(Last Updated On: )
آسمانِ وقت پر روشن ستارا آپ کا
نقص مجھ کو، فائدہ سارے کا سارا آپ کا
دکھ ھؤا یہ جان کر، بیٹے الگ رہنے لگے
کچھ بتاؤ، کس طرح اب ھے گزارا آپ کا؟
باندھ لو رختِ سفر پھر سے مدینہ کے لیئے
کچھ نہیں اس کے سوا بس اب تو چارہ آپ کا
مالکن نے ہاتھ سے پکڑا، نکالا ڈانٹ کر
شب، مِری بیٹھک پہ تھا نوکر بچارا آپ کا
مجھ سے مت پوچھو کہ میں نے کس طرح کے غم سہے
کس طرح دکھ جھیل کر قرضہ اُتارا آپ کا
بھائی نے بے دخل مجھ کو کر دیا میراث سے
اور یہ تک کہہ دیا، اس میں نہ پارا آپ کا۔
ناشتے پہ پھر سے بیگم سے لڑائی ھو گئی؟
مجھ پہ نکلا آج پھر غصہ وہ سارا آپ کا
ماں منع کرتی رہی مجھ کو شراکت سے مگر
پڑ گیا سر پر مِرے آخر خسارا آپ کا
روز کا معمول ھے حق تلفیاں کرنا رشیدؔ
کب تلک آخر رہے گا، یہ اجارا آپ کا