(Last Updated On: )
سپردگی میں نکل گیا وہ زمیں سے آگے
نشانِ سجدہ پڑا تھا اس کا، جبیں سے آگے
رواں سمندر کا چلتا ساحل ہے آدمی بھی
اسی کی زد میں کہیں سے پیچھے کہیں سے آگے
ضرور ہم بھی مسائل دل پہ غور کرتے
نکلنے پاتے کبھی جو نانِ جویں سے آگے
ابھی تو نو مشق جستجو ہوں، ابھی سفر میں
ہے اور کچھ بھی حدود عقل و یقیں سے آگے
سفر کا خاکہ لگے کہ پرکار سے بنا ہے
وہی ذرا سی نمود ہاں کی، نہیں سے آگے
پلٹ گیا خوش مشام طائر، سراغ پا کر
کہ بوئے سازش اڑی تھی جائے کمیں
سے آگے
٭٭٭