کس کی ہوئی مالش!!!!
دانش، دانش، دانش!!!!
کلاس روم میں یہ نعرے تسلسل سے گونج رہے تھے۔ ان نعروں کے ساتھ ساتھ شریر لڑکے قہقہے بھی لگا رہے تھے۔ وہ سب اپنے کلاس فیلو دانش کا مذاق اڑا رہے تھے جسے ریاضی کے لیکچر میں سر قیصر صاحب نے سزا دی تھی اور وہ پورا لیکچر ہاتھ اوپر کیے کھڑا رہا تھا۔ جیسے ہی لیکچر ختم ہوا اور بریک کی گھنٹی بجی، لڑکوں نے کمرہ سر پہ اٹھا لیا اور دانش پہ آوازیں کسنے لگے۔ دانش بے چارہ منہ چھپائے بیٹھا رو رہا تھا۔
’’دانش!!! کیا تم ریاضی کے نئے فارمولے مقرر کرنے جا رہے ہو ہاہاہاہاہاہا!!!
ایک لڑکے نے دانش کو چھیڑا۔
’’نہیں میرا خیال ہے کہ یہ الخوارزمی بننا چاہتا ہے، الخوارزمی نیو ورژن، ہاہاہاہاہاہاہا!!!!‘‘
دوسرے شریر نے آوازہ کسا اور سبھی قہقہے لگانے لگے۔
دانش نہم جماعت کا طالب علم تھا۔ وہ باقی تمام مضامین میں تو اچھی کارکردگی دکھا رہا تھا لیکن ریاضی کا مضمون اس کے لیے دردِ سر بنا ہوا تھا۔ وہ اپنے تئیں تو سوال سمجھنے کی بے حد کوشش کرتا لیکن جب وہ کسی نقطے پہ الجھ جاتا تو پھر اس کی سمجھ میں کچھ بھی نہ آتا اور وہ اکتاہٹ اور بے زاری کا شکار ہو جاتا۔ ایسے میں وہ مایوسی کے عالم میں اپنی توجہ کسی اور طرف مبذول کر لیتا، یوں وہ ریاضی میں کمزور ہوتا چلا گیا اور اب تو وہ ہر ٹیسٹ میں سزا پاتا تھا۔ اس کی ’’مستقل سزا یابی‘‘ دیکھ کر کلاس کے شریر لڑکوں نے اس کا مذاق اڑانے کے لیے اس کے نام کے ’’نعرے‘‘ تک بنا ڈالے تھے۔ وہ اپنے بارے میں فکرمند تو تھا لیکن اسے کوئی راہ سجھائی نہ دے رہی تھی۔ آخر کار اس نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنے ٹیچر کو سب کچھ صاف صاف بتا دے اور ان سے اس بارے میں مشورہ کرے۔ چھٹی کے بعد اس نے گھرکے ضروری کام کاج نمٹائے، پھر وہ ریاضی کے ٹیچر سر قیصر صاحب کے گھر کی طرف چل پڑا۔
٭…٭…٭
دستک کی آواز پہ سر قیصر صاحب باہر اور آئے اور پھر ان کے چہرے پر حیرت نے ڈیرے ڈال لیے، وہ بولے:
’’السلام علیکم دانش بیٹے تم؟؟‘‘
’’وعلیکم السلام سر، معذرت سر، میں نے آپ کو ڈسٹرب کیا۔‘‘
دانش نے جھجکتے ہوئے انداز میں سلام کا جواب دیا۔
’’ارے نہیں بیٹے، خوش آمدید، اندر آ جاؤ۔‘‘
سر نے اسے اندر آنے کا اشارہ کیا۔ تھوڑی دیر بعد وہ دونوں بیٹھک میں آمنے سامنے بیٹھے تھے۔
’’محترم سر!! مجھے سمجھ نہیں آ رہی کہ میں اپنی بات کیسے بیان کروں۔۔ بات یہ ہے۔۔ کہ۔۔ ۔ میں ریاضی نہیں سمجھ پاتا۔ مجھے ریاضی کی بالکل سمجھ نہیں آتی، میں کیا کروں آپ ہی مجھے مشورہ دیں۔‘‘
دانش نے کانپتی آواز کے ساتھ اپنا مسئلہ بیان کیا۔
’’بہت بہتر، لیکن یہ بات تم مجھے آج بتا رہے ہو جب تعلیمی سیشن کو چھے ماہ گذر چکے ہیں؟‘‘
سر قیصر صاحب نے برہمی کا اظہار کیا۔
’’وہ سر۔۔ ۔ مجھے ڈر لگتا تھا سر!!‘‘
دانش بولا۔
’’نہیں بیٹا جی!! ڈر کیسا؟؟ ہم ٹیچر ہیں اور ٹیچر کا کام ہی بچوں کو سمجھانا اور سکھانا ہے تو اس بات سے ہم ناراض کیوں ہوں گے بھلا؟‘‘
