پری سب سے پہلے اپنے کمرے میں گئی اس نے ابھی تک وہی لہنگا پہنا ہوا تھا اسے سب سے پہلے اس عذاب سے جان چھڑانے تھی ۔ کپڑے چینج کر کے منہ ہاتھ دھونے کے بعد وہ اپنے کمرے سے نکلی اب اس کا روخ نیچے مما پاپا کے کمرے کی طرف تھا پری نے گہری سانس لی کمرے کے باہر ہی روک گئی اندار جانے کی ہمت نہیں تھی وہ جانتی تھی مما پاپا اسے کبھی بھی جانے کی اجازت نہیں دے گے ۔ پھر کچھ فیصلے بہت تکلیف دہ ہونے کے باوجود بھی کرنے پڑھتے ہیں اپنے سے جوڑے رشتوں کو تباہی سے بچانے کے لئے خود زہر کا کلاس پینا پڑتا ہے اور پری بھی وہی زہر پینے والی تھی ۔ دروازہ لاک کر کے ھنڈل گھمایا دروازہ کھلا تھا وہ اندار داخل ہوئی مما اسے دیکھ کر جلدی سے اس کے پاس آئی اور اسے گلے لگایا جسے وہ بہت عرصے بعد اپنی بیٹی سے مل رہی ہوں پری رونا نہیں چاہتی تھی پھر ماں کا آغوش ملتے ہی خود پر ضبط گھو بیٹھی۔ دانیال صاحب نے دھیرے سے دونوں کو الگ کیا یہ لمحہ ان کے لیے بھی عذاب سے کم نہیں تھا وہ مرد تھے وہ کیسے سکتے تھے
“میری جان میری بیٹی تم ٹھیک تو ہو نہ دیکھوں ہم تمہیں نہیں بچا سکے ہم سے بہت بڑی غلطی ہو گئی بیٹا ہمیں معاف کر دوں میں پوری رات نہیں سو سکی نیند کسے آ سکتی تھی مجھے ” وہ مسلسل رو رہی تھی کلثوم بیگم نے اسے اب بھی دونوں ہاتھوں سے تھام رکھا تھا کہ کہیں ان کی نازوں پلی بیٹی پھر سے ان سے دور نہ ہو جائے پری کےدل کو کچھ ہوا ۔
“بیٹا شاہ زر نے کچھ کیا تو نہیں میرا مطلب ہے “دانیال صاحب جو پوچھنا چاہ رہے تھے پری اچھے سے سمجھ گئی وہ شرم سے پانی پانی ہو گئی بلا وہ کیا جواب دیتی باپ کو دانیال صاحب خود بھی اب بول کر پچھتا رہے تھے ایسے سوال کوئی باپ بیٹی سے کیسے کر سکتا ہے ”
“چلو اور باتیں تو ہوتی رہی گی پہلے ناشتہ کر لے پری نے کل رات سے کچھ نہیں کھایا” کلثوم بیگم نے بات بدلنے کے لئے کہا
“مما پاپا مجھے آپ کو بتانا تھا کہ شاہ زر آج مری واپس جا رہے ہیں”پری نے وہی کرسی پر بیٹھ کر ماں باپ کو دیکھا جو یہ خبر سن کر خوش ہوئے “یہ تو بہت اچھی بات ہے اس بہانے اس سے کچھ عرصے کے لیے جان چھوٹ جائے گی اور ہم اس سے جان چھڑا لے گے تمہاری ” دانیال صاحب خوش ہو کر بولے ۔ “ہاں پری بیٹا تمہارے پاپا ٹھیک کہ رہے ہیں ہم سے بہت بڑی غلطی ہو گئی شاہ زر تو آستین کا سانپ نکلا اس سے اتنی کم ظرفی کی امید نہیں تھی ہمیں ”
“مما پاپا آپ نے مجھے لوگوں کی باتوں سے بچانے کے لیے اس جہنم میں دھکیل دیا اور اب آپ چاہتے ہیں کہ میں ایک دن کی دلہن طلاق لے کر گھر میں بیٹھ جاؤ پہلے ارحم نے شادی والے دن مجھے چھوڑ دیا اور آپ لوگوں نے جذبات میں آ کر مجھے شاہ زر سے باندھ لیا اس کے بعد اب آپ لوگ چاہتے ہیں کہ میں طلاق کا داغ لے کر بیٹھ جاؤ تاکہ دنیا والے مجھ سے جینے کا حق بھی چھین لے “وہ تلحی سے گویا ہوئی دانیال صاحب اور کلثوم بیگم اپنی جگہ بہت شرمندہ تھے ان کے پاس کہنے کے لیے کوئی لفظ کوئی دلاسہ نہیں تھا واقعی میں انہوں نے بہت برا کیا تھا اچھا تھا چلے جاتے لوگ اسے ہی پر اپنی بیٹی کی زندگی یوں اپنے ہاتھوں سے تو تباہ نہ کرتے
