(Last Updated On: )
کس قدر جنسِ جفا عام ہوئی جاتی ہے
ہر وفا کوششِ ناکام ہوئی جاتی ہے
دور تر اَز رہِ اسلام ہوئی جاتی ہے
زندگی موت کا پیغام ہوئی جاتی ہے
حیف دلدادۂ اوہام ہوئی جاتی ہے
امتِ خیر یہ بدنام ہوئی جاتی ہے
ہوسِ بادۂ گلفام نہیں کم ہوتی
سعیِ توبہ مری ناکام ہوئی جاتی ہے
دور منزل ہے نگاہوں سے ابھی رہرو کی
بیچ رستے میں اسے شام ہوئی جاتی ہے
لذتِ مے کا بیاں بادہ کشوں سے سن کر
نیتِ شیخ بھی کچھ خام ہوئی جاتی ہے
کام کچھ ایسے کیے اہلِ ہوس نے جس سے
عاشقی موردِ الزام ہوئی جاتی ہے
زندگی بھر نہ ملی خیر کی منزل مجھ کو
مر کے اب منزلِ دوگام ہوئی جاتی ہے
بات جو منہ سے نکلتی ہے سنا ہم نے نظرؔ
نقش بر صفحۂ ایام ہوئی جاتی ہے
٭٭٭