(Last Updated On: )
اسیرِ آز ہوتی جا رہی ہے
نگہ ناساز ہوتی جا رہی ہے
صدائے احتجاجِ وقت اب تو
مری آواز ہوتی جا رہی ہے
لگاوٹ حسنِ خودبیں میں ہے جتنی
وہ صرفِ ناز ہوتی جا رہی ہے
طبیعت پر حقیقت کیا کھلے گی
گماں آغاز ہوتی جا رہی ہے
خود اپنے نفس کے اندر سنو تو
کوئی آواز ہوتی جا رہی ہے
بڑھا ہے امتیازِ خیر و شر کچھ
نظرؔ ممتاز ہوتی جا رہی ہے
٭٭٭