“میں بھی شاہ زر کے ساتھ مری جا رہی ہوں شادی کے بعد بیٹیاں اپنے شوہر کے گھر ہی اچھی لگتی ہے نہ “اس نے چہرے پر زبردستی کی مسکراہٹ لائی وہ دونوں شاک ہو گئے “یہ تم کیا کہ رہی ہو پری ہمیں ہماری غلطی کی اتنی بڑی سزا مت دوں میں اور تمہارے پاپا مر جائے گے میرے بچے ” مما اذیت سے بولی اور نڈھال ہو کر پری کے ساتھ والے کرسی پر گرنے والے انداز میں بیٹھی دانیال صاحب بھی اذیت کے انتہا پر تھے ۔
پری نے اپنے ماں باپ کو دیکھا جو اسے دنیا میں سب سے زیادہ عزیز تھے وہ انہیں تکلیف میں نہیں دیکھ سکتی تھی پری نے خود کو کمپوز کیا وہ اس وقت کمزور نہیں پڑھنا چاہتی تھی اگر آج وہ کمزور پڑ جاتی تو اس کا خمیازہ اسے پوری زندگی بڑنا پڑتا
“مما پاپا مجھے پتا ہے آپ دونوں میرا اجھا ہی سوچ رہے ہیں مگر آپ لوگ شاہ زر کو ایک موقع تو دے اب جیسا بھی ہے وہ میرا شوہر ہے آپ لوگوں کا اکلوتا داماد مجھے جانے دے ایک بار مجھے موقع دے میں شاہ کے دل میں موجود ساری نفرت ختم کر دوں گئی آپ دونوں کو اپنی بیٹی پر یقین ہے نہ میں کچھ بھی غلط ہونے نہیں دوں گی یہ میرا وعدہ ہے آپ سے “وہ خود کو کافی حد تک کمپوز کر چکی تھی اور اب اپنے سامنے موجود اپنے ماں باپ کو منا رہی تھی پری جانتی تھی مما پاپا اس کی بات ضرور مان جائیں گے
“تمہارا آگر یہ آخری فیصلہ ہے تو میں اور تمہاری مما تمہارے ساتھ ہے پر مجھ سے وعدہ کرو کہ تم پر کبھی بھی کوئی مصیبت آئے گی کوئی بھی اسی ویسی بات ہوئی تم اسی وقت مجھے بتاؤ گی مجھے اپنی بیٹی پر یقین ہے وہ سب کچھ ٹھیک کر لے گی “انہوں نے پری کو دیکھ کر یقین سے کہا پری انہیں دیکھ کر مسکرائی اور اٹھ کر ان کے گلے لگی ۔” چلے بہت لاڈ پیار کر لیا پاپ بیٹی نے اب چلے ناشتہ کر لے پھر پری کو جانا بھی ہے میں زرہ ملازمہ کو ناشتہ لگانے کا کہ آؤ آپ دونوں بھی جلدی سے آئے ” اچھا بابا آپ جائے ہم دونوں بس ابھی آئے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ تینوں کھانے کے ٹیبل پر بیٹھے ناشتہ کر رہے تھے اور ہلکی پھلکی باتیں بھی کر رہے تھے کہ شاہ زر بھی بھی ناشتہ کرنے کے لیے ٹیبل آیا ان تینوں نے ایک نظر شاہ زر کو دیکھا جو ان لوگوں کو نظر انداز کر کے کرسی کھینچ کر بیٹھا ۔ “تمہیں تو اتنی توفیق نہیں ہوئی کے شوہر کو بھی ناشتے کا پوچھ لیتی “اس نے فرائی انڈا اپنے پلیٹ میں رکھا اور پری کو ناگواری سے دیکھا ۔”
