میں ملازمت کے لئے انٹرویو دینے گیا ہوا تھا۔ ہم سب امیدوار قطار میں کھڑے تھے کہ ایک پر وقار شخص وہاں پہنچا۔ اس نے ایک طائرانہ نظر ہم سب پہ ڈالی، مجھے وہ جانا پہچانا سا لگا۔ ادھر جب اس نے مجھے دیکھا تو زیر لب مسکرا دیا۔ جیسے اس نے مجھے پہچان لیا ہو، لیکن میں اسے نہ پہچان سکا۔ میں ذہن پہ زور دیتا رہا۔ مگر مجھے یاد نہ آیا۔ ادھر وہ آدمی سیدھا ادارے کے مالک کے کمرے میں داخل ہو گیا۔ تب میں نے دفتر کے آدمی سے پوچھا: ’’یہ صاحب کون تھے؟‘‘
اس نے بتایا: ’’یہ سعید حسن صاحب ہیں، اس ادارے کے مالک منیب حسن کے والد۔‘‘
ان کا نام سن کر مجھے جھٹکا سا لگا، وہ میرے اسکول کے زمانے کے استاد تھے۔ سر سعید صاحب۔ ان کا نام سن کر میں ماضی میں پہنچ گیا اور اسکول کے زمانے کی یادیں ذہن میں گردش کرنے لگیں۔ وہ بہت اچھا پڑھاتے تھے، بہت ہی شفیق انسان تھے، لیکن ایک بار میری ان سے ان بن ہوئی تھی۔ انہوں نے میری ایک غلطی پہ مجھے سمجھایا تھا، غلطی میری تھی لیکن میں جوانی کے جوش میں تھا۔ میں نے ان کی نصیحت کو نظر انداز کر دیا تھا اور ان کے ساتھ بدتمیزی بھی کی تھی۔ صرف یہی نہیں بلکہ اسکول سے واپسی پر انہیں راستے میں روک کر برے انجام کی دھمکیاں بھی دی تھیں۔ یہ سب کچھ یاد آ جانے کے بعد مجھے خوف سا محسوس ہوا اور مجھے یہ ملازمت خطرے میں پڑتی محسوس ہوئی کیوں کہ انہوں نے یقیناً مجھے پہچان لیا تھا، اسی لیے تو وہ مسکرائے تھے اور جب وہ مجھے پہچان چکے ہیں تو اپنے بیٹے کے ادارے میں مجھے کیوں ملازمت کرنے دیں گے؟؟۔ یہ سوچ کر میں زیر لب بڑبڑایا: ’’اب تو میں گیا کام سے۔‘‘ ورنہ اس سے پہلے مجھے ملازمت ملنے کا یقین تھا کیوں کہ اس ملازمت کے لئے مطلوبہ قابلیت آئی۔ سی۔ ایس تھی جبکہ میں نے تو کمپیوٹر سائنس میں بی ایس کی ڈگری حاصل کر رکھی تھی اور اس کے اضافی نمبر مجھے مل چکے تھے، اس لیے میں اس ملازمت کے لئے مضبوط امیدوار تھا لیکن اب؟؟ اب مجھے خدشات نے گھیر لیا تھا اور کئی سوالیہ نشان میرے سامنے گردش کر رہے تھے۔ سر سعید حسن نے اپنے بیٹے کو کہہ دیا تو مجھے فوراً مسترد کر دیا جائے گا۔ خیر اب کیا ہو سکتا تھا۔ میں قطار میں کھڑا اپنی باری اور اپنے انجام کا انتظار کرنے لگا۔ باری آنے پر میں ڈرے ڈرے انداز میں اندر داخل ہوا:
’’السلام علیکم میرا نام شاہ زیب ہے۔‘‘
میں نے ادارے کے مالک منیب حسن کی طرف ہاتھ بڑھایا، میری نگاہیں اس کے چہرے کے تاثرات کو پڑھ رہی تھیں، میں سوچ رہا تھا کہ وہاں غصہ اور نفرت ہو گی لیکن ایسا نہ تھا، منیب حسن نے گرمجوشی سے مصافحہ کیا اور بولے:
’’وعلیکم السلام، آئیے شاہ زیب صاحب، بہت خوشی ہوئی آپ سے مل کر، تشریف لائیں آپ میرے ابو کے شاگرد ہیں، وہ ابھی آپ کی بہت تعریف کر رہے تھے۔‘‘
’’جیی ی ی!!‘‘ میرے منہ سے لمبا سا ’’جی‘‘ نکلا اور مجھے حیرت کا شدید جھٹکا لگا، یعنی سر سعید صاحب نے مجھے پہچان بھی لیا، اور پھر بھی میرے حق میں سفارش کی۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے؟؟
