کرۂ ارض کو اللہ نے سماوی جنت کا ایک پرتو اور عکس قرار دیا ہے۔ایک ایسی جنت جہاں اشرف المخلوقات چین، سکون،آرام اور راحت کی سانس لے سکے۔معلوم نہیں کس کو کس کی نظر لگ گئی اور ہوس، لالچ، نفسانفسی،نفرت،تعصب،غیبت، جھوٹ،منافقت،حسد،کینہ اور نفاق نے پہلے جہان آب و گِل میں راستے بنائے اور پھر ڈیرے ہی جمالیے۔حساس دل رکھنے والا انسان اس حالت کو دیکھ کرکرب کے عالم میں چلا جاتا ہے۔دل خون کے آنسو روتا ہے۔کوئی چپ رہ کر سہتا ہے،کوئی آنسو بہا دیتا ہے،کوئی اندر ہی اندر کڑھتا ہے۔کوئی بول کر دل کا درد عیاں کرتا ہے اور فاطمہ عثمان ان آزار کو جمع کرکے ” آزار گاہ ” کی صورت میں افسانوی مجموعہ منظر عام پر لانے میں کامیاب ہوجاتی ہیں۔ذاتی کرب وملال کو ایک لحظہ کے لیے نظر انداز کرنے کے بعد جب فاطمہ عثمان انسانیت کو درپیش غم والم پر ایک نظر ڈالتی ہیں تو نہ صرف ان کی سوچ کے دھار ے بلکہ ان کا تخلیقی عمل بھی آفاقی ہونے لگتا ہے۔
حلقہ ارباب ذوق راولپنڈی سے انگریزی نظم نگاری کی صورت میں اپنے ادبی سفر کا آغاز کرنے والی فاطمہ عثمان بہت جلد افسانہ نگاری کے ذریعے تخلیقی کہانیاں تحریر کرنے میں کامیابی سے ہمکنار ہوئیں۔ ان کی کہانیاں ”دھارے” اور پھر ” دھارے ثانی” میں شائع ہوتی رہیں اور داد و تحسین حاصل کرتی رہیں۔” تسطیر”، ” ادب لطیف” اور ” گونجتی سرگوشیوں” میں ان کے ابتدائی افسانے شامل کیے گئے،جس سے ان کو حوصلہ افزائی حاصل ہوئی اور ایسے تخلیقی سفر کی بنیاد پڑی جو نہ ختم ہونے والا ہے۔ حساس دل رکھنے ولا ہر فنکار تحریر وتخلیق میں دل کے خون کو روشنائی بناتا ہے۔فاطمہ نے اپنے افسانوں میں اپنے محسو سا ت کو لفظوں کے جال میں پرویا ہے۔ان کا ہر افسانہ اُس احساس کا قصہ ہے جو ان کا دل کرب کی چبھن سے چھلنی ہونے کے بعد نوکِ قلم سے تحریر کرنے پر مجبور کردیتا ہے۔ انہوں نے اپنے افسانوں کو کرب کے اظہار کا وسیلہ ضرور بنایا ہے۔ مگر ابلاغ کے تمام فنی ذرائع،ادبی شان،تخلیقی خوبصورتی،کامل کاملیت،فنکارانہ خوبصورتی،افسانوی جمال اور لفظ و معانی کے جملہ لوازم کا بھر پور التزام بھی کیا ہے۔ان کا اسلوب قاری کے لیے زندگی کاایک ناگوار اور درشت جذبہ بننے کی بجائے نشاط آمیزکیفیت کا روپ دھار لیتا ہے۔ کہ جس کے بغیر ہر خوشی نامکمل،انسانیت ادھوری اور خود زندگی ویران دکھائی دینے لگتی ہے۔فن کار کا کمال یہ نہیں کہ وہ زمانے کی ناہمواریت کو ناپسندیدہ ولن بنا کر پیش کرے، بلکہ ادیب کی خوبی تو وہ مہارت ہے جہاں زندگی کے تاریک رخ بھی ایک ہیرو کی طرح ابھریں۔ فاطمہ عثمان نے بھی اپنے اسلوب کی مدد سے اپنے پڑھنے والوں کو غموں سے پیار،الم سے شفقت، دکھ و درد سے ہمدردی اور آزار سے محبت کرنے پر مجبور کردیا ہے۔اب غم غم نہیں لگتا بلکہ ایک خوشگوار احساس میں تبدیل ہو کر انسانی مضبوطی اور داخلی قوت کا ترجمان بن کر مثبت دھارے میں بدل چکا ہے۔یہ فاطمہ عثمان کا اصل کمال اور تخلیقی ہنر مندی ہے۔
مشاہدہ فاطمہ عثمان کے افسانوں کا ایک نمایاں وصف بن کر نمودار ہوا ہے۔فاطمہ بینائی کی ایک ایسی پرت سے روشناس ہیں جہاں ان کی داخلی آنکھ اشیا کے باطن میں جھانک کر خارج میں موجود ان پوشیدہ پہلوؤں کا کھوج لگانے میں کامیاب ہوجاتی ہیں جو سراغ رساں کی عقابی نگاہوں سے بھی اوجھل ہوتے ہیں۔ قاری کے لیے تحیر کا سامان اس وقت موجزن ہو رہا ہوتا ہے۔جب افسانہ پڑھنے والا ہر اس پہلو پر چونک جاتا ہے جسے خود قاری نے اپنے ارد گرد کئی بار دیکھا ہے۔مگر اس پہلو میں موجود کربناکی کی پرتوں سے گوناواقفیت ہی رہتی ہے مگر جب اسے ان کا علم ہوتا ہے تو وہ ششدر رہ جاتا ہے۔فاطمہ عثمان ایک گہری نظر،حساس دل اور فنکارانہ ذہن کی حامل ہیں اور یہی ان کا غالب اور کامیاب پہلو ہے جو ان کے فنی سفر میں کاملیت کی موثر دلیل ہے کیونکہ فاطمہ کا مقصد تفنن طبع نہیں ہے۔ وہ صرف محظوظ ہونے یا لطف اندوز کرنے کے لیے افسانے تحریر نہیں کررہی ہیں بلکہ وہ بلبلاتی سچائی کو دیکھ کر حقیقت نگاری کے بول بولتی چلی جاتی ہیں اور یہ ناہموار جذبے خود ہی افسانوں کا روپ دھار لیتے ہیں۔
فاطمہ عثمان کی معاشرے میں موجود ہوس ناکی،غرض ہائے نفسانی،لالچ،نفرت،عداوت،حسد،کینہ پروری اور جھوٹ جیسی ملاوٹوں پر گہری نظر ہے اور ان ہی موضوعات کو وہ ایک نیا روپ دے کر موثر اندازمیں افسانوں میں پروتی جاتی ہیں۔ ان کے افسانوں کے کردار صرف انسان ہی نہیں ہیں بلکہ جھوٹ،منافقت،حسد وغیرہ خود ان کے افسانوں کے جیتے جاگتے کردار بن کے سامنے آتے ہیں۔فاطمہ کا تخلیقی سفر ابھی جاری ہے۔ ان کے افسانوں میں جو فنی گرفت،فنکارانہ چابکدستی،ابدی مہارت اور جدت کاری ہے وہ اس بات کا ثبوت ہے کہ مستقبل قریب میں ایک نام معتبر افسانہ نگاروں میں اعتبار کی دولت سے ہمکنار ہوگا اور وہ نام کسی اور کا نہیں فاطمہ عثمان کا ہوگا۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...