’’یہ ایک غیر مساوی معاشعرتی نظام میں خواتین کے جنسی استحصال کی ایک دردناک کہانی ہے۔ دلاری بچپن سے ہی اس گھر میں پلی بڑھی تھی۔ اس کے بارے میں کوئی کچھ نہیں جانتا تھا۔ چھٹیوں میں گھر آئے مالکن کے بیٹے کے ساتھ اس کی آنکھ لڑ جاتی ہے اور وہ محبت کے نام پر اس کا استحصال کرتا ہے۔ وہ اس سے شادی کا وعدہ تو کرتا ہے مگر شادی ماں باپ کی پسند کی ہوئی لڑکی سے کر لیتا ہے۔ اس شادی کے بعد ہی دلاری گھر چھوڑ کر چلی جاتی ہے۔‘‘
گو کہ بچپن سے وہ اس گھر میں رہی اور پلی، مگر سولوہیں ستروہیں برس میں تھی کہ آخرکار لونڈی بھاگ گئی۔ اس کے ماں باپ کا پتہ نہیں تھا۔ اس کی ساری دنیا یہی گھر تھا اور اس کے گھر والے۔ شیخ ناظم علی صاحب خوشحال آدمی تھے گھرانے میں ماشاء اللہ کئی بیٹے اور بیٹیاں بھی تھیں۔ بیگم صاحبہ بھی بقید حیات تھیں اور زنانہ میں ان کا پورا راج تھا۔ دلاری خاص ان کی لونڈی تھی۔ گھر میں نوکرانیاں اور مامائی آمتیں۔ مہینہ دو مہینہ، سال دو سال کام کرتیں اس کے بعد ذرا سی بات پر جھگڑ کر نوکری چھوڑ دیتیں اور چلی جاتیں مگر دلاری کے لیے ہمیشہ ایک ہی ٹھکانا تھا۔ اس سے گھر والے کافی مہربانی سے پیش آتے۔ اونچے درجے کے لوگ ہمیشہ اپنے سے نیچے طبقے والوں کا خیال رکھتے ہیں۔ دلاری کو کھانے اور کپڑے کی شکایت نہ تھی۔ دوسری نوکرانیوں کے مقابلے میں اس کی حالت اچھی ہی تھی۔ مگر باوجود اس کے کبھی کبھی جب کسی ماما سے اور اس سے جھگڑا ہوتا تو وہ یہ طنز ہمیشہ سنتی، ’’میں تیری طرح کوئی لونڈی تھوڑی ہوں۔‘‘ اس کا دلاری کے پاس کوئی جواب نہ ہوتا۔
اس کا بچپن بےفکری میں گزرا۔ اس کا رتبہ گھر کی بی بیوی سے تو کیا نوکرانیوں سے بھی پست تھا۔ وہ پیدا ہی اس درجہ میں ہوئی تھی۔ یہ تو سب خدا کا کیا دھرا ہے، وہی جسے چاہتا ہے عزت دیتا ہے جسے چاہتا ہے ذلیل کرتا ہے اس کا رونا کیا؟ دلاری کو اپنی پستی کی کوئی شکایت نہ تھی۔ مگر جب اس کی عمر کا وہ زمانہ آیا جب لڑکپن کا ختم اور جوانی کی آمد ہوتی ہے اور دل کی گہری اور اندھیری بیچینیاں زندگی کو کبھی تلخ اور کبھی میٹھی بناتی ہیں تو وہ اکثر رنجیدہ سی رہنے لگی۔ لیکن یہ ایک اندرونی کیفیت تھی جس کی اسے نہ تو وجہ معلوم تھی نہ دوا۔ چھوٹی صاحبزادی حسینہ بیگم اور دلاری دونوں قریب قریب ہمسن تھیں اور ساتھ کھیلتیں۔ مگر جوں جوں ان کا سن بڑھتا تھا توں توں دونوں کے درمیاں فاصلہ زیادہ ہوتا جاتا۔ صاحبزادی کیوں کہ شریف تھیں ان کا وقت پڑھنے لکھنے، سینے پرونے، میں صرف ہونے لگا۔ دلاری کمروں کی خاک صاف کرتی، جھوٹے برتین دھوتی، گھڑوں میں پانی بھرتی۔ وہ خوبصورت تھی۔ کشادہ چہرہ، لمبے لمبے ہاتھ پیر، بھرا جسم، مگر عام طور سے اس کے کپڑے میلے کچیلے ہوتے اور اس کے بدن سے بو آتی۔ تیوہار کے دنوں البتہ وہ اپنے رکھاؤں کپڑے نکال کر پہنتی اور سنگار کرتی، یا اگر کبھی شاذ و نادر اسے بیگم صاحبہ یا صاحبزادیوں کے ساتھ کہیں جانا ہوتا تب بھی اسے صاف کپڑے پہننا ہوتے۔
شب برات تھی۔ دلاری گڑیا بنی تھی۔ زنانے کے صحن میں آتش بازی چھوٹ رہی تھی۔ سب گھر والے نوکر چاکر کھڑے تماشہ دیکھتے۔ بچے غل مچا رہے تھے۔ بڑے صاحبزادے کاظم بھی موجود تھے جن کا سن بیس اکیس برس کا تھا۔ یہ اپنی کالج کی تعلیم ختم ہی کرنے والے تھے۔ بیگم صاحبہ انھیں بہت چاہتی تھیں مگر یہ ہمیشہ گھروالوں سے بیزار رہتے اور انھیں تنگ خیال اور جاہل سمجھتے۔ جب چھٹیوں میں گھر آتے تو ان کو بحث ہی کرتے گزر جاتی، یہ اکثر پرانی رسموں کے خلاف تھے مگر اظہار ناراضی کر کے سب کچھ برداشت کر لیتے۔ اس سے زیادہ کچھ کرنے کے لیے تیار نہیں تھے۔
انھیں پیاس لگی اور انھوں نے اپنی ماں کے کندھے پر سر رکھ کر کہا، ’’امی جان پیاس لگی ھے۔‘‘
بیگم صاحبہ نے محبت بھرے لہجے میں جواب دیا، ’’بیٹا شربت پیو، میں ابھی بنواتی ہوں‘‘ اور یہ کہہ کر دلاری کو پکار کر کہا کہ شربت تیار کرے۔
کاظم بولے، ’’جی نہیں امی جان، اسے تماشہ دیکھنے دیجیے، میں خود اندر جا کر پانی پی لوں گا۔‘‘ مگر دلاری حکم ملتے ہی اندر کی طرف چل دی تھی۔ کاظم بھی پیچھے پیچھے دوڑے۔ دلاری ایک تنگ اندھیری کوٹھری میں شربت کی بوتل چن رہی تھی۔ کاظم بھی وہیں پہنچ کر رکے۔
دلاری نے مڑ کر پوچھا، ’’آپ کے لیے کونسا شربت تیار کروں؟‘‘ مگر اسے کوئی جواب نہ ملا۔ کاظم نے دلاری کو آنکھ بھر کے دیکھا، دلاری کا سارا جسم تھرتھرانے لگا اور اس کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔ اس نے ایک بوتل اٹھا لی اور دروازے کی طرف بڑھی۔ کاظم نے بڑھ کر اس کے ہاتھ سے بوتل لے کر الگ رکھ دی اور اسے گلے سے لگا لیا۔ لڑکی نے آنکھیں بند کر لیں اور اپنے تن من کو اس کی گود میں دے دیا۔
دو ہستیوں نے، جن کی ذہنی زندگی میں زمین و آسمان کا فرق تھا، یکایک یہ محسوس کیا کہ وہ آرزوؤں کے ساحل پر آ گئے۔ دراصل وہ تنکوں کی طرح تاریک طاقتوں کے سمندر میں بھے چلے جا رہے تھے۔
