جنگل کا یہ حصہ کافی گنجان تھا۔ درختوں کے گھنے جھنڈ، جھاڑیاں اور گھاس پھونس، سب کچھ بکثرت پھیلا ہوا تھا۔ یہاں دس کے قریب خیمے نصب تھے۔ خیموں کے باہر کٹائی کرنے کے لیے مشینری اور بار برداری کے لیے ٹرک قطار میں کھڑے تھے۔ ایک بہت بڑی فرم یہاں اپنی ٹیم کے ہمراہ درختوں کی کٹائی کے لیے فروکش تھی۔ وہ دن بھر کام کرتے اور رات کو گپ شپ لگاتے اور پھر سو جاتے۔ ان کو یہاں آئے ہوئے ایک ہفتہ ہو گیا تھا۔ ایک خیمے میں موجود چند ٹیم ممبرز آپس میں بات چیت کر رہے تھے۔
’’یار! یہ جنگل تو عجیب ہے، ہیں نا؟‘‘
’’کیسے عجیب ہے؟‘‘ کسی نے سوال کیا۔
’’بھئی، ایک ہفتہ ہو گیا ہے یہاں آئے ہوئے مگر نہ کوئی جانور نظر آیا ہے، نہ کسی کی آواز سنائی دی ہے۔‘‘
اس آدمی نے منہ بنایا۔
’’مسٹر، شکر کرو کہ جانور نظر نہیں آئے ورنہ ہم میں سے کچھ کی فاتحہ خوانی ہو چکی ہوتی۔‘‘
ایک بڑی عمر کے ممبر نے اس سے بھی زیادہ برا بنا کر کہا۔ سب مسکرا کر رہ گئے۔
’’سوری، میں ڈرپوک نہیں ہوں کسی اور کی طرح، میں تو کل کام کے بعد جنگل کی سیر کروں گا اور جانوروں کو دیکھے بنا واپس نہیں آؤں گا، یہ ارحم آفتاب کا اعلان ہے اور جو میرے ساتھ آنا چاہے تو کل کام ختم ہونے کے بعد فوراً آ جائے۔‘‘ اس آدمی نے جس کا نام ارحم تھا، فاخرانہ انداز میں اعلان کیا۔ سب نے حیرت سے اس کی بات سنی، چند ایک طنزیہ انداز میں ہنسے مگر ارحم کندھے اچکاتا ہوا خیمے سے باہر چلا گیا۔
٭…٭…٭
’’نہیں ارحم نہیں، یہ بہت خطرناک ہو گا، ہم سپروائزر سے اجازت لیے بغیر آئے ہیں اور اب ہمیں کافی وقت ہو گیا ہے، شاید تین گھنٹے، میری مانو تو اب ہم واپس چلتے ہیں۔‘‘ ایک دوست نے سمجھاتے ہوئے کہا۔ وہ تقریباً سات نفوس تھے جو اس وقت جنگل کے بیچوں بیچ کھڑے ہوئے تھے۔ ارحم کی ضد تھی کہ ابھی آگے جایا جائے مگر اس کے ساتھی انکار کر رہے تھے۔ ارحم ضد کا پکا تھا، اس نے کہا:
’’ٹھیک ہے، تم واپس جاؤ، میں اکیلا ہی چلا جاؤں گا۔‘‘
’’ہاں ارحم ٹھیک کہہ رہا ہے، ہم روز روز تھوڑی آئیں گے، آج نکلے ہیں تو اچھی طرح گھوم پھر لیں۔‘‘
ایک اور ممبر نے اس کی تائید کر دی۔ پھر تو چند اور ممبرز کی طرف سے بھی ’’چلو چلتے ہیں‘‘ ، ’’دیکھا جائے گا‘‘ کی آوازیں آنے لگیں۔ ارحم کا چہرہ خوشی سے جگمگا اٹھا اور پھر ان کا قافلہ روانہ ہو گیا۔ ان کے پاس سکیورٹی گارڈز سے مستعار لی گئی دو گنیں تھیں، اس کے علاوہ ایک دو ممبرز کے پاس ذاتی اسلحہ بھی تھا، لیکن اس کا ایمونیشن نہ ہونے کے برابر تھا۔ اچانک وہ چلتے چلتے رک گئے، منظر ہی ایسا تھا، حیرانی ان پہ چھا چکی تھی، انہیں وہاں سے آدھا میل دور پہاڑیاں نظر آ رہی تھیں، لیکن حیرانی کی بات اور تھی، وہاں پہ آگ کا الاؤ روشن تھا اور سائے لہراتے ہوئے دکھائی دے رہے تھے۔ چند لمحوں تک وہ پتھر بنے یہ منظر دیکھتے رہے، پھر ارحم کی کانپتی آواز سنائی دی:
’’دوستو، یہ ہم کیا دیکھ رہے ہیں؟‘‘
’’لگتا ہے کہ یہاں کوئی رہ رہا ہے۔‘‘ دوسرے ساتھی نے تجزیہ کیا۔ وہ آہستہ آہستہ پیچھے ہٹنے لگے، اس وقت وہ اپنے خیموں سے کافی دور آ چکے تھے۔ وہ درختوں کی اوٹ سے ان سایوں کا جائزہ لے رہے تھے، انہیں مکمل اطمینان تھا کہ وہ محفوظ ہیں مگر اچانک ہی ایک ایسا واقعہ پیش آیا کہ ان کا تحفظ خطرے میں پڑ گیا۔ ایک ممبر کے ہاتھوں میں موجود گن غلطی سے چل گئی، فائر کی آواز سے جنگل گونج اٹھا، سب کے رنگ فق پڑ گئے، ادھر پہاڑی پہ موجود سایوں کی نقل و حرکت میں تیزی سی محسوس ہونے لگی اور پھر دوڑتے قدموں کی ہلکی ہلکی آوازیں سنائی دیں:
’’دوستو، مارے گئے ہم، اب نکلو یہاں سے۔‘‘
ارحم نے چیخ کر کہا اور وہ سب بے ہنگم انداز میں بھاگنے لگے۔ ان کے مقابل لوگ شاید جنگل کے بارے میں کچھ زیادہ جانتے تھے، مزید یہ کہ وہ سب تربیت یافتہ لگ رہے تھے لہٰذا انہوں نے پندرہ منٹ بعد ہی ان تمام کو گھیر لیا اور جلد ہی وہ سب ان کے قبضے میں تھے، انہوں نے دیکھا وہ سب سیاہ فام آدمی تھے اور انہوں نے خاکی وردیاں زیب تن کر رکھی تھیں۔ وہ انہیں ہانکتے ہوئے پہاڑی پہ لے گئے، یہ لوگ وہاں غاروں میں رہائش پذیر تھے۔ انہیں ایک غار میں ٹھونس دیا گیا اور غار کے دہانے کو لوہے کے جنگلے سے بند کر دیا گیا، وہ سب بری طرح سے پھنس چکے تھے۔
٭…٭…٭
غار میں کافی گھٹن تھی۔ ان سب کا بھوک پیاس سے برا حال تھا۔ سبھی دوست ارحم کو گھور رہے تھے جس کی ضد کی وجہ سے وہ اس مصیبت میں پھنسے تھے۔ تقریباً تین گھنٹے بعد قدموں کی چاپ سنائی دی اور ان کے دل تیزی سے دھڑکنے لگے۔ تھوڑی دیر بعد دو مسلح افراد غار میں داخل ہوئے، ساتھ ہی ایک گونج دار آواز ان کی سماعتوں سے ٹکرائی:
’’چلو باہر نکلو‘‘ وہ اٹھ کھڑے ہوئے۔
’’ہاتھ اوپر‘‘ دوسرا حکم جاری ہوا اور وہ ہاتھ اوپر کیے باہر نکلے۔
’’اس طرف‘‘ باہر کھڑے تیسرے آدمی نے ایک نشیبی راستے کی طرف اشارہ کیا۔ وہ سب اس طرف بڑھ گئے، پہاڑ کی اترائی کافی کٹھن تھی، وہ آہستہ آہستہ نیچے اترنے لگے، تھوڑی دیر بعد وہ ایک خیمے کے سامنے کھڑے تھے، یہ خیمہ دامن کوہ میں تھا۔
’’اندر چلو‘‘ اسی مسلح شخص نے تحکمانہ انداز میں کہا، وہ اندر داخل ہوئے۔ اندر کا منظر حیران کن تھا، میز کرسیاں ترتیب سے رکھی تھیں۔ ایک طرف دو کمپیوٹر بھی پڑے تھے۔ وہاں تین افراد موجود تھے۔ انہیں آتا دیکھ کر وہ اٹھ کھڑے ہوئے اور ان میں سے ایک بولا:
’’اس طرف بیٹھیں۔‘‘ اس نے کرسیوں کی طرف اشارہ کیا۔ اس کا لہجہ قدرے نرم تھا، وہ جلدی سے کرسیوں پہ بیٹھ گئے۔ ان کے بیٹھتے ہی وہ تینوں حرکت میں آ گئے۔ ایک نے کیمرہ سنبھال لیا اور ان کی تصاویر اتارنے لگا، دوسرے نے کمپیوٹر سنبھال لیا جبکہ تیسرے نے کاغذ قلم سنبھالا اور ان سے معلومات حاصل کر کے نوٹ کرنے لگا۔
’’آپ لوگ آخر چاہتے کیا ہیں۔؟‘‘
ان میں سے ایک نے پوچھا۔
’’یہ بات میں بتاؤں گا۔‘‘
عقب سے آنے والی آواز سے وہ چونک پڑے، مڑ کر دیکھا تو خیمے کے داخلی حصے سے ایک خوفناک شکل کا آدمی لمبے لمبے ڈگ بھرتا آ رہا تھا۔ اس کو دیکھ کر سبھی مؤدب ہو گئے، یقیناً وہ ان کا باس تھا، اس نے انہیں بغور دیکھا اور پھر اس کے چہرے پر مسکراہٹ رینگ گئی۔
’’بہت دلچسپ‘‘
اس نے بچوں کی طرح تالیاں بجاتے ہوئے کہا، پھر وہ بولا:
’’ان کی خیریت کی اطلاع ان کے گھروں تک پہنچا دو، ساتھ میں ان کی قیمت بھی بتا دینا۔‘‘
اس نے لفظ ’’قیمت‘‘ پر زور دیا تو وہ چونک پڑے۔
’’اوہ! کیا ہم اغوا کاروں کے ہتھے چڑھ گئے ہیں۔‘‘
ارحم کی ڈوبتی آواز سنائی دی۔
’’واہ بھئی بہت عقل مند ہو، بہت جلدی سمجھ گئے۔‘‘
باس ہنسا۔ پھر اس نے اپنے ماتحتوں سے کہا:
’’جو لوگ قیمت ادا کرنے پہ راضی ہو جائیں، انہیں اپنا پرانا ایڈریس دے دینا جو ہم پہلے استعمال کرتے ہیں اور ہاں یہاں سے سیٹ اپ فوراً ختم کرو، یہ جگہ اب محفوظ نہیں رہی، پوائنٹ نمبر ٹو پہ پہنچو۔‘‘
یہ کہہ کر باس باہر نکل گیا، انہیں اپنی جان نکلتی محسوس ہوئی کیوں کہ اب انہیں پتہ چل چکا تھا کہ وہ اغوا کاروں کے چنگل میں پھنس چکے ہیں۔ تھوڑی دیر بعد انہیں ایک جیپ میں ٹھونس دیا گیا اور جیپ پہاڑی راستوں پر اچھلتے ہوئے آگے بڑھنے لگی۔
٭…٭…٭
’’پتہ نہیں ہمارے گھر والوں پہ کیا بیت رہی ہو گی۔‘‘
ان سات میں سے ایک نے کہا۔ ان کے نام ارحم، زبیر، شاہ میر، عرفان، نصیر، علی اور اسلم تھے۔
’’اندازہ کرنا محال ہے۔‘‘
شاہ میر نے خوف سے آنکھیں میچ لیں۔
’’ہمیں کچھ سوچنا چاہیے۔‘‘
زبیر نے کہا تو وہ سب اس کی طرف دیکھنے لگے۔
’’کیا مطلب؟ کیا کر سکتے ہیں ہم؟‘‘
عرفان نے منہ بنایا۔
’’کم از کم ہم سوچ تو سکتے ہیں کہ یہاں سے کس طرح نکلیں۔‘‘ زبیر نے زور دیتے ہوئے کہا۔
’’وہ تو ٹھیک ہے مگر اب ہم نہتے ہو گئے ہیں۔‘‘ ارحم نے مایوس لہجے میں کہا۔
’’نہیں، ہم کوئی نہ کوئی حل نکال سکتے ہیں۔‘‘ زبیر اپنی بات پر مصر تھا۔
’’جناب عالی، آپ نے یہ نوٹ کیا ہے کہ ہم پہلے والی جگہ پر نہیں ہیں، ہماری جیپ تین گھنٹے چلتی رہی تھی پھر ہم یہاں پہنچے ہیں، اس کا مطلب ہے کہ ہم اپنے کیمپ اور اس جنگل سے بہت دور آ چکے ہیں۔‘‘ شاہ میر نے منہ بنایا۔
’’لیکن ہم اپنے ہی ملک میں ہیں دوستو، اگر ہمارے پاس موبائل۔۔ موبائل۔۔!
