(Last Updated On: )
کرم اتنا خدائے قادر و قیوم ہو جائے
ہے جس کی یہ اُسی کی امتِ مرحوم ہو جائے
محبت کا یہ جذبہ دل سے گر معدوم ہو جائے
نہ جانے پھر بشر کس نام سے موسوم ہو جائے
یہ کیا ہوتا ہے کیوں ہوتا ہے میں بتلا نہیں سکتا
کسی سے عشق ہو دل میں تو خود معلوم ہو جائے
مجھے قسمت پہ پروانوں کی اکثر رشک آتا ہے
جو ہے مقسوم ان کا وہ مرا مقسوم ہو جائے
زہے عز و شرف ان کا زہے محبوبیت ان کی
غلام ان کا جو بن جائے وہی مخدوم ہو جائے
زباں سے کہنے سے تکلیفِ غم واضح نہیں ہوتی
معاون ہوں اگر آنکھیں ادا مفہوم ہو جائے
جو باتیں روز مرہ کی ہیں ان کی قدر کیا لیکن
پہن لیں جب لباسِ شعر ان کی دھوم ہو جائے
نظرؔ آئینہ دارِ فرطِ غم فرطِ مسرت ہے
ان آنکھوں سے سبھی دل کی خبر معلوم ہو جائے
٭٭٭