(Last Updated On: )
جلوہ فرمائے دو عالم ہے مگر رو پوش ہے
حسنِ معنی شوخیوں میں بھی حیا آغوش ہے
پینے والے ہی نہ ہوں محفل میں تو امرِ دگر
ورنہ ساقی تو ازل سے میکدہ بردوش ہے
ہوش والوں کا تمسخر کیوں ہے اے مستِ جنوں
نقطۂ آغاز تیرا بھی رہینِ ہوش ہے
بعدہٗ کیا کیفیت گزری نہیں معلوم کچھ
صاعقے چمکے تھے نزدِ آشیاں یہ ہوش ہے
مر کے بھی حاصل نہیں کامل سبکدوشی مجھے
میری میت دیکھیے آ کر کفن بردوش ہے
اک ذرا سی ٹھیس پر آنسو نکل پڑتے ہیں کیوں
دل ہے سینہ میں نظرؔ یا ساغرِ سر جوش ہے
٭٭٭