فرض کیجیئے آپکا پاسورڈ تین حروف پر مشتمل ہے اور سارے حروف انگریزی کے ہیں۔ انگریزی کے ایلفابیٹس یعنی A, B,C,D وغیرہ۔ اب ایک ہیکر کو معلوم ہے کہ انگریزی میں کل 26 حروف ہیں۔ اگر وہ کوئی ایسا پروگرام بناتا ہے جو رینڈم حروف جنریٹ کرتا ہے۔ جو ایک حرف کو رینڈملی آپکے پاسورڈ کے طور پر ٹرائی کرتا ہے اور جب سارے حروف چیک کر لیتا ہے تو پھر دو دو حروف کی جوڑی سے آپکا پاسورڈ ڈھونڈنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس سے ناکامی پر تین کے سیٹ پر آتا ہے۔ اب تین کے سیٹ کے 26 حروف میں کتنے کمبینیشن بنیں گے؟
اسکا جواب ہے 2600 کمبینیشنز. اگر آپکا پاسورڈ تین کی بجائے 4 حروف پر مشتمل ہو تو اسکے کمینیشن بنیں گے 14950. اور اگر یہ دس انگریزی کے حروف پر مشتمل ہو تو 53 لاکھ سے زیادہ۔ سو ہیکر کا کمپیوٹر پروگرام جو نہایت سادہ اُصولوں پر قائم ہے ہر کمبینشن ٹرائی کرے گا اور بالآخر آپکا پاسورڈ ڈھونڈ نکالے گا۔ ایک جدید اور تیز رفتار کمپیوٹر کے لیے 53 لاکھ سے زائد بار کمبینشن ٹرائی کرنا شاید چند گھنٹوں کا کام ہو(آج کل بار بار پاسورڈ ٹرائی کرنے پر اکاؤنٹس لاک ہو جاتے ہیں اور آگے سے پوچھا جاتا ہے کہ بھائی تو بندہ ہے کہ روبوٹ). خیر جس قدر زیادہ تیز رفتار کمپیوٹر ہو گا اس قدر جلد پاسورڈ کریک ہو گا۔ اب اگر آپکے پاس کمپیوٹر سلو ہو جو ایک سیکنڈ میں محض ایک کمبینیشن ٹرائی کر سکتا ہو تو آپکو تقریبا 53 لاکھ سیکنڈ لگیں گے، چھ حروف کے انگریزی کے پاسورڈ کو کریک کرنے میں یہ بنتے ہیں تقریبا 61 دن سے کچھ زیادہ۔ اور سلو کمپیوٹر ہو تو سالوں لگیں گے۔ مگر ایک نہ ایک دن پاسورڈ مل ہی جائے گا۔
کائنات کو بنے 13.8 ارب سال ہو چکے ہیں۔ زمین کو بنے 4.5 ارب سال۔ اور زمین پر زندگی کو نمودار ہونے میں اسکی پیدائش سے ایک ارب سال سے کچھ کم عرصہ لگا۔ ایک ارب سال میں محض ایک بنیادی خلیہ بنا اُن اجزا سے جو زمین پر موجود تھے۔ کئی بار زندگی بنتی بنتی رہ گئی ہو گی۔ کئی بار بنی ہو گی پر آگے نہ بڑھ پائی ہو گی مگر ایک بار ایسا ضرور ہوا ہو گا کہ زندگی آگے چل نکلی۔ کیوں ؟
کیونکہ ایک ارب سال ایک بہت بڑا عرصہ ہے!! کیا آپکا دماغ ایک ارب سال کا تصور کر سکتا ہے؟ ایک ارب کو صفر سے ایک ارب تک گننے میں آپکو ایک عمر یعنی اندازاً 60 سال بغیر کھائے پئے سوئے بس گننے میں لگیں گے۔ زمین پر 3.8 ارب سال پہلے وجود آنے والی زندگی کو 3.8 ارب سال لگے کہ اس سے ارتقاء کا عمل ہوتے انسان بن سکیں۔ یہ کتنا وقت ہے؟ یہ اتنا وقت ہے کہ انسانی ذہن اسکا احاطہ بھی نہیں کر سکتا۔