ایک سال گزر گیا۔ کاظم کی شادی ٹھہری گئی۔ شادی کے دن آ گئے۔ چار پانچ دن میں گھر میں دلہن آ جائےگی۔ گھر میں مہمانوں کا ہجوم ہے۔ ایک جشن ہے کام کی کثرت ہے۔ دلاری ایک دن رات کو غائب ہو گئی، بہت چھان بین ہوئی، پولیس کو اطلاع دی گئی، مگر کہیں پتہ نہ چلا۔ ایک نوکر پر سب کا شبہ تھا، لوگ کہتے تھے کہ اسی کی مدد سے دلاری بھاگی اور وہی اسے چھپائے ہوئے ہے۔ وہ نوکر نکال دیا گیا۔ درحقیقت دلاری اسی کے پاس نکلی مگر اس نے واپس جانے سے صاف انکار کر دیا۔
تین چار مہینے بعد شیخ ناظم علی صاحب کے ایک بڈھے نوکر نے دلاری کو شہر کی غریب رنڈیوں کے محلہ میں دیکھا۔ بڈھا بے چارہ بچپن سے دلاری کو جانتا تھا۔ وہ اس کے پاس گیا اور گھنٹوں تک دلاری کو سمجھایا کہ واپس چلے، وہ راضی ہو گئی۔ بڈھا سمجھتاتھا کہ اسے انعام ملےگا اور یہ لڈ کی مصیبت سے بچےگی۔
دلاری کی واپسی نے سارے گھر میں کھل بلی ڈال دی۔ وہ گردن جھکائے سر سے پیر تک ایک سفید چادر اڑھے، پریشان صورت، اندر داخل ہوئی اور سائبان کے کونے میں جاکر زمین پر بیٹھ گئی۔ پہلے تو نوکرانیاں آئیں۔ وہ دور سے کھڑے ہو کر اسے دیکھتیں اور افسوس کر کے چلی جاتیں۔ اتنے میں ناظم علی صاحب زنانہ میں تشریف لائے۔ انھیں جب معلوم ہوا کہ دلاری واپس آ گئی ہے، تو وہ باہر نکلے، جہاں دلاری بیٹھی تھی۔ وہ کام کا جی آدمی تھے، گھر کے معاملات میں بہت کم حصہ لیتے تھے، انھیں بھلا ان ذرا ذرا سی باتوں کی کہاں فرصت تھی۔ دلاری کو دور سے پکار کر کہا، ’’بے وقوف، اب ایسی حرکت نہ کرنا!‘‘ اور یہ فرما کر اپنے کام پر چلے گئے۔ اس کے بعد چھوٹی صاحب زادی، دبے قدم، اندر سے بر آمد ہوئیں اور دلاری کے پاس پہنچیں، مگر بہت قریب نہیں، اس وقت وہاں اور کوئی نہ تھا۔ وہ دلاری کے ساتھ کی کھیلی ہوئی تھی دلاری کے بھاگنے کا ا نھیں بہت افسوس تھا۔ شریف، پاکباز، باعصمت حسینہ بیگم کو اس غریب بےچاری پر بہت ترس آ رہا تھا مگر ان کی سمجھ میں نہ آتا تھا کہ کوئی لڑکی کیسے ایسے گھر کا سہارا چھوڑ کر جہاں اس کی ساری زندگی بسر ہوئی ہو باہر قدم تک رکھ سکتی ہے اور پھر نتیجہ کیا ہوا؟ عصمت فروشی، غربت، ذلت، یہ سچ ہے کہ وہ لونڈی تھی، مگر بھاگنے سے اس کی حالت بہتر کیسے ہوئی؟
دلاری گردن جھکائے بیٹھی تھی۔ حسینہ بیگم نے خیال کیا کہ وہ اپنے کیے پرپشیما ن ہے۔ اس گھر سے بھاگنا، جس میں وہ پلی، احسان فراموشی تھی، مگر اس کی اسے کافی سزا مل گئی، خدا بھی گنہ گاروں کی توبہ قبول کر لیتا ہے۔ گو کہ اس کی آبرو خاک میں مل گئی مگر ایک لونڈی کے لیے یہ اتنی اہم چیز نہیں جتنی ایک شریف زادی کے لیے۔ کسی نوکر سے اس کی شادی کر دی جائےگی۔ سب پھر سے تھیک ہو جائےگا۔ انھوں نے آہستہ سے نرم لہجے میں کہا،