قیصر صاحب نے اب کی بار نرم لہجے میں کہا۔
’’جی سر!!‘‘
دانش نے مختصر سا جواب دیا۔
’’اوکے، آج مجھے کہیں جانا ہے، کل سے تم روزانہ اس وقت میرے پاس آ جایا کرو، ہم آپ کا مسئلہ حل کریں گے ان شاء اللہ۔‘‘
سر نے اسے ہدایت کی اور دانش نے بھی جواب میں ’’ان شاء اللہ‘‘ کہا۔ اس کے بعد وہ واپس چل پڑا۔ سر قیصر صاحب کسی سوچ میں ڈوب گئے تھے۔
٭…٭…٭
’’ہاں بھئی دانش میاں کیسے ہو؟‘‘
سر قیصر صاحب نے سلام دعا کے بعد دوستانہ انداز میں پوچھا۔ وہ اس وقت سر کے پاس ریاضی پڑھنے آیا ہوا تھا۔
’’الحمد للہ سر!!!‘‘
دانش اتنا ہی کہ سکا۔
’’اچھا دانش!! سب سے پہلے دو باتیں ذہن نشین کر لیں۔ پہلی بات تو یہ کہ ریاضی سمجھنے کے لیے آپ نے مکمل توجہ اور محنت سے کام لینا ہے۔ ریاضی کا مضمون تو بہت زیادہ محنت مانگتا ہے۔ گویا ریاضی اور ’’ریاض‘‘ (محنت) کا چولی دامن کا ساتھ ہے، ہم یوں بھی کہ سکتے ہیں کہ یہ لازم ملزوم ہیں۔ دوسری یہ کہ سوال جس قدر سمجھ آئے، سچ سچ بتانا ہے، اکثر ایسا ہوتا ہے کہ طالب علم بنا سمجھے ہی کہ دیتے ہیں کہ ’’سمجھ لیا‘‘ ۔ بالفرض اگر ایک حرف بھی سمجھ نہیں آئے تو صاف صاف بتا دینا ہے۔‘‘
سر قیصر صاحب نے اسے سمجھایا۔
’’جی بالکل ٹھیک سر!!‘‘
دانش نے جواب دیا۔
اب سر قیصر نے کاپی سنبھال کر الجبرا کی ابتدائی چیزوں سے شروعات کیں، وہ سوال لکھتے اور دانش اسے حل کر لیتا، یوں وہ یہ جاننے کی کوشش کر رہے تھے کہ دانش کس کس ٹاپک میں کمزور ہے۔ کچھ دیر بعد سر نے یہ جان لیا کہ دانش ’’سیٹ اینڈ فنکشنز‘‘ والے ٹاپک میں کمزور ہے۔‘‘
’’مجھے یہ حصہ بالکل ہی نہیں آتا‘‘
دانش شرمندگی سے گویا ہوا۔ سر قیصر مسکرانے لگے، پھر وہ بولے:
’’بچے!! آتا تو ہمیں کچھ نہیں، نہ مجھے، نہ آپ کو لیکن ہم نے سیکھا ہے، آپ بھی سیکھ جائیں گے۔ دنیا میں سب کچھ ممکن ہے۔ محنت سے آپ ہر کام ممکن بنا سکتے ہیں، اب جو ٹاپکس آپ کو سمجھ نہیں آئے، اس کی کچھ وجوہات ہوں گی۔ ہو سکتا ہے جب وہ ٹاپک پڑھائے گئے ہوں تب آپ اسکول نہ آئے ہوں یا پھر آپ کی توجہ نہ ہو کیوں کہ مشہور ہے کہ ’’لمحوں نے خطا کی، صدیوں نے سزا پائی‘‘ ۔ بعض اوقات معمولی سی غلطی سے آدمی بڑا نقصان کر لیتا ہے۔ اس لیے عین ممکن ہے کہ جب آپ کے ٹیچر سمجھا رہے ہوں تب آپ کھیل رہے ہوں، آپ کی توجہ نہ ہو یا کوئی اور مسئلہ ہو۔ اچھا اب میں آپ کو یہ ٹاپکس سمجھاتا ہوں۔‘‘
سر نے اسے تفصیل سے سمجھایا۔
’’اوکے سر، شکریہ سر‘‘
دانش نے تشکر بھرے لہجے میں کہا۔ اب سر قیصر اسے یکسوئی سے سمجھانے لگے اور وہ پوری توجہ سے سمجھنے لگا، لمحہ بہ لمحہ دانش کے چہرے کا رنگ بدل رہا تھا، اب وہاں الجھن کی جگہ سلجھن کے آثار نظر آنے لگے تھے۔ الجھن سے سلجھن تک کا یہ سفر آسانی سے طے ہو رہا تھا۔ دانش روزانہ سر قیصر سے سوالات سمجھتا اور پھر ان پہ بہت زیادہ ’’ریاض‘‘ کرتا، یوں تھوڑے ہی عرصے میں اس کی ریاضی بہتر ہو گئی۔
٭…٭…٭
’’اب میں ہفتہ وار ٹیسٹ کے نتائج بتانے لگا ہوں، اس ہفتہ کے ٹاپر ہیں دانش انصاری، دانش کے لیے پر زور تالیاں!!!!‘‘
سر قیصر نے اعلان کیا تو کمرۂ جماعت پہلے آہستہ اور پھر تیز تالیوں سے گونج اٹھا۔ اس دوران جماعت کے بعض طلبہ حیران بھی دکھائی دے رہے تھے۔ اس حیرانی کی وجہ یہ تھی کہ دانش نے کبھی بھی ریاضی میں پوزیشن حاصل نہیں کی تھی بلکہ الٹا یہ ہوتا کہ اسے اکثر ڈانٹ ڈپٹ کا سامنا کرنا پڑتا لیکن آج تو معاملہ برعکس تھا۔ دانش پوری کلاس کو ٹاپ کر چکا تھا۔
’’دانش بیٹا، آؤ اور اپنا انعام وصول کرو‘‘
سر نے اس کا نام پکارا تو دانش جلدی سے اٹھا اور ڈائس کی طرف بڑھ گیا، تھوڑی دیر بعد وہ انعام لے کر واپس اپنی نشست پہ بیٹھ چکا تھا۔ ’’ہاں تو بچو!! دانش کی تبدیلی پہ کس کس کو حیرت ہوئی؟‘‘
سر نے مسکراتے ہوئے پوچھا۔ اس سوال پہ اکثر لڑکوں نے ہاتھ کھڑے کیے، سر قیصر برابر مسکراتے رہے، پھر وہ بولے:
’’بچو!! بات یہ ہے کہ اگر آم کے ایک پیڑ پہ ایک سال تیس آم لگیں تو اس کا یہ ہرگز مطلب نہیں کہ اگلے سال اس پہ بیس آم لگیں گے، بلکہ اگلے سال چالیس آم بھی لگ سکتے ہیں، اس لیے اگر کسی طالب علم کی کارکردگی کمزور ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ دن بہ دن کمزور ہوتی چلی جائے گی، بلکہ وہ بہتر بھی ہو سکتی ہے۔ کیا ایسے ہی ہے؟؟‘‘
سر نے کلاس سے رائے لی۔ ’’یس سر‘‘
بچوں نے جواب دیا۔
’’گڈ، اب دوسری بات سنیں، ایک فیکٹری میں بجلی کا سارا انتظام درست ہو، تمام تاریں درست طریقے سے لگائی گئی ہوں، بجلی بھی موجود ہو لیکن صرف ایک جگہ محض ایک انچ تار نہ ہو، اسے کاٹ لیا گیا ہو تو کیا فیکٹری تک بجلی پہنچ پائے گی؟؟ ظاہر بات ہے ہرگز نہیں!!، اس ایک انچ کی غلطی سے پوری فیکٹری اندھیرے میں ڈوبی رہے گی، ایسے ہی ایک طالب علم سبق کے دوران کچھ ’’لمحوں‘‘ کا جرم کرتا ہے، وہ کچھ لمحوں کے لیے اپنی توجہ سبق سے ہٹا لیتا ہے لیکن ان لمحوں کی سزا بعد میں اسے بھگتنا ہوتی ہے، ایسا ہی کچھ دانش کے ساتھ تھا، اسے ریاضی سمجھ نہیں آ رہی تھی اور اس کی وجہ یہ تھی کہ اس نے ان ٹاپکس کے سمجھنے میں غفلت برتی تھی اور اسے کچھ پہلو سمجھ نہیں آئے تھے۔ اب یہ انھیں سمجھ چکا ہے، اب چونکہ ان ’’لمحوں‘‘ کی بے توجہی کی تلافی ہو چکی ہے لہذا اب اس کے لیے آسانی ہو رہی ہے۔ یہ ہے کل کہانی!!!
سر قیصر صاحب نے کہا۔ سر کی بات مکمل ہوتے ہی بچوں نے ایک بار پھر پر زور تالیاں بجائیں۔ تالیوں کی گونج رکی ہی تھی کہ ایک لڑکے نے زور سے نعرہ لگایا: ’’کس کی ہوئی ستائش؟‘‘
اور ساری کلاس پکارنے لگی: ’’دانش، دانش، دانش!!!‘‘
’’کس نے کی ہے کاوش؟‘‘
’’دانش، دانش، دانش!!!‘‘
یہ انوکھے نعرے سن کر دانش بے اختیار مسکرا دیا، سر قیصر صاحب بھی مسکراتے ہوئے زیرِ لب یہ شعر پڑھ رہے تھے: ۔
تو اپنی سر نوشت اب اپنے قلم سے لکھ
خالی رکھی ہے خامۂ حق نے تری جبیں
٭٭٭