“جی ائم سوری مجھے واقعی خیال نہیں آیا مگر آئندہ اسی کوئی غلطی نہیں ہو گی “پری نے جلدی سے صفائی پیش کی وہ نہیں چاہتی تھی کے شاہ زر اس کے ماں باپ کے سامنے کچھ بھی ایسا کہے کہ اسے جانے سے ہی منا کر لے اور اگر وہ نہ گئی تو شاہ کیا کر سکتا ہے وہ اچھے سے جان چکی تھی ۔ شاہ زر نے بھی خلاف معمول آگے سے جواب نہیں دیا اور ناشتہ کرنے میں مصروف ہو گیا ۔
“صاحب وہ صمد صاحب اور ان کے گھر والے آپ سے ملنا چاہتے ہیں میں نے چوکیدار سے انہیں وہی ہی روکنے کا کہا ہے ” کریم بابا نے آ کر انہیں اطلاع دی وہ اس گھر کے کافی پرانے ملازم تھے اس لیے انہیں کوئی روک ٹوک نہیں تھی وہ اسے آ جا سکتے تھے
“مانا کرو انہیں ہمیں کسی سے نہیں ملنا “دانیال صاحب نے غصّے سے جواب دیا ” بابا انہیں گھر میں آنے دے مہمانوں کو دروازے سے واپس بھیجنا کوئی اچھی بات ہے کیا ” شاہ زر نے بلک کافی کا سپ لیا اور کریم بابا کو جانے کا اشارہ کیا دانیال صاحب نے ناگواری سے شاہ زر کو دیکھا مگر بولے کچھ نہیں وہ اس وقت اس سر پہرے کے منہ نہیں لگنا چاہتے تھے اس لیے خاموش رہنا ہی مناسب سمجھا
“آپ سب لوگ بھی ڈرائنگ روم میں آئے اور پری آپ بھی اچھا ہے مل لے زرہ تمہارے سابقہ سسرال والوں سے آخر اب کیا لینے آئے ہے ”
“مگر میں نہیں جاؤ گی ” پری نے صاف جانے سے انکار کیا اور اٹھ کر جانے لگی “پری تم نے شاید سونا نہیں میں نے کیا کہا “شاہ زر غصّے سے ڈھارا “شاہ زر تم کس انداز میں بات کر رہے ہوں پری سے “دانیال صاحب کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوا تو وہ بلا آخر بول پڑے
“پاپا میں مل لوں گی ان لوگوں سے پلیز آپ لوگ جائے میں اور شاہ زر آتے ہیں “پری نے جلدی سے کہا شاہ زر نے ناگواری سے پری کو دیکھا ” اور کرسی پیچھے دھکیل کر اٹھ کھڑا ہوا اور پری کو بھی اپنے پیچھے آنے کا اشارہ کیا کلثوم بیگم نے بےبسی سے اپنے شوہر کو دیکھا وہ نظریں جھکا گئے ۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔ ۔ ۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دانیال صاحب اور کلثوم بیگم اس وقت ارحم اور اس کے ماں باپ کے سامنے بیٹھے ہوئے تھے صمد صاحب نے ساری بات جو ارحم کے ساتھ ہو چکی تھی بتا دی
“ہم بہت شرمندہ ہیں آپ سے دانیال صاحب”وہ نظریں جھکائے شرمندگی سے بولے”
آپ شرمندگی سے کیا ہو گا انکل آپ کی منگھڑت کہانی پر ہم یقین کر لے گے یہ آپ نے سوچ نھی کیسے لیا اور آپ کی ہمت کو داد دینی پڑے گی آپ کے بیٹے نے ہمیں کسی کو منہ دیکھنے کے قابل نہیں چھوڑا اور اب آپ لوگ کس منہ سے یہاں آئے ہیں” شاہ زر باہر کھڑے سب باتیں سن چکا تھا اس نے اندار داخل ہو کر صمد صاحب کو مزید شرمندہ کیا خود دائیں جانب صوفے پر بیٹھ گیا “پری اندار آ جاؤ باہر کیوں کھڑی ہو ” شاہ زر نے پیچھے دیکھا جہاں پری اس کے ساتھ اندر نہیں آئی تھی
