عالیان نے عنصر کو دیکھا اور پھر کافی دیر تک دیکھتا ہی چلا گیا۔ عنصر کے بال بے حد خوب صورت تھے۔ نرم و ملائم اور چمک دار جب کہ عالیان کے بال نہایت سخت، اکڑے ہوئے اور روکھے تھے۔ وہ انھیں سنوارنے کی جتنی کوششیں کرتا، ناکام رہتا تھا۔ چونکہ عالیان حساس مزاج کا مالک تھا اس لیے وہ اپنے بارے میں چھوٹی چھوٹی باتوں پر بھی پریشان رہتا تھا۔ اب انہی بالوں کے مسئلے کو لے کر وہ احساس کمتری کا شکار بنا ہوا تھا۔ وہ کلاس اور اسکول میں دیگر ہم مکتب ساتھیوں کے بال دیکھتا اور ان کا موازنہ اپنے بالوں سے کر کے اندر ہی اندر کڑھتا رہتا تھا۔ علاوہ ازیں اس کے کچھ ہم جماعت دوست بھی اس کا مذاق اڑاتے رہتے جس سے اس کا دل مزید دکھتا تھا۔ اس وقت بھی وہ انہی سوچوں میں گم تھا۔ یہ بریک کا وقت تھا۔ اچانک کچھ شریر لڑکوں کا گروہ وہاں آپہنچا، وہ سب عالیان کے گرد جمع ہو گئے:
’’عالیان میاں!! آپ اپنے ان ’’تاریخی‘‘ بالوں پہ کون سا ’’خوش قسمت‘‘ شیمپو لگاتے ہیں۔‘‘
ایک شریر نے فقرہ کسا۔ عالیان خاموش رہا۔
’’میرے خیال میں اسے شیمپو کی جگہ ’’گریس ٹائپ‘‘ کوئی چیز استعمال کرنی چاہیے۔‘‘
دوسرے طالب علم نے پھبتی کسی۔
’’نہیں دوستو!! میں ایک اور مشورہ دوں گا اور وہ یہ کہ عالیان اپنے ان کڑے ہوئے بالوں میں ’’گھنگرو‘‘ ڈلوا لے، جدھر سے گزرے گا ایک دنیا اسے دیکھے گی اور میرا یار ’’سپر اسٹار‘‘ بن جائے گا۔‘‘ تیسرے شرارتی نے عالیان کا مذاق اڑایا۔
’’ہاہاہاہاہاہاہاہاہاہاہاہاہاہاہا‘‘
ان سب کے قہقہے طویل ہوتے چلے گئے۔ ادھر عالیان نے منہ چھپا کر رونا شروع کر دیا تھا۔
٭…٭…٭
’’عالیان بیٹا!! جلدی کرو کیا کر رہے ہو آخر، وین والا کافی دیر سے ہارن بجا رہا ہے، سن نہیں رہے کیا؟؟‘‘
امی جان کی پکار سن کر عالیان جیسے خواب سے جاگا، وہ اس وقت آئینے کے سامنے کھڑا بالوں کو کنگھا کر رہا تھا کہ نجانے کن خیالوں میں کھو گیا تھا۔
’’جی امی! بس میں چلا۔‘‘
اس نے بلند آواز میں کہا اور پھر وہ امی کو سلام کرتا ہوا باہر نکل گیا۔
وین میں سوار ہو کر وہ سارا راستہ اپنے بارے میں سوچتا رہا۔ اسکول پہنچ کر وہ سیدھا اسمبلی میں پہنچا اور دعا میں شامل ہو گیا۔ دعا ہوئی اور اس کے بعد اسمبلی ماسٹر سر نعیم صاحب نے بچوں کو وہیں بیٹھنے کا اشارہ دیا۔ سب طلبہ گراسی پلاٹ پہ بیٹھ گئے۔ آج اسٹیج پہ کچھ غیر معمولی ہلچل سی نظر آ رہی تھی۔ سارے بچے چشم انتظار بنے بیٹھے تھے کہ کیا رونما ہونے جا رہا ہے۔ اس وقت نعیم صاحب کی آواز گونجی:
’’عزیز طلباء!! السلام علیکم‘‘
وہ سلام کا جواب سننے کے لیے رکے اور پوری اسمبلی نے بیک زبان وعلیکم السلام کہہ کر جواب دیا۔
نعیم صاحب دوبارہ گویا ہوئے:
’’جیسا کہ آپ سب کو معلوم ہے کہ ہمارے اسکول کے معزز استاذ جناب شہباز صاحب عمرہ کی سعادت حاصل کرنے تشریف لے گئے تھے، الحمد للہ وہ واپس تشریف لا چکے ہیں اور آج سے وہ اپنے تدریسی امور دوبارہ سر انجام دینا شروع کر دیں گے۔ اس موقع پہ ہم انھیں عمرہ کی مبارک باد پیش کرتے ہوئے ان کا بھرپور انداز میں استقبال کریں گے۔‘‘
اس اعلان کے بعد سر شہباز صاحب اساتذہ کے جلو میں نمودار ہوئے۔ طلباء نے کھڑے ہو کر ان کا استقبال کیا اور خوب تالیاں بجائیں۔ اس کے بعد پرنسپل صاحب اور دیگر اساتذہ نے انھیں پھولوں کے ہار پہنائے اور مبارک باد پیش کی۔ بچے اپنے استاد محترم کی واپسی پہ بے حد خوش تھے۔ ایسے میں نعیم صاحب کی آواز لہرائی:
’’بچو!! کیا خیال ہے اس موقع پر ایک اچھی سی نعت ہو جائے؟‘‘
