ہر صبح اور ہر شام، میں اپنے آپ کو ٹٹولتی ہوں اور جب اپنے آپ کو موجود پاتی ہوں تو اطمینان کا سانس لیتی ہوں۔ وہ میری اولاد ہیں۔ ان کا شکوہ کرتے بھی لجا آتی ہے۔لیکن یہ عجیب ہیں۔ عقل اور دانش کے دعوے کرتے ہیں لیکن اتنے احمق ہیں کہ جس ڈال پر بیٹھے ہیں اسی کو ہی کاٹنے میں لگے ہیں۔ یہ بیچارے بھی کیا کریں کیونکہ فساد اور لہو آشامی ان کی جینز میں موجود ہے، اگر سب کی جینز میں نہ بھی ہو تو بیشتر کی جینز میں ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہونا چاہئے کہ وہ اپنا بھلا بُرا ا بھی سوچنا ترک کر دیں۔
’’میں ماضی بعید کی اس ساعت کو کیسے بھول سکتی ہوں جب میں موجود تھی اور یہ نہ تھے۔ اس ساعت کو یہ بھولے رہتے ہیں۔ میں کبھی نہیں بھولتی۔ ان کی پیدائش اور تخلیق کا موضوع زیرِ بحث تھا۔ ان کے خلاف ووٹ پڑ چکے تو ان کے حق میں کاسٹنگ ووٹ نے فیصلہ کروا دیا۔ مخالفت میں ووٹ ڈالنے والوں میں ایک اَڑ گیا۔ واک آؤٹ کر گیا یا اس کو راندۂ درگاہ قرار دے کر اور ایک لمبی رسی سے باندھ کر۔۔ باہر دوسروں کو ورغلانے اور راہِ راست سے بھٹکانے کے لئے آزاد چھوڑ دیا گیا۔ اب اس کو میری غلطی کہو یا بھولپن، میں نے اس کے لئے اپنی کوکھ اور گود دونوں ہی پیش کر دیں یا یوں کہو بغیر کسی چون و چرا قبول کر لیا۔ اس سمے میرے وہم وگمان میں بھی نہیں آیا کہ یہ انا پرست، فسادی، خون آشام، تخریب کار اور جنگجو خود میرے بھی در پے ہو جائیں گے۔ ان کی بقا کو جو خطرات لاحق ہیں وہ ان سے کافی حد تک آگاہ ہو گئے ہیں اورہوتے جا رہے ہیں۔ بہت جلد وہ پانی اور غذائی قلت سے دو چار ہونے والے ہیں۔ فضائی آلودگی ان پر منڈلا رہی ہے۔ کسی بڑی جنگ سے ان کو حالات نے بچا رکھا ہے تو انہوں نے چھوٹی جنگوں کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔ استعمار اور استحصال شانہ بشانہ مصروف ہیں۔ جنگ و جدال اور لوٹ کھسوٹ میں۔ ایسی صورتِ حال میں اپنے وجود اور اپنی بقا کے لئے تردّد نہ کروں تو اور کیا کروں؟۔ ‘‘
’’ تم نے بیکار ہی اتنی لمبی چوڑی تقریر کر ڈالی۔ تمہارے خدشات بے بنیاد نہیں۔ میں ان کو حقیقی مانتا ہوں۔ میں ان سب حالات سے آگاہ ہوں کیونکہ میں روشنی ہوں۔ مجھ سے کوئی بھی چھپا ڈھکا نہیں رہ سکتا لیکن میں یہ سوچ کر حیران ہوں کہ تم اتنی پریشان اور فکر مند کیوں ہو جب کہ مذکورہ سارے مسائل کا حل خود تمہارے ہاتھوں میں ہے۔‘‘
’’ میرے ان مسائل کا حل میرے اپنے پاس ہے۔ میرے اپنے ہاتھوں میں۔ یہ تم کیا کہہ رہے ہو۔ ؟ ‘‘
’’ تو کیا میں نے غلط کہہ دیا۔؟ کیا تمہارے مسائل کا حل تمہارے اپنے ہاتھوں میں نہیں ہے۔ سیدھی سی بات ہے ان سے تمہیں خطرہ ہے تم ان کا خاتمہ کر دو یا کر وا دو،۔۔ تمہارا مسئلہ ختم ہمیشہ ہمیشہ کے لئے۔ آیا سمجھ میں۔ ‘‘
’’ وہ کس طرح۔ ؟ ۔ ‘‘
’’ وہ اس طرح کہ تم میرے قریب آؤ ،اتنی مدت کے لئے کہ تمہارا ہدف حاصل ہو جائے۔ جو تمہارے در پے ہیں سب کے سب ختم ہو جائیں ۔ ‘‘
’’ میں تمہارے قریب ہو گئی تو۔ یہ بیچارے تمہاری تپش سے جل جائیں گے۔ ہے ہے۔ یہ مجھ سے دیکھا نہ جائے گا۔ ‘‘
’’ کیوں ۔؟۔ ‘‘
’’ میں ان کی ماں جو ہوں۔ ایک بات اور ان میں سب کے سب قابیل نہیں ہیں۔ جہاں قابیل ہیں وہاں ہابیل بھی ہیں۔ جہاں راون ہیں وہاں رام بھی ہیں۔ ‘‘
’’ تمہارا دکھڑا سن کر میں نے تمہیں مشورہ دینے کی غلطی کر دی۔ مجھے مشورہ دینے سے پہلے یہ دیکھنا چاہئے تھا کہ تم ماں ہو۔ میں ماؤں کو مشورہ دینے کا اہل نہیں ہوں۔ ‘‘
’’ وہ کیوں۔ ؟ ‘‘
’’ میں بانجھ ہوں۔ !! ‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...