پری نے خود کو مزید کمپوز کیا یہ کام وہ صبح سے کر رہی تھی اس کا دل دھاڑے مار مار کر رونا چاہتا تھا مگر وہ یہ سب کرنے پر مجبور تھی
وہ جیسے ہی آئی ارحم کی نظر اس پر پڑی پری اس وقت گرین کلر کے سوٹ میں ملبوس تھی ۔ دودھیا رنگت پر یہ رنگ بہت چچ رہا تھا لمبے بالوں کو چوٹی میں مقید کیا تھا ۔سیاہ آنکھوں میں تھکن صاف ظاہر ہو رہی تھی۔ شاہ زر نے ناگواری سے ارحم کو دیکھا پری نے دھیمی آواز میں سب کو سلام کیا اور شاہ زر کے پاس تھوڑا فاصلے پر بیٹھ گئی ارحم نے اپنی نگاہوں کو پری کے حُسن نما سراپے سے ہٹا کر کرپٹ پر مرکوز کیا
“ہم جانتے ہیں بیٹا ارحم سے بہت بڑی غلطی ہو گئی تھی وہ ہم سے یہ سب اس وقت ڈسکس کر لیتا تو ہم مل کر سب ہینڈل کر لیتے مگر وہ اس وقت اتنا پریشان تھا کہ اسے کچھ سمجھ نہیں اس لیے وہ گھر سے چلا گیا” صمد صاحب نے انہیں یقین دلانے کا کوشش کی “ٹھیک مان لیا ہوا غلط ہوا اب آپ لوگ کیوں آئے ہیں کیا چاہتے ہیں “شاہ زر نے سنجیدگی سے پوچھا
“ہم پری کو اپنی بہو بنانے آئے ہیں ابھی اسی وقت نکاحِ کر لیتے ہیں” ارحم کی امی جو کب سے خاموش تماشائی بنی بیٹھی تھی بول پڑی ۔ ان کی بات سن کر پری کے اوسطان ہٹا ہوئے اس نے شاہ زر کو دیکھا جس کے ماتھے پر شکن تھے “بہت خوب آپ لوگوں کا جب دل کیا تماشا بنایا اور اب سب سے چھپ کر نکاح کرنے چلے آئے جیسے کوئی گناہ کرنے آ گئے ہو مگر آپ شاید جانتے نہیں پریشے دانیال کل رات پریشے شاہ زر بن گئی ہے آپ کے کئے کی سزا مجھے مل گئی ہے آپ پوری عمر اس عذاب کو میں ہی برداشت کروں گا ” اس نے نفرت سے کہا وہاں بیٹھے سب لوگوں کو سانپ سونگھ گیا ارحم نے بےیقنی سے پری کو دیکھا جو اب بھی نظریں جھکائے بیٹھی تھی جس نے آج نظر نہ اٹھا کر دیکھنے کی قسم کھائی تھی
“پریشے میں آفس جا رہا ہوں کچھ کام دیکھنے ہیں واپسی میں مجھے تم تیار نظر آؤ” وہ کہ کر روکا نہیں
پری بھی آٹھ کر جانے لگی
“پری” ارحم نےاحتیار پکار بیھٹا پری روکی مڑ کے ایک شکوہ بری بظر ارحم پر ڈالی پھر روکی نہیں بھاگ کر سیڑھیاں چڑھتی اپنے کمرے میں بند ہو گئی۔ دانیال صاحب اور کلثوم بیگم بنا کچھ کہے وہاں سے چلے گئے صمد صاحب کو اب اپنا وہاں رہنا اب مناسب نہیں لگا اور وہ لوگ چلے گئے ارحم کے دل پر جو قیامت اس وقت گزار رہی تھی وہ صرف ارحم اور اللہ ہی جانتا تھا اس کا دل کیا وہ ڈھارے مر مر کر روئے اپنی سب سے قیمتی چیز آج وہ اپنے ہاتھوں سے خود سے دور کر چکا تھا خالی دل اور خالی دامن رہ گیا تھا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ ۔۔۔۔۔ ۔ ۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“مت جاؤ پری”
“مجھے جانا ہے مما ” وہ الماری سے کپڑے نکال کر بیگ میں رکھ رہی تھی
“شاہ زر کا رویہ ہمارے سامنے تمہارے ساتھ ٹھیک نہیں ہے وہاں جا کر پتا نہیں وہ کیسا سلوک کرے گا”انداز میں فکر تھی
“میں شاہ زر کو بدل دوں گی مجھے جانا ہے اس نے مجھے نہیں قبول کیا مجھے اس کے سامنے پیش کیا گیا ہے وہ اب جو چاہے سلوک کرے مجھے کوئی مسئلہ نہیں دی ہوئی چیز پر حق نہیں جتایا جاتا مما” انداز میں شکوہ تھا نہ شکایت لہجہ سپاٹ تھا ہر جذبے سے آری ۔ مما کے دل کو کچھ ہوا “آپ میری فکر نہ کرے میں خوش ہو آپ پاپا اور اپنا خیال رکھیئے گا میں جلدی آنے کی کوشش کروں گی ہر خوف کو دل سے نکال دے آپ کی بیٹی بہت مضبوط ہے ” مما کو ہار منا ہی پڑی وہ اور کر بھی کیا سکتی تھی دروازے پر دستک ہوئی “ہاں آ جاؤ ” ملازمہ اندار آئی “چھوٹے صاحب آپ کو بھلا رہے ہیں وہ کہ رہے تھے میں گاڑی میں آپ کا انتظار کر رہا ہوں جلدی سے آئے مجھے دیر ہو رہی ہے”
“ٹھیک ہے تم یہ بیگ کے کر جاؤ میں آ رہی ہوں ” مما پاپا سے مل کر وہ چلی گئی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔
وہ مری کے لیے نکل گئے پورا راستہ دونوں کی کوئی بات نہیں ہوئی راستے میں ایک ریسٹورنٹ کے سامنے گاڑی روکی
“اترو نیچے اور جا کر آڈر دو دو بلک کافی” اس نے جیب سے موبائل نکال کر پری سے کہا بات وہ پری سے کر رہا تھا پر نظرے موبائل پر فوکس تھی
“میں جاؤ “وہ بے یقینی سے بولی وہ لڑکی جس نے کبھی اٹھ کر پانی خود سے نہیں پیا تھا اسے یہ سب کچھ عجیب سا لگ رہا تھا پر وہ بھول گیی تھی کہ اب اس کی زندگی میں سب کچھ ایسا ہی عجیب ہونے والا ہے
شاہ زر نے پہلے موبائل جیب میں رکھا پھر اس کی طرف گھوما جو پرپل ہلکے سے کام والے شلوار قمیض میں بہت معصوم لگ رہی تھی بال ادھر ادھر سے نکل کر اس کے چہرے پر بار بار آ رہے تھے جسے وہ لاپرواہی سے کانوں کے پیچھے کر رہی تھی
شاہ زر کو اپنی طرف متوجہ دیکھ کر وہ ایک دم سے گھبرا گی” ہاں تو مخترمہ پری صاحبہ آپ کو سنائی نہیں دیا یا آپ کم سنتی ہے”وہ وہ چبا چبا کر بولا
“نہیں میرا مطلب ہے کہ ہم ویٹر کو آڈر دے دتے ہے نہ وہ سامنے دیکھے وہ ایک ویٹر ہماری طرف ہی آ رہا ہے ”
سر آڈر پلیز وہ ویٹر ان کی گاڑی کے پاس آ کر بولا ۔۔ “”وہ بندہ بھی دوسری گاڑی کی طرف متوجہ ہوا
“تم نے سنا نہیں جاؤ کافی لاؤ “وہ بےزاری سے بولا چہرے پر موجود مسکرہٹ اب بلکل ختم ہو گئی تھی انداز میں بیزاری تھی پری نے دکھ سے اپنے شوہر کو دیکھا اور اترنے لگی “سنو تمہیں ایسکریم پسند ہے کیا “وہ اس کے عجیب سے سوال پر حیران ہوئی
“جی بہت ۔”۔
“اور بلک کافی۔۔” ۔ ۔
“بلکل بھی نہیں”
“وہٹھیک آج سے تم ایسکریم نہیں کھاؤں گی اور صرف بلک کافی پیؤ گی بنا شوگر “اس نے نیا حکم دیا ۔
“پر میں نہیں پی سکتی مجھ سے نہیں پی جائے گی پلیز میں کبھی بھی ایسکریم نہیں کھاؤں گی ۔۔۔۔۔۔۔۔ ”
“تمہیں اک بار میں سمجھ کیوں نہیں آتی میری بکواس جاؤ کافی لاؤ دو اور ساتھ کچھ کھانے کے لیے بھی یہ لو پیسے ”
اس جلدی سے اس کے ہاتھ سے پیسے لیے اور ڈور کر ہوٹل گی وہ اس ظالم انسان کے سامنے رونا نہیں چاہتی تھی
پری نے زندگی میں پہلی بار اتنی بدمزہ کافی پی تھی مجبوری تھی ورنہ اس کے ساتھ بیٹھا بندہ اس کا خون پی جاتا
“اللہ کرے تم مر جاؤ شاہ زر” اس نے دل میں بد دعا دی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔
وہ لوگ مری کے علاقے میں داخل ہو گئے تھے گاڑی ایک پہاڑی راستے میں رواں دواں تھی درخت گاڑی کے ساتھ ساتھ بھاگتے نظر آ رہے تھے وہ ہر منظر کو غائب دماغی سے دیکھ رہی تھی کہ گاڑی ایک عالیشان گھر کے سامنے جا کر روکی وہ باہر سے ہی اتنا شاندار دیکھائی دے رہا تھا وہ گھر پہاڑ کے وسط میں بنایا گیا تھا وہاں سے ہر منظر بہت دلکش دکھائی دےرہا تھا اس وقت اگر حالات اچھے ہوتے تو پری تو اس قدرتی خوبصورتی کو دیکھ کر دیوانی ہو جاتی
“مس پریشے شاہ زر صاحبہ اگر آپ ہوش کی دنیا میں واپس آ جائے تو زیادہ اچھا ہو گا اور اگر آپ جان کر انجان بنی بیٹھی ہے کہ آپ کے لیے دروازا کھولا جائے گا اور آپ گاڑی سے تشریف اتارے گی تو میری اک بات کان کھول کر سن لوں یہاں تہمارے آگے پیچھے گھومنے کے لیے کوئی نوکر موجود نہیں ہے تمہیں سارا کام خود کرنا پڑے گا تمہیں میں یہاں ماہرانی بنا کر نہیں لیا مجھ پر زبردستی مسلط کی گئی ہو تم اور اتنا تو تم جانتی ہوں کہ زبردستی مسلط کیے انسان کی نہ کوئی عزت ہوتی ہے نہ کوئی مقام ” وہ طنز کی تیر چلا کر گاڑی سے اتر گیا یہ جانے بغیر کہ اس کے الفاظ کتنے تکلیف دہ تھے جو پری کے دل کو زخمی کر گئے
روح پر لگے زخم پوری عمر کھبی ٹھیک نہیں ہوتے
پری جلدی سے گاڑی سے نکل کر شاہ زر کے پیچھے گئی گھر اندار سے بھی بہت خوبصورت سے دیکوریٹ کیا گیا تھا
“بوا بوا یہاں آئے ”
“جی بیٹا” بوا بھاگتے ہوئے آئی “یہ پریشے ہے میری بیوی اج سے یہ یہی روکے گی اس کا سامان میرے روم کے ساتھ والے روم میں رکھوا دے اور ہاں آج یہ آرام کرے گی کل سے آپ اسے کچن کے سارے کام سمجا دے گی کچھ دن لگے گے سیکھنے میں اسے کوئی کام وام نہیں آتا کوکنگ ایک ویک میں آ جانی چاہیے اس کے بعد آپ کچن کے کام سے فارغ ہو جائے گی میری بیوی ہی اب سارا کام کرے گی اسے بہت شوق ہے میرا کام خود کرنے کا ” وہ چبا چبا کر بولا “میں زرہ فریش ہو کر باہر جا رہا ہوں آپ اسے اندر لے جائے ” وہ کہ کر اپنے روم کی طرف گیا ۔ بوا نے پری کو سلام کیا اور پری نے سر کے اشارے سے جواب دیا بوا نے اسے لے کر کمرے کی طرف گئی پری جلدی سے روم میں گئی اور روم کو لاکٹ کر کے ادھر ہی دروازے کے ساتھ بیٹھ گئی آنسو خود بخود آنکھوں سے نکلنے لگے جسے پری نے روکنے کی کوئی کوشش نہیں کی زخم تازہ تازہ تھے رونا تو بار بار آنا ہی تھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...