نہیں۔۔۔۔۔۔ سر نہیں!‘‘ وہ نفی میں سر ہلائے زور زور سے چلانے لگ گئی تھی۔
ان تمام لوگوں کو اس کے پاگل ہونے پر شک سا گزرا تھاا۔
’’سر۔۔۔۔۔سر نہیں۔۔۔۔۔ سر نہیں!‘‘ اس کی آنکھوں سے اشک رواں ہوگئے تھے۔
اب کی بار اس نے سنان شاہ کو کال ملا دی تھی اور ساتھ ہی تمام حالات سے بھی آگاہ کردیا تھا۔
’’وہ بس چلائے جارہی ہے۔۔۔۔۔۔ سر نہیں، سر نہیں۔۔۔۔۔ یوں جیسے اسے پینیک اٹیک ہوا ہو!‘‘ اس بات پر سنان حیران ہوا تھا۔
’’اس بات کا کیا مطلب ہوا؟۔۔۔۔۔۔ پہلے تو وہ اس چیز پر حیران ہوا تھا کہ ایک لڑکی اس کی گاڑی میں اس کے گارڈز کی نظر سے بچ کر اس کے پینٹ ہاؤس تک آگئی تھی اور یہ نئی کہانی۔
مان سے ایکسکیوز کرتے اس نے گھر کی راہ لی تھی۔
’’کہاں ہے وہ؟‘‘ تہہ خانے میں آتے ہی اس نے سوال کیا تھا جب اسکے آدمی نے اس کال کوٹھری کی جانب اشارہ کیا تھا۔
گہری سانس اندر کھینچے وہ اندر داخل ہوا تھا جہاں خوف سے وہ سکڑی سیمٹی بیٹھی تھی۔
سنان شاہ نے اس کا بھرپور جائزہ لیا اور دماغ میں ایک جھماکہ سا ہوا۔
یہ تو وہی تھی پاڑتی والی لڑکی۔۔۔۔۔ مگر یہ یہاں کیا کررہی تھی۔
’’کون ہو تم؟‘‘ سنان شاہ نے کرخت آواز میں سوال کیا تھا۔
اور وہ جو یہ سمجھ رہی تھی کہ جیک اسے پکڑ چکا ہے اور اب خوف سے آنکھیں بند کیے بیٹھی تھی اس نے پٹ سے آنکھیں کھولے اس نے سنان شاہ کو دیکھا تھا۔
’’ایسا کیسے ہوسکتا ہے؟ یہ ناممکن ہے!‘‘ان سرمئی آنکھوں کو دیکھ کر وہ ایک پل کو سکتے میں چلا گیا تھا
پنجوں کے بل بیٹھا وہ اپنی سرد آنکھوں سے اس سرمئی آنکھوں والی لڑکی کو دیکھ رہا تھا جو آنکھوں میں خوف لیے خود میں مزید سمٹ گئی تھی۔
’’سر۔۔۔۔۔۔‘‘ اسکے ساتھی کے کچھ بولنے سے پہلے ہی اس نے اسے ہاتھ اٹھا کر چپ رہنے کو کہاں
سرمئی آنکھوں والی اس لڑکی کی آنکھوں میں خوف اور وحشت اتر آئی۔
’’ننن۔۔۔۔۔نہیں۔۔۔۔۔سس۔۔۔سر۔۔۔۔نہ۔۔۔۔نہیں۔۔۔۔۔سس۔۔۔۔سوری۔۔۔۔سس۔۔۔سوری۔۔۔۔مم۔۔۔۔مارنا نہیں۔۔۔۔۔۔نہیں!‘‘ دھیمی کانپتی آواز میں سر تیزی سے نفی میں ہلائے وہ تھر تھر کانپنے لگی، جبکہ آنکھیں زور سے میچ لی تھی اس نے۔
سرد آنکھوں میں ناگواری در آئی
’’آنکھوں کھولو!‘‘ وہ اپنے ازلی سرد لہجے میں بولا اور ساتھ ہی اسکو چھونے کے لیے اپنا ہاتھ بلند کیا۔
’’آہ!!!‘‘ اونچی آواز میں چیخ مارتے، دور ہونے کی ناکام کوشش کرتے اسکا سر بری طرح سے دیورا میں ٹکڑایا
خون کی ایک لکیر اسکے چہرے کو بھگو گئی جبکہ گلے میں موجود پینڈینٹ جھولتا نظروں کے سامنے آگیا۔
’’مانو!‘‘ بےساختہ اسکے لب ہلے۔
سرد آنکھوں نے سرمئی آنکھوں والی کو دیکھا جو ہوش و حواس سے بیگانہ اسکے پیروں میں گر گئی تھی۔
’’میری مانو بلی!‘‘ اسکا خون آلود چہرہ اپنے دونوں ہاتھوں میں لیے وہ بے یقینی کی کیفیت میں مسکرا کر بولا
’’میری بہن!‘‘ ایک آنسو اس کی آنکھ سے نکل کر زمین پر جاگرا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’ماما!! ماما!!‘‘ بارہ سالا سنان خوشی سے چلاتا گھر میں داخل ہوا تھا۔
’’سنان بابا آپ اتنی جلدی؟‘‘ میڈ اسے اس وقت گھر میں دیکھ کر حیران ہوئی تھی۔
’’ہاں ہاف لیوو لی تھی سکول سے ماما کہاں ہے اور بےبی آگیا؟‘‘ اس نے ایکسائیٹیڈ ہوکر پوچھا تھا۔
’‘میم کمرے میں ہے اور بےبی آگئی ہے!‘‘ میڈ نے مسکرا کر جواب دیا
