جمنا جہاز 8؍ دسمبر سنہ 1865 ء کو بمبئی سے کالا پانی روانہ ہوا۔ یہ جہاز انگلینڈ کا بنا ہوا تھا، تمام عملہ بھی انگریزوں پر مشتمل تھا، جب جہاز نے لنگر اٹھایا تو عرشے پر کھڑے ہوئے تمام اسیران بلا نے مادر وطن پر آخری محبت بھری نظر ڈالی، کچھ قیدی ایسے بھی تھے جن کی محبت کا محور، گھر بار، کھیتی باڑی، ماں باپ، بہن بھائی اور اولاد تھی اور انھیں یہ خیال بھی شدّت سے ستا رہا تھا کہ وہ جیتے جی اپنے اعزا و اقارب، پیاروں، راج دلاروں اور سرسبز و شاداب کھیتوں کو بھی دیکھ سکیں گے یا نہیں؟ لیکن ان میں کچھ نیک بخت ایسے بھی تھے جن کے حاشیہ خیال اور قلب و نگاہ کے کسی گوشے میں بھی ان میں سے کوئی چیز نہ تھی۔ ان کی محبت کا مرکز و محور صرف وہ دعوت حق تھی، جس کے لیے انھوں نے اپنی ہر قیمتی سے قیمتی متاع کو قربان کردیا تھا، وہ اپنی کشتیاں جلا کر آرہے تھے، انھیں اس بات کی قطعا پروا نہ تھی کہ وہ ایک بھیانک جگہ جا رہے ہیں جہاں کے شب و روز نامعلوم کتنے کربناک ہوں گے۔ انھیں خیال تھا تو صرف اس تحریک کا جسے وہ خاک و خون میں تڑپ تڑپ کر سیراب کر رہے تھے، جب تک ساحل نظروں سے اوجھل نہ ہوا، قیدی اپنے اپنے خیالات میں گم سم حیرت کی تصویر بنے اسے تکتے رہے۔ جب نظروں سے اوجھل ہوگیا تو کتنے ہی دلوں سے اٹھنے والا دھواں، عارض کی زمہریر میں پہنچ کر پانی کے قطرات کی صورت اختیار کرگیا، اب وہ تھے، ان کے رخسار پر شبنم کے قطرات جیسے آنسو یا پھر چہار سو حدّ نظر تک پھیلا ہوا سمندر کا پانی۔ ان کے جذبات کی طرح سمندر بھی رفتہ رفتہ طغیانی رنگ اختیار کرتا گیا۔
دریا کو اپنی طغیانیوں سے کام
کشتی کسی کی پار ہو، یا درمیاں رہے
سمندر کی تلاطم خیزیوں کے باعث اکثر قیدی بیمار پڑ گئے، ایک بے چارہ پنجابی قیدی داغ مفارقت بھی دے گیا، ہم نے قاعدۂ شریعت کے مطابق اسے غسل دیا، کفن پہنایا اور نماز جنازہ پڑھ کر اس کی لاش کے ساتھ بہت سے پتھر باندھے اور اسے سمندر میں چھوڑ دیا، سیلون پہنچے تو سمندر کا تلاطم مزید شدّت اختیار کرگیا، سینکڑوں ٹن وزنی جہاز ایک ننھے سے بے مایہ گیند کی طرح پانی کی سطح تر اچھل رہا تھا، پہاڑ کی طرح دیو قامت اور بلند و بالا موجیں ایک طرف سے آتیں، کبھی دوسری جانب سے اور اسے بری طرح ہلا کر رکھ دیتیں، کبھی اوپر سے گذر جاتیں اور کبھی نیچے سے اور یوں معلوم ہوتا کہ جہاز ابھی غرق ہوجائے گا، خوف کے مارے لوگوں کا برا حال تھا، وہ چیخ چیخ کر خدا کو پکار رہے تھے، آخرکار کئی گھنٹے بعد طوفان تھما اور لوگوں کی جان میں جان آئی۔
34 ویں دن11؍ جنوری سنہ 1866 ء کو جہاز قبل از دو پہر پورٹ بلیر انڈمان پہنچ گیا۔ انبالہ سے لے کر انڈمان کے پانیوں میں داخل ہونے کی کل مدت 11 ماہ ہے، سینکڑوں چھوٹے چھوٹے ہرے بھرے جزیرے دور سے پھیلی ہوئی گہری سبز چادر کی طرح معلوم ہوتے تھے۔ اب ساحل بھی نظر آرہا تھا، قیدیوں کی ایک جماعت عرشے پر آکر کھڑی ہوگئی، دور سے سمندر کے کنارے کے کالے کالے پتھر ایسے معلوم ہوتے تھے جیسے بھینسوں کے جھنڈ کے جھنڈ پانی میں پھر رہے ہوں، ایک کشتی میں پورٹ بلیر کے محافظ آ پہنچے اور جہاز لنگر انداز ہوگئے، میں نے ایک ہندوستانی ملاح سے پوچھا کہ یہاں منشی اور محرروں کی بھی کچھ قدر ہے یا نہیں؟ اس نے قرینے سے معلوم کر لیا کہ یہ شخص منشی ہے، چنانچہ اس نے میری تسلی کے لیے مبالغہ آرائی کرتے ہوئے کہا کہ یہاں کے حاکم اور مالک تو منشی ہی ہیں۔ یہ مژدہ سن کر مجھے بھی کچھ تسلی ہوئی۔
جہاز لنگر انداز ہونے کے تھوڑی دیر بعد ہی بڑی کشتیاں پہنچ گئیں، تمام قیدیوں کو ان میں بٹھا کر انڈمان کے صدر مقام روس کی طرف روانہ کر دیا، ساحل سمندر پر ایک جم غفیر کھڑا تھا، وضع قطع سے سب لوگ پڑھے لکھے مولوی اور منشی معلوم ہوتے تھے، بیسیوں لوگ سفید فاخرانہ لباس زیب تن کیے ہمارے منتظر کھڑے تھے، ابھی ہم کشتی میں سوار ہی تھے کہ کنارے پر کھڑے ایک آدمی نے بلند آواز سے پوچھا :
“محمد جعفر اور مولوی یحیی علی صاحب بھی اس جہاز سے آئے ہیں؟”
“جی ہاں! وہ دونوں آئے ہیں” میں نے جواب دیا۔
یہ سننا تھا کہ وہ لوگ پانی میں کود پڑے اور ہم لوگوں کو ہاتھوں ہاتھ کشتی سے نیچے اتار لیا۔