’’اپنی سی۔ وی دکھائیے۔‘‘
منیب حسن کی آواز نے میری سوچوں کا تسلسل توڑ دیا اور میں نے جلدی سے اپنی سی۔ وی ٹیبل پر رکھ دی، وہ کچھ دیر پڑھتے رہے اور پھر بولے:
’’ابو نے واقعی درست کہا، آپ کی تمام ڈگریاں فرسٹ ڈویژن میں ہیں اور آپ نے تو کمپیوٹر سائنس میں بی۔ ایس بھی کر رکھا ہے، یوں آپ کے میرٹ میں اضافی قابلیت کے نمبر بھی شامل ہو گئے ہیں، واہ بھئی واہ۔‘‘
’’جی، جی، یہ استادِ محترم کی اعلیٰ ظرفی ہے کہ مجھ جیسے نکمے کو یاد رکھا۔ میں ان کی شفقت کا مقروض ہوں۔‘‘
میں نے ممنونیت بھرے لہجے میں کہا۔
’’بالکل، لیکن اچھا شاگرد بھی استاد کی نیک نامی کا باعث ہوتا ہے، امید ہے آپ بھی اپنے اساتذہ کا نام روشن کریں گے۔‘‘ ادارے کے مالک منیب حسن کے کہے گئے یہ الفاظ مجھے اندر ہی اندر کچوکے لگا رہے تھے اور میرا ضمیر مجھے ملامت کر رہا تھا۔ احساس ندامت کی حدت مجھے جلا رہی تھی۔ میں بمشکل اتنا کہہ پایا:
’’جی ضرور، کیا ان سے ملاقات ہو سکتی ہے؟‘‘
’’وہ تو دو منٹ بیٹھ کر چلے گئے تھے، اچھا شاہ زیب صاحب، آپ ویسے بھی میرٹ میں سر فہرست ہیں، اضافی قابلیت کے نمبروں کی بدولت آپ کے چانسز زیادہ ہیں۔ میں انٹرویوز کے بعد اپنے پینل سے مشورہ کرتا ہوں، امید ہے کہ ہمارا پینل آپ کو منتخب کر لے گا، اس ہفتے کے اختتام تک آپ کو لیٹر مل جائے گا۔‘‘
منیب صاحب نے کہا اور مصافحے کے لیے ہاتھ آگے بڑھا دیا، اس کا مطلب تھا کہ اب آپ جا سکتے ہیں۔ میں نے ان کا شکریہ ادا کیا اور باہر نکل آیا۔ اگلے ہفتے اس ادارے میں میری ملازمت کا پہلا دن تھا، شام کو ڈیوٹی آف ہونے کے وقت مجھے سر سعید صاحب نظر آئے، میں بھاگ کر ان کے پاس پہنچا اور سلام کرنے کے بعد سر جھکا کر ٹھہر گیا اور بولا: ’’سر!! مجھے معاف کر دیں۔‘‘ میری آواز بھرا چکی تھی اور آنکھوں میں آنسو اتر آئے تھے۔ ’’کیا کہہ رہے ہو بیٹے؟؟۔‘‘
سر سعید صاحب کے الفاظ سن کر میں نے سر اوپر اٹھایا اور ان کے چہرے پر نظر ڈالی جہاں اس وقت شفقت کا سمندر ٹھاٹھیں مار رہا تھا، ادھر وہ کہہ رہے تھے: ’’بھلا ایک استاد بھی اپنے طالب علم بیٹے سے ناراض رہ سکتا ہے؟، بیٹے میں نے تو آپ کو اسی روز ہی معاف کر دیا تھا اور آپ کو دعا دی تھی، آپ بے فکر رہیں اور اپنے کام پہ توجہ رکھیں۔‘‘ یہ بات سن کر میرے ضبط کے بند ٹوٹ گئے اور میں اسکول کے زمانے والا چھوٹا سا شاہ زیب بن گیا، میں نے آگے بڑھ کر ان کے ہاتھ تھام کر چومے اور اپنا سر جھکا کر زار و قطار رو پڑا۔ یہ آنسو میرے دل کے آئینے سے کدورت کو دھو رہے تھے اور دل کا آئینہ صاف ہوتا جا رہا تھا، جس میں مجھے محبت کا عکس صاف شفاف دکھائی دے رہا تھا، ایک روحانی باپ کی محبت!
٭٭٭
تشکر: مصنف جنہوں نے اس کی فائل اور سرورق کی تصویر فراہم کی
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...