(Last Updated On: )
وہ لحظہ غنیمت جانو بس جو لحظہ کہ ٹلتا جاتا ہے
بیمارِ شبِ غم کا چہرہ اب رنگ بدلتا جاتا ہے
محرومی قسمت کا شکوہ با وصفِ خموشی چھپ نہ سکا
جو لفظ و بیاں میں ڈھل نہ سکا اشکوں میں وہ ڈھلتا جاتا ہے
ضربِ دمِ شمشیرِِ قاتل افزائشِ راحت کا باعث
سر دے کے مسرت سے لاشہ بسمل کا اچھلتا جاتا ہے
اللہ رے سوزِ قلبِ جگر مرنے پہ بھی کب تخفیف ہوئی
ہر فرد جنازے کا میرے کاندھوں کو بدلتا جاتا ہے
بے راہ روی میں فطرت کا انسان کو درسِ تادیبی
ٹھوکر جسے لگتی جاتی ہے دیکھا کہ سنبھلتا جاتا ہے
یہ سوزِ محبت کیا کہیے ہے آگ لگائے دو طرفہ
کب شمع ہی جلتی ہے خالی پروانہ بھی جلتا جاتا ہے
آسودۂ منزل کیا ہو گا یہ راہ نوردِ شوق نظرؔ
خطرات فُزوں تر ہوتے ہیں ہر گام کہ چلتا جاتا ہے
٭٭٭