’’دلاری یہ تو نے کیا کیا؟‘‘
دلاری نے گردن اٹھائی، ڈبڈبائی آنکھوں سے ایک لمحہ کے لیے اپنے بچپن کی ہمجولی کو دیکھا اور پھر اسی طرح سے سر جھکا لیا۔
حسینہ بیگم واپس جا رہی تھیں کہ خود بیگم صاحبہ آ گئیں۔ ان کے چہرے پر فاتحانہ مسکراہت تھی، وہ دلاری کے بالکل پاس آ کر کھڑی ہو گئیں۔ دلاری اسی طرح چپ، گردن جھکائے بیٹھی رہی۔ بیگم صاحبہ نے اسے ڈانٹنا شروع کیا، ’’بے حیا! آخر جہاں سے گئی تھی وہیں واپس آئی نہ، مگر منہ کالا کر کے سارا زمانہ تجھ پر تھڑی تھڑی کرتا ہے۔ برے فعل کا یہی انجام ہے۔۔۔‘‘
مگر باوجود ان اسب باتوں کے بیگم صاحبہ اس کے لوٹ آنے سے خوش تھیں۔ جب سے دلاری بھاگی تھی گھر کا کام اتنی اچھی طرح نہیں ہوتا تھا۔
اس لعن طعن کا تماشہ دیکھنے، سب گھر والے بیگم صاحبہ اور دلاری کے چاروں طرف جمع ہو گئے تھے۔ ایک نجس، ناچیز ہستی کو اس طرح ذلیل دیکھ کر سب کے سب اپنی بڑائی اور بہتری محسوس کر رہے تھے۔ مردار خور گدھ بھلا کب سمجھتے ہیں کہ جس بیکس جسم پر وہ اپنی کثیف ٹھونگیں مارتے ہیں، بے جان ہونے کے باوجود بھی ان کے ایسے زندوں سے بہتر ہے۔
یکا یک بغل کے کمرے سے کا ظم اپنی خوب صورت دلہن کے ساتھ نکلے اور اپنی ماں کی طرف بڑھے۔ انھوں نے دلاری پر نظر نہیں ڈالی۔ ان کے چہرے سے غصہ نمایاں تھا۔ انھوں نے اپنی والدہ سے درشت لہجہ میں کہا،
’’امی خدا کے لیے اس بدنصیب کو اکیلی چھوڑ دیجیے، وہ کافی سزا پاچکی ہے آپ دیکھتی نہیں کہ اس کی حالت کیا ہو رہی ہے!‘‘
لڑکی اس آواز کے سننے کی تاب نہ لا سکی۔ اس کی آنکھوں کے سامنے وہ سماں پھر گیا جب وہ اور کاظم راتوں کی تنہائی میں یکجا ہوتے تھے، جب اس کے کان پیار کے لفظ سننے کے عادی تھے۔ کاظم کی شادی اس کے سینے میں نشتر کی طرح چبھتی تھی۔ اس خلش، اسی بیدلی نے اسے کہاں سے کہاں پہنچا دیا اور اب یہ حالت ہے کہ وہ بھی یوں باتیں کرنے لگے! اس روحانی کوفت نے دلاری کو اس وقت نسوانی حمیت کا مجسمہ بنا دیا۔ وہ اٹھ کھڑ ی ہوئی اور اس نے سارے گروہ پر ایک ایسی نظر ڈالی کہ ایک ایک کر کے سب نے ہٹنا شروع کیا۔ مگر یہ ایک مجروح، پر شکستہ چڑیا کی پرواز کی آخری کوشش تھی۔ اس دن رات کو وہ پھر غائب ہو گئی۔
مأخذ :
Angare
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...