زبیر کہتے کہتے رک گیا، اس کے چہرے پر امید کی کرنیں جگمگانے لگیں۔
’’کیا ہوا؟‘‘ نصیر نے اسے بغور دیکھا۔
’‘’مجھے ایک زبردست ترکیب سوجھ گئی ہے۔‘‘ زبیر نے جوش بھرے لہجے میں کہا۔
’’بتاؤ؟؟‘‘ ارحم نے پوچھا۔
’’دوستو! ان لوگوں نے ہماری تصاویر ہمارے گھر والوں کو ای میل کی ہیں، یہ کام انٹرنیٹ کے بنا ممکن نہیں ہے، اس کے علاوہ ان کے پاس رابطے کے لیے ضرور کوئی کنکشن ہو گا، کوئی سیٹلائٹ فون وغیرہ۔‘‘
زبیر نے جوش بھرے لہجے میں کہا۔
’’تو پھر؟؟‘‘ اسلم نے منہ بنایا، شاید اسے یہ باتیں ناقابل عمل لگ رہی تھیں۔
’’پھر یہ کہ ہمیں یہ نوٹ کرنا ہے کہ ان کا فون کہاں پہ ہوتا ہے اور ہم اسے کیسے حاصل کر سکتے ہیں؟۔‘‘
زبیر نے کہا۔
’’میرے خیال میں یہ قابل عمل ترکیب ہے۔‘‘
عرفان نے زبیر کی تائید کی۔
’’ہاں کوشش کرنے میں کیا حرج ہے۔‘‘ ارحم نے کہا تو سبھی اثبات میں سر ہلانے لگے۔
٭…٭…٭
’’ہم جو بیت الخلاء استعمال کرتے ہیں اس کے ساتھ والے کمرے میں فون اور کمپیوٹر موجود ہوتا ہے مگر مسئلہ یہ ہے کہ وہاں ہر وقت کوئی نہ کوئی موجود ہوتا ہے، ہمیں وہ وقت تلاش کرنا ہے جب اس کمرے میں کوئی نہ ہو۔‘‘ زبیر نے اپنی کارگزاری سنائی۔ انھیں وہاں آئے ہوئے دو دن گزر چکے تھے، اس دوران انہوں نے اس جگہ اور وہاں کے لوگوں کے معمولات کا جائزہ لے لیا تھا۔
’’یقیناً کھانے کے وقت وہ یہ کمرا چھوڑ دیتے ہوں گے۔‘‘
اسلم نے خیال ظاہر کیا۔
’’عین ممکن ہے، ہمیں یہ دیکھنا ہو گا، پھر ہم ایک کوشش کر سکتے ہیں۔‘‘ زبیر نے کہا۔
’’تمہارے ذہن میں کیا ترکیب ہے؟‘‘ ارحم نے پوچھا اور زبیر اسے منصوبہ بتانے لگا۔
’’اس میں خطرہ ہے۔‘‘ شاہ میر نے کہا۔
’’وہ تو ہے۔‘‘ زبیر نے کہا۔
’’میرے خیال میں اس میں کوئی خطرہ نہیں۔‘‘
عرفان نے کہا تو وہ سب چونک پڑے۔
’’کیا مطلب؟‘‘ علی نے پوچھا۔
’’مطلب یہ ہے کہ یہ اغوا کار گروہ ہے۔ اگر ہم پکڑے بھی گئے تو یہ ہمیں جان سے نہیں ماریں گے۔ کیونکہ انہوں نے تاوان وصول کرنا ہے اور بس۔‘‘
عرفان کی بات سے انھیں کچھ حوصلہ ملا۔ اب وہ سب مطمئن نظر آ رہے تھے۔
٭…٭…٭
یہ مغرب کا وقت تھا۔ انھوں نے اپنے پروگرام پہ عمل شروع کر دیا تھا۔ اس وقت ان کے دل تیزی سے دھڑک رہے تھے۔ زبیر نے منصوبے کے مطابق بیت الخلاء جانے کی اجازت مانگی اور وہ ایک پہرے دار کے ہمراہ باہر نکل گیا۔ وہ ابھی بیت الخلاء میں داخل ہوا ہی تھا کہ شاہ میر زور زور سے چیخنے لگا۔ پہرے دار ہڑبڑا گیا، اس نے سوچا کہ زبیر تو اندر ہی ہے لہٰذا وہ بھاگتا ہوا کمرے میں آیا۔
’’کیا مصیبت ہے؟‘‘ وہ دھاڑا۔ شاہ میر دوہرا ہو کر پیٹ پکڑے چلا رہا تھا۔
’’ہائے میں مر گیا، میرا پیٹ!!‘‘