انسان کا دماغ دراصل ایکسپونینشل یا کثافتی سوچ نہیں رکھتا۔ یعنی اگر میں آپ سے کہوں کہ ایک پیپر کو کتنی بار فولڈ کریں کہ اسکی موٹائی اتنی ہو جائے کہ یہ زمین سے چاند تک پہنچ جائے تو آپ شاید نہ بتا پائیں تو اسکا جواب ہے محض 42 مرتبہ۔ اور اگر 81 مرتبہ ایک عام پیپر کو تہہ کریں تو اتنا فاصلہ ہو گا جتنا روشنی ایک سال میں طے کرتی ہے یعنی ایک نوری سال۔
اس لیے بہت سے لوگوں کو یہ سمجھانا مشکل ہوتا ہے کہ کوئی بھی شے خود بخود میں کیسے وجود میں آ گئی۔ دراصل یہ خود بخود نہیں ہے۔ اسے یوں سمجھیں۔۔کائنات کے کچھ بنیادی اُصول ہیں جن میں رہ کر کائنات میں مختلف کمبینشنز بنتے رہتے ہیں۔ تو کہیں آپکو ستارے دکھیں گے، کہیں آپکو سیارے، کہیں بلیک ہولز تو کہیں نیوٹران سٹارز۔ کہیں انسان، کہیں جانور تو کہیں بیکٹریا۔ یہ سب یوں سمجھیں کہ شطرنج کا کھیل ہے جس میں ہر چال ایک نئی چال کو جنم دیتی ہے۔ سادہ چیزوں سے کمپلیکس چیزوں کا بننا ایک لامحدود وقت میں کوئی اچھنبے کی بات نہیں۔ پرانے دور کے دلائل کو اپڈیٹ کر لیجئے۔
اس فارمولے کے تحت کیا ایلینز موجود ہونگے؟ ہو سکتا ہے اب ہوں، ہو سکتا ہے ماضی میں ہوں، یا ہو سکتا ہے مستقبل میں ہوں۔ کیا ستاروں جی ستاروں پر کوئی زندگی ہو سکتی ہے؟ زمینی زندگی نہیں ایٹمز یا نیوٹرینوز کی ایسی ترتیب جو زندگی کی بنیادی تعریف یعنی بقا اور افزائش ِ نسل کی تعریف پر پوری اُترتی ہو؟ ممکنات میں تو یہ بھی ہے۔ سائنس میں آج ایک سوال یہ بھی ہے کہ کیا کائنات کے یہ بنیادی اُصول کائنات کی ابتدا پر ایسے ہی تھے یا ان میں بدلاؤ آیا یعنی کیا کائناتی اُصول بھی ارتقاء کے عمل سے گزرے؟ جس طرح شطرنج کے اُصول زمانے اور تہذیبوں کے ساتھ تبدیل ہوئے؟ کیا یہ سب اسی کائنات میں ہوا یا زندگی کی طرح کائنات کے بھی کئی کمبینشنز بنے، کئی کائناتیں اس عمل میں معدوم ہو گئی اور کئی وجود رکھ کر موجود ہیں؟ کیا میض ایک کائنات ہے یا لامحدود ؟ یہ سوالات ہمیں سائنس نے کرنا سکھائے۔ یہ سوالات آسان نہیں۔ انکے جواب ہمیں ڈھونڈنے ہیں مگر کیسے؟ سائنس اور منطق سے۔ نہ کہ کسی ایسے غلط جواب سے جسے ثابت ہی نہ کیا جا سکتا ہو اور جو مخلتف تہذیبوں میں مخلتف ہو۔ ایسے جوابات آپکو مزید علم حاصل کرنے سے روک دیتے ہیں۔
عظیم نوبل انعام یافتہ سائنسدان رچرڈ فائنمین نے کہا تھا:
“میں چاہوں گا کہ میرے پاس وہ سوال ہوں جنکے جواب نہ ہوں بجائے اسکے کہ وہ جواب جن پر سوال نہ کیا جا سکے!!”
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...