’’آگئی مطلب گرل؟‘‘ اس نے اچھنبے سے سوال کیا جس پر میڈ نے سر اثبات میں ہلایا اور سنان کا چہرہ اتر گیا تھا۔
ڈھیلے انداز میں چلتا وہ کمرے میں داخل ہوا تھا جہاں سامنے ہی نیلم بیڈ سے ٹیک لگائے مسکرا کر اپنی دونوں شہزادیوں کو دیکھ رہی تھی۔
’’نان!!‘‘ گڑیا اسے دیکھ کر خوشی سے چلائی تھی۔
’’آہ!! سنان نام ہے میرا گڑیا نان نہیں!‘‘ سنان نے پانچ سال کی گڑیا کو ڈپٹا تھا جو مسکرا دی تھی۔
’’نان دیکھو!‘‘ سنان کی گھوریوں کو اگنور کرتے اس نے بیڈ پر کمبل میں لیپٹے اس وجود کی جانب اس کی توجہ دلوائی تھی۔
منہ بناتا وہ اس ننھی پری کی جانب بڑھا تھا جس نے سنان کی موجودگی کو محسوس کرتے ہی آنکھیں کھولی تھی اور اسے دیکھ کر مسکرائی تھی۔
اور سنان وہ تو غور سے اس کی سرمئی آنکھوں کو دیکھ رہا تھا، اور اس کی مسکراہٹ کتنی پیاری تھی۔
’’ماما!!‘‘
’’جی؟‘‘
’’یہ مانو بلی۔۔۔۔۔۔۔ یہ ہماری ہے ماما؟‘‘ سنان شاہ کی حیرت میں ڈوبی آواز پر وہ مسکرائی تھی۔
’’جی میری جان یہ مانو بلی ہماری ہے۔‘‘ نیلم نے اس کے بال بگاڑے تھے۔
اسے احتیاط سے اپنی گود میں اٹھائے سنان نے مسکرا کر اسے دیکھا تھا جس پر وہ بھی کھل کر مسکرائی تھی۔
’’اس کا نام زویا ہے۔۔۔۔۔۔ زویا میری مانو بلی!‘‘ اس کے ماتھے کو چومتا وہ مسکرا کر بولا تھا۔
’’اول میلی بھی (اور میری بھی)‘‘ بیڈ پر چڑھتی گڑیا فورا اسکے برابر میں بیٹھی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’سنان۔۔۔ جانو یہ کیا ہے؟‘‘ نیلم نے حیرانگی سے سنان کو دیکھا تھا جو زویا کے گلے میں ایک پینڈینٹ پہنا رہا تھا مگر وہ بچی کے حصاب سے بہت بڑا تھا۔
’’ماما یہ دیکھے۔۔۔۔۔ میں نے گڑیا اور مانو دونوں کے لیے لیا ہے‘‘ اس نے خوشی سے انہیں دکھایا تھا جس پر وہ مسکرا دی تھی۔
’’بہت خوبصورت میری جان۔۔۔۔۔۔ مگر ابھی اسے اتار دو‘‘
’’کیوں؟‘‘ اس نے ماتھے پر بل ڈالے سوال کیا
’’وہ اس لیے کہ آپکی مانو ابھی بہت چھوٹی ہے وہ نہیں سنبھال پائے گی جیسے ہی تھوڑی بڑی ہوگی اسے پہنا دینا!‘‘ ان کی بات پر سنان نے جھٹ سر اثبات میں ہلایا تھا۔
’’میری پیاری مانو بلی!‘‘ اس کے سر پر پیار دیتا وہ مسکرایا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’ماما۔۔۔۔۔پاپا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مانو۔۔۔۔۔۔۔۔ گڑیا۔۔۔۔۔۔‘‘ پورے گھر کو آگے میں جلتے دیکھ وہ چلایا تھا جب اس کے باڈی گاڑد نے اسے آگ سے پیچھے کیا تھا۔
’’چھوڑو مجھے۔۔۔۔۔۔ میرے ماما، پاپا۔۔۔۔ میری بہنیں!۔۔۔۔۔۔۔ چھوڑو!‘‘ وہ چلایا تھا۔
دیکھتے دیکھتے پورا گھر جل کر راکھ ہوگیا تھا اور سنان وہی زمین پر گرگیا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تھوڑی دونوں ہاتھوں پر ٹکائے اس کی نظریں بیڈ پر بےخبر سوئی ہوئی زویا پر تھی۔۔۔۔۔۔۔ اسے یقین نہیں آرہا تھا اس کی مانو بلی، اس کی بہن، اس کی زویا زندہ تھی؟
آنکھوں میں آئی نمی کو پیچھے دھکیلے وہ اٹھ کر اس کے پاس آبیٹھا تھا جس کے سر پر چوٹ کی وجہ سے پٹی کی تھی۔
’’تو کیا تم واقعی میری زویا ہو؟ میری مانو بلی؟‘‘ خود سے بولتے اس نے اس کے سر سے تھوڑے سے بال کاٹے تھے، اب اس کا ارادہ ڈی۔این۔اے ٹیسٹ کروانے کا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...