(Last Updated On: )
شکوہ بنامِ گردشِ ایام چھوڑ کر ۔۔
کیوں جا رہے ہو اچھا بھلا کام چھوڑ کر ۔۔
وہ اپنی کاوشیں تھیں کہ سب کچھ ڈبو دیا ۔۔
اجداد تو گئے تھے بڑا نام چھوڑکر ۔۔
بہتر یہی ہے صبح سے پہلے ہی اٹھ چلیں ۔۔
جلتے ہوئے چراغ ، لبِ بام چھوڑ کر ۔۔
ہم پہ تو کوئی جرم ہی ثابت نہیں ہوا ۔۔
مندرجہ ذیل تہمت و الزام چھوڑ کر ۔۔
اب کس جگہ پڑاؤ ہے اور کتنے دن کا ہے ۔۔
جاتے ہوئے ، گئے نہیں پیغام چھوڑ کر ۔۔
گلیاں ہیں یا ہیں بھول بھلیاں ، عذاب ہے ۔۔
آنا پڑے گا تجھ کو سرِ شام چھوڑ کر ۔۔
نجمی پرائے دیس میں رہنا پڑا ہمیں ۔۔
آبائی گھر کی راحت و آرام چھوڑ کر ۔۔