’’اس کے پیٹ میں شدید درد ہے، اسے کوئی دوا دے دو۔‘‘
ارحم نے منت کرنے والے انداز میں کہا۔
’’پہلے وہ تو واپس آ جائے، جو اندر گھسا ہوا ہے۔‘‘ وہ غصے میں چیخا۔
’’ہائے میں مرا، مجھے لے چلو ظالمو!!‘‘ شاہ میر نے کراہتے ہوئے کہا۔
’’اٹھو، نکلو باہر‘‘ پہرے دار نے گن تانتے ہوئے کہا اور وہ پیٹ پکڑے باہر کی طرف بھاگا۔ پہرے دار اس کے ساتھ تھا۔ اس سارے عمل میں بمشکل ایک منٹ صرف ہوا ہو گا۔ زبیر کے لیے ایک منٹ ہی کافی تھا۔ وہ ساتھ والے کمرے سے فون اڑا کر اپنا کام کر چکا تھا۔ جب شاہ میر اور پہرے دار بیت الخلاء تک پہنچے تو وہ وہاں کھڑا اپنے ہاتھ دھو رہا تھا۔ پہرے دار نے اسے کمرے تک پہنچایا اور خود شاہ میر کو لیے ڈاکٹر کے کمرے کی طرف بڑھ گیا۔ زبیر کمرے میں پہنچ کر ایک کونے میں جا گھسا اور جلدی سے ایک نمبر ڈائل کرنے لگا۔ فوراً ہی بیل جانے کی آواز سنائی دی اور زبیر کا چہرہ خوشی سے لال ہو گیا۔
٭…٭…٭
وہ ایک ذمہ دار دوست کو کال کر کے صورت حال بتا چکے تھے۔ اب اس نے ان کی لوکیشن چیک کرنی تھی اور کار روائی کے لیے نفری لے کر پہنچنا تھا۔ اغوا کاروں کا فون انہوں نے بیت الخلاء جاتے ہوئے واپس اس کمرے میں پھینک دیا تھا۔ یہ کام اس ہوشیاری سے کیا گیا تھا کہ کسی کو بھی خبر نہ ہو سکی۔ اگلا دن بہت بے چینی سے گزرا۔
’’کیا خیال ہے اس کا کوئی نتیجہ نکلے گا؟‘‘ شاہ میر نے مسکرا کر پوچھا۔
’’ہاں کیوں نہیں۔ وہ کال کی لوکیشن چیک کریں گے پھر منصوبہ بندی کے بعد ہی یہاں کار روائی کریں گے۔‘‘ زبیر نے خیال ظاہر کیا۔
’’ہمیں بھی ہوشیار رہنا ہو گا، وہ ہمیں بھی ڈھال بنا سکتے ہیں۔‘‘ ارحم نے کہا۔
’’ہاں واقعی، ہم اس کمرے میں موجود چیزوں سے اپنے اپنے ہتھیار بنا لیں گے، ڈنڈا ٹائپ ہتھیار۔‘‘
اسلم نے کہا تو سبھی ادھر ادھر دیکھنے لگے۔
٭…٭…٭
رات کا اندھیرا گہرا ہو گیا تھا۔ اسپیشل فورسز کے جوان اس علاقے کو گھیرے میں لے چکے تھے اور کمانڈوز آہستہ آہستہ ہدف کی طرف بڑھ رہے تھے۔ ان کی خاموش پیش قدمی کی وجہ سے اغوا کار بے خبر تھے اور پھر کمانڈوز نے قریب پہنچ کر ہلہ بول دیا، اغوا کاروں نے بھی مقابلہ کیا مگر وہ زیادہ دیر نہ ٹک سکے، مزید یہ کہ ان کے پاس وافر مقدار میں اسلحہ بھی نہیں تھا لہٰذا انہوں نے ہتھیار ڈال دیئے اور گرفتاری دے دی۔ ان کی گرفتاری کے بعد یہ انکشاف ہوا کہ وہ اس سے قبل کئی وارداتیں کر چکے تھے اور مختلف کیسوں میں مطلوب تھے۔ ارحم اور اس کے ساتھیوں کو بحفاظت بازیاب کرا لیا گیا۔ اگلے دن وہ اپنی فرم کے دفتر میں اپنے ساتھیوں کے درمیان بیٹھے اپنے کارنامے کا تذکرہ فخریہ انداز میں کر رہے تھے۔ جنگل کا دھماکہ خیز معرکہ اختتام پذیر ہو چکا تھا۔
٭٭٭