اسکول میں ہونے والے ماہانہ امتحانات کے نتائج ’’نوٹس بورڈ‘‘ پہ آویزاں تھے۔ نوٹس بورڈ کے گرد طلباء کا ہجوم تھا اور وہ سب اپنے اپنے نتائج دیکھنے میں مگن تھے۔ نتائج دیکھنے کے بعد کچھ طلباء ہنسی خوشی کلاسوں کا رخ کر رہے تھے جبکہ کچھ کے چہروں پر اداسی نے ڈیرے ڈال لیے تھے۔ انس بھی انہی اداس طلباء میں سے ایک تھا۔ وہ ششم جماعت کا طالب علم تھا۔ اسے پڑھنے کا بے حد شوق تھا۔ وہ اسکول، ٹیوشن سینٹر اور گھر، تینوں جگہوں پر بغیر اکتائے اپنا کام کرتا مگر پھر بھی پوزیشن اس کے ہاتھ نہ آتی۔ وہ چاہتا تھا کہ اس کی فرسٹ یا سیکنڈ پوزیشن آئے اور اسے بھی ٹرافی ملے لیکن تا حال اس کی خواہش پوری نہ ہو سکی تھی اور اب تو اس کی کشتی مایوسی کے بھنور میں پھنس گئی تھی۔ اسے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ آخر اس میں کیا کمی ہے اور وہ پوزیشن کیوں نہیں لے پا رہا۔
٭…٭…٭
چھٹی ہو چکی تھی اور وہ بے دلی سے بیگ کندھے پر لٹکائے گھر کی طرف چلا جا رہا تھا۔ اس کا گھر اسکول سے قریب ہی واقع تھا، اس لیے وہ یہ سفر پیدل طے کرتا تھا۔ مختلف گلیوں سے ہوتا ہوا جب وہ اپنے گھر کے سامنے پہنچا تو اس کے قدم خود بخود اس طرف اٹھتے چلے گئے۔ یہ گلی کی نکڑ پر واقع ایک کتاب گھر تھا۔ ایک چھوٹا سا بک سٹال جس پر، بچوں کے میگزین اور بچوں کی بہت سی کتابیں سجی ہوئی تھیں۔ انس نے کبھی یہ میگزین نہیں خریدے تھے، لیکن آج نجانے کیوں اس کا جی چاہ رہا تھا کہ وہ کوئی کتاب خریدے، اس لیے وہ ادھر چلا آیا تھا۔ اس نے چند رسائل الٹ پلٹ کر دیکھے اور پھر اس کی نظریں ایک میگزین پر جم گئیں۔ میگزین کے سرورق پر ایک بچہ مسکراتا ہوا دوڑ رہا تھا اور جلی حروف میں لکھا تھا:
’’اپنی اصلاح خود کریں‘‘
اسے اس عنوان میں کشش سی محسوس ہوئی۔ اس نے کتاب گھر والے انکل سے بات کی اور میگزین کی قیمت ادا کر کے اُسے بیگ میں ڈالا اور گھر کی طرف بڑھ گیا۔
٭٭٭
انس نے آہٹ سنی تو چونک گیا۔ اس نے مڑ کر دیکھا تو اس کے کمرے میں میگزین والا لڑکا کھڑا مسکرا رہا تھا:
’’تت۔۔ ۔ تم یہاں کیسے؟؟‘‘
انس نے بے یقینی کے عالم میں پوچھا۔
’’تم خود ہی تو مجھے لائے ہو یہاں۔‘‘
لڑکا مسکرایا۔ پھر وہ اس کے قریب آ کر بیٹھ گیا اور بولا:
’’میں تمہیں یہ بتانے آیا ہوں کہ تم پوزیشن کیوں نہیں حاصل کر پا رہے۔‘‘
’’کیا واقعی؟‘‘
انس نے خوشی سے پوچھا۔
’’جی ہاں بالکل، آپ اس ٹرم کے پرچے لے آؤ ذرا۔‘‘
لڑکے نے کہا تو انس نے بیگ سے چیک شدہ پیپرز نکالے۔
لڑکے نے اس کے پیپرز کھولے اور بولا:
’’آپ نے میگزین والی کہانی میں یہی پڑھا ہے نہ کہ اپنی غلطیاں خود تلاش کریں اور ان کی اصلاح کریں؟؟۔‘‘
’’بالکل، یہی پڑھا ہے۔‘‘
انس نے پلکیں جھپکائیں۔
’’تو پھر اپنے پیپرز دیکھیے نہ‘‘
لڑکے نے ہنس کر کہا اور اس کے پیپرز کھول کر کہنے لگا:
’’دیکھیے، آپ حاشیے نہیں لگاتے جس سے پیپر بد نما لگتا ہے، اور ادھر دیکھیے آپ کے ٹیچر نے کیا لکھا ہے:
’’جواب مکمل جملے میں لکھیں، آدھے فقرے میں نہ لکھیں۔‘‘ کیوں کہ جواب سنانے اور لکھنے میں فرق ہوتا ہے۔ سناتے ہوئے تو ایک لفظ بتانے سے جواب درست ہو جاتا ہے جبکہ لکھتے ہوئے مکمل جملہ لکھنا چاہیے، اور اس کے علاوہ آپ اپنے پیپر میں پیراگرفنگ نہیں کرتے، بس مسلسل لکھتے چلے جاتے ہیں۔ آپ کو چاہیے کہ آٹھ دس سطور کے بعد ایک نیا پیراگراف بنائیں۔
لڑکے کی باتیں انس کے دل و دماغ میں اُترتی جا رہی تھیں۔
اب وہ لڑکا اٹھ کھڑا ہوا اور کہا:
’’انس بھائی، اب میں چلتا ہوں، آپ نے اپنے چیک شدہ پیپرز کو غور سے پڑھنا ہے اور آپ کے ٹیچرز نے جو کمنٹ لکھے ہیں ان کی روشنی میں اپنی غلطیاں تلاش کرنی ہیں اور اگلے ٹیسٹ میں ان غلطیوں کو سدھارنا ہے، اور میری طرح ہنستے ہوئے منزل کی طرف چلنا ہے۔‘‘
’’بالکل، لیکن آپ رکیں تو سہی، آپ کا نام کیا ہے، اور پانی تو پیتے جائیں۔‘‘
انس نے اسے روکنا چاہا مگر وہ تو اللہ حافظ کہتا ہوا کمرے سے باہر نکل چکا تھا اور اس کے جاتے ہی دروازہ زور سے بند ہوا تھا۔
٭…٭…٭
کمرے کے دروازے پر شور سا ہوا تو انس کی آنکھ ایک جھٹکے سے کھلی۔ اس نے دیکھا تووہ اپنے کمرے میں سو رہا تھا۔ میگزین اس کے سینے پر کھلا ہوا پڑا تھا۔ اس نے آنکھیں ملیں اور کچھ دیر پہلے دیکھے گئے خواب کے مناظر کو ذہن میں دہرانے لگا۔ پھر اس نے رسالہ اُٹھایا اور رسالے پہ بنی اس لڑکے کی مسکراتی تصویر دیکھ کر وہ بھی بے اختیار مسکرا دیا۔ اس لمحے خوشی نے اس کی مرجھائی ہوئی روح کو پھر سے کھلا دیا تھا۔ وہ ایک نئے عزم کے ساتھ اٹھا اور بیگ سے چیک شدہ پیپرز نکالنے لگا۔ اسے پوزیشن حاصل کرنے کا راز مل چکا تھا۔
٭٭٭