’’یس سر!!!!‘‘ بچوں کی آواز کی گونج سنائی دی۔
’’اوکے، آج میں آپ کو ایک ایسی آواز سنوانے جا رہا ہوں جو یقیناً ہمارے اسکول کی سب سے خوب صورت آواز ہے۔ یہ بچہ جسے میں اپنے اسکول کا ہیرا کہوں گا، میں نے پچھلے ہفتے ہی دریافت کیا، آپ بھی سنیں گے تو آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ میں درست کہہ رہا ہوں، اب نعت کے لیے تشریف لاتے ہیں ساتویں جماعت کے طالب علم عالیان!!!۔‘‘
اپنا نام سنتے ہی عالیان دھک سے رہ گیا۔ پچھلے ہفتے بزم ادب میں سر نعیم صاحب نے اسے نعت سنانے کا کہا تھا، لیکن اسے اندازہ نہیں تھا کہ اس نے اس قدر اچھی نعت پیش کی تھی کہ سر اسے اسکول کا ہیرا قرار دیں گے۔ عالیان کو اسٹیج، زمین آسمان اور سارا منظر گھومتا ہوا سا محسوس ہوا۔ وہ مشکل سے اٹھا۔ اس نے دیکھا تمام طلبہ اس کے لیے تالیاں بجا رہے تھے۔ وہ تمام طلبا ء جو اس کا اور اس کے بالوں کا مذاق اڑاتے تھے۔ اس کا چہرہ جوش اور خوشی سے سرخ ہو گیا تھا۔ اب وہ سنبھل چکا تھا۔ وہ تیز تیز قدم اٹھاتا اسٹیج پہ جا پہنچا اور سر نعیم صاحب نے اسے مائیک تھما دیا۔ ساتھ ہی انھوں نے عالیان کے کندھے پہ تھپکی دی اور کہا:
’’شاباش بچے، اعتماد سے نعت پیش کرو۔‘‘
عالیان پراعتماد انداز میں مسکرایا اور پھر اس نے نعت پڑھنا شروع کر دی۔ اس کی آواز میں عجیب سی مسحوریت تھی، سوز اور درد تھا۔ پوری محفل پہ سکتہ سا طاری ہو گیا۔ عالیان نے جیسے ہی نعت مکمل کی چاروں طرف سے ماشاء اللہ، سبحان اللہ کی صدائیں بلند ہوئیں۔ وہ اسٹیج سے اتر رہا تھا کہ پرنسپل صاحب کی آواز سنائی دی؛
’’رکو بیٹا!!!‘‘
عالیان چونک کر مڑا، اس نے دیکھا پرنسپل صاحب ڈائس کی طرف چلے آ رہے تھے۔ انھوں نے مائیک سنبھالا اور بولے:
’’عالیان ویلڈن بیٹا!! آپ کے پاس نعت خوانی کا عمدہ فن موجود ہے اور یہ جادوئی آواز عطیہ خداوندی ہے، اپنے فن کو مشق اور محنت سے نکھارئیے۔ ہم میں سے ہر ایک کے اندر کوئی نہ کوئی جوہرِ خاص چھپا ہوتا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہوتی ہے کہ اسے اپنے اندر سے ڈھونڈا جائے اور پھر اس سے فائدہ اٹھایا جائے، شاباش عالیان!!! خوب دل لگا کر پڑھیں اور میری طرف سے یہ انعام بھی لیتے جائیں۔‘‘
عالیان کو خوش گوار سی حیرت ہوئی۔ پرنسپل صاحب نے پانچ سو کا نوٹ اس کی طرف بڑھایا، اس نے شکریہ ادا کرتے ہوئے انعام وصول کیا، سب طلباء نے ایک بار پھر بھرپور تالیاں بجائیں اور عالیان اپنی جگہ کی طرف بڑھ گیا۔
٭…٭…٭
اب اسکول میں چاروں طرف عالیان کے چرچے تھے۔ اس کی کلاس میں بریک کے وقت بہت سے طالب علم اس سے ملنے آئے تھے۔ اس کی اپنی کلاس کے طلباء بھی اب اس کے قریب ہونے لگے تھے۔ شرارتی طلباء نے بھی اس کا مذاق اڑانا چھوڑ دیا تھا۔ عالیان دل ہی دل میں سوچ رہا تھا کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک ہم سب قیمتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے تو ہم سب کے اندر بے شمار خوبیاں رکھ دی ہیں، بس ہم نے ان کی کھوج لگانی ہے اور انھیں استعمال کرنا ہے۔ وہ یہ بات بھی سمجھ چکا تھا کہ ظاہری سراپا اور حلیہ ثانوی حیثیت رکھتے ہیں، اصل چیز انسان کا فن اور ہنر ہے جس پہ توجہ دینی چاہیے۔ وہ دل ہی دل میں اللہ تعالیٰ کے حضور عاجزی و انکساری سے جھکا جا رہا تھا جس کی عنایت سے عالیان کو اپنا جوہرِ خاص مل چکا تھا۔ اسے منزل کی طرف جانے والا راستہ مل چکا تھا اور اب وہ اس سفر کو طے کرنے کے لیے پر عزم تھا